چین کا سفر، آٹھویں قسط

 تحریر: عاطف ملک

اس سے پچھلی قسط، ساتویں قسط درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_19.html 

اگلے دن صبح ناشتہ یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں کیا۔ناشتہ بوفے تھا اور ناشتے کی لوازمات بنانے والوں نے سفید ٹوپیاں پہن رکھی تھیں، سو ہم نے جانا کہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لان زو کی عالمی شہرت یافتہ لان زو بیف نیوڈلز   بنارہے تھے۔ کاریگررسی برابر  نیوڈلز  کا  آٹا اٹھاتا تھا، دونوں ہاتھوں سے کھینچتا تھا، سینے کے سامنے گز بھر لمبائی کھینچنے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑتا تھا اور اس دوران دونوں ہاتھوں کی  انگلیاں   آٹے میں ڈال کی نئی رسیاں نکال لیتا تھا  ، اسی کارِمسلسل میں کچھ دیر بعد باریک رگیں سامنے ہوتی تھیں، جنہیں پانی میں ابال لیا جاتا۔ 
مسافر نے سفرِ حیات پر نگاہ ڈالی کہیں  بُنت اورجوڑ نقش ابھار  لاتے ہیں اور کہیں حسن لکیروں کی باریکی میں آشکار ہوتا ہے۔ انداز فرق ہوسکتا ہے مگرحقیقت میں آشکار دستکار ہی ہے۔ 
 

یونیورسٹی کیفے ٹیریا  میں لان زو نیوڈلز کے لوازمات 

لان زو نیوڈلز بنانے کا عمل
 

کیفے ٹیریا بنانے وقت  قدرتی ماحول  کا خیال کیا گیا تھا، لکڑی کی چھت میں  روشنی کے لیے چوکور خانے بنے تھے جہاں نصب شفاف شیشوں سے روشنی کیفے ٹیریا میں آتی تھی۔ ایک جانب پانی کا چشمہ اپنا رنگ جمائے تھا، پانی بلندی سے اترتا لکڑی کے رہٹ سے ہوتا سبز پودوں سے گذرتا جاتا تھا ۔کیفے ٹیریا میں  جابجا درخت لگے تھے جو مصنوعی ہونے کے باوجود قدرتی ہونے کا تاثر دیتے تھے، کچھ ایسے درختوں پر پھل  بھی  لگے تھے۔ غالب نے کہا تھا کہ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا، مگر کیفے ٹیریا کا ماحول ایسا تھا کہ خود دھوکا کھانے کا دل چاہتا تھا۔

کیفے ٹیریا  کی چھت اور  مصنوعی پھل کے درخت  

کیفےٹیریا کا ایک اور منظر

 لان زو کا علاقہ زرعی ہے، دریائے زردعلاقے کے درمیان سے گذرتا ہے اور زمین کو سنہرا کرجاتا ہے۔ شہر میں پھل جابجا بکتا ہے، بلکہ جب لان زو سے بیجنگ کی فلائیٹ لی تو دیکھا اکثر مسافر خوبصورت پیکنگ  میں آڑو  لے کر جارہے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف قہوہ جات کی پیکنگ بھی ہمراہ تھی بلکہ کانفرنس کے منتظمین نے ہمیں  علاقے کی سوغات کو مدنظر رکھتے قہوہ جات ساتھ کے لیے دیے۔

یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں ناشتے پر  ایک بوڑھے چینی  جوڑے سے گپ شپ ہوئی۔ دونوں روانی سے انگریزی بولتے تھے کہ  کینیڈا  کی کسی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسرز تھے۔ کہنے لگے چالیس سال قبل اسی یونیورسٹی سے  بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی، اور پھر مزید تعلیم اور معلمی کینیڈا میں کی ہے ۔ اب ریٹائر ہونے کے بعد سیر کو نکلے ہیں تو اس سیر کا آغاز  اپنی مادر علمی سے کر رہے ہیں۔  پرانی یادیں ساتھ ہیں اور  نئی یادیں بنا رہے ہیں اور محو حیرت ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہے۔   مسافر کو   اجنبی اور ناواقف پاتے تھے سو بتانے لگے کہ کیا قابلَ دید مقامات ہیں۔  ایسے میں کہنے لگے کہ تو مسلمان ہے تو یہاں سے دو تین گھنٹے کی مسافت پر لینشیا  نام کا شہر ہے، وہاں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ لوگ اُس شہر کو چین کا مکہ کہتےہیں۔ مسافر نے یہ بات سنی تو لینشیا یاترا  کا ارادہ لاٹھی کے سرے پر باندھ  کر کاندھے پر رکھ لیا۔ 

 کانفرنس یونیورسٹی کے دوسرے سرے پر ایک  بڑےہال میں تھی۔مسافر ڈھونڈتا  وہاں جا پہنچا گو راہ میں مدد مانگنا پڑی۔ راہ میں کسی ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کے سامنے ایک مجسمہ براجمان تھا، ساتھ میں میز پر قہوے کی کیتلی  اور پیالہ بھی دھرا تھا۔ مجسمے کی گود میں نقلی پھولوں کا گلدستہ بھی تھا۔ میز کے ساتھ ایک خالی کرسی  رکھی تھی۔ مجسمہ سوچ میں تھا ، مسافر نے جانا کہ افسردہ ہے کہ گلدستہ پکڑے ، قہوہ رکھے بھی کوئی بات کرنے کو نہیں آتا۔ گمان ہے کہ پرانےچینی  دور کا شخص نئے دور کی  نسل کی نفسانفسی پر سوچ میں گم تھا۔ نظر آتا تھا کہ مغربی طرزِ حیات چین کی نئی نسل پر اپنا گہرا رنگ ثبت کر چکی ہے۔ مسافر چند لمحوں کے لیے ساتھ کی کرسی پر بیٹھا، مجسمے کے ماہ وسال کا پیمانہ یقیناً فرق تھا۔مسافر   ایک مسکراہٹ سوچتے چہرے پر دیکھ پایا۔  

مجسمے

 قصہ جاری ہے۔ 


Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#

 

Comments

Popular posts from this blog

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

چین کا سفر، قسط اول

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ