Posts

Showing posts from October, 2017

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم : Air Commodore Zafar Masud

Image
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم  Air Commodore Zafar Masud (Fondly remembered as  Mitty Masud) تحریر : عاطف ملک ایر کموڈور ظفر مسعود کو میں نہیں جانتا تھا۔ ان سے تعلق عجب طریقے سے ہوا۔ 2003 یا 2004 کی بات ہے کہ میں اسلام آباد میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی قریبی گالف کورس کے ساتھ کی بیرونی سڑک پر ایک بوڑھے میاں بیوی  آہستہ آہستہ چلتے نظر آتے تھے۔ خاتون کوئی یورپین خاتون تھیں۔ میں سمجھا کہ کسی کے والدین ہیں ۔ پھر اکثروہ خاتون اکیلی واک کرتی نظر آنے لگیں  بعد میں علم ہوا کہ اُنکے خاوند علیل ہیں ۔ ایک دن اُن سے بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ مسز ایر کموڈور ظفر مسعود ہیں۔ وہ جرمن خاتون نوکری کی غرض سے کراچی آئی تھیں کہ ماڑی پورمیں تعینات ظفر مسعود کی محبت میں گرفتار ہو کے یہیں کی ہو گئیں۔ اتفاقاً میں اور میری بیگم دونوں جرمن زبان بولتے ہیں سواُن سے ہمارا تعلق گہرا ہوگیا۔ انکا اکلوتا بیٹا جرمنی کے شہر  کولون میں رہتا تھا جبکہ یہ دونوں میاں بیوی ایر فورس کے سیکٹر ای- ۹ میں دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے۔  ایر چیف مارشل ریٹا ئرڈ جمال نے اُن کی دیکھ بھال اپنے ذمہ ل

آسڑیلیا میں بکرے کی تلاشHumour

تحریر :عاطف ملک پچھلے سال عیدِ قربان پر پرتھ میں ایک مسلم قصائی کو بیعانہ کے طور پر دو ہفتے قبل پیسے دے دیے تھے۔ اُس نے ایک پرچی عطا کی اور کہا کہ عید سے اگلے دن آپ کو گوشت ملے گا، سو عید کے اگلے دن اُن کے درِ دکان پر حاضری دی  جہاں اپنے جیسے اور بھی مشتاقان  کی قطار تھی۔ ہر ایک کے ہاتھ میں پرچی تھی اور کسی کی پرچی نہ چل رہی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ قصائی کہیں کا بھی ہو، اوصاف  ایک سے ہی ہیں۔ ہم نے کافی تانک جھانک کی مگر کوئی بکرا نہ نظر آیا۔ پتہ چلا کہ جانور کہیں اور سے ذبح ہوکر کسی گاڑی  پر لاد کر لائے گئے تھے اور دکان پر بس آخری ٹکڑوں میں کاٹے جارہے ہیں۔ اب ایسی بقرعید جس میں بکرا بھی نہ نظر آئے، کیا عید ہوگی؟ مگر بھلا ہو قصاب کا  کہ اُس نے اپنے قصابوں کی یاد  تازہ رکھی۔ خدا خدا کر کے انہوں نے ہمیں ایک برآون  کارٹن عطا کیا، اپنے ہاں تو ایسے کارٹنوں میں میڈیکل سٹوروں میں دوائیاں ترسیل ہوتی ہیں۔ پتا چلا کہ اس میں گوشت ہے، اور ساتھ حوصلہ بھی دیا کہ دوائیوں کی طرح اس سے بھی افاقہ ہوگا۔ اب ایک پورا بکرا ایک پانچ سے سات کلو کے کارٹن میں، کدھر گئے سری پائے، کلیجی  پپھرے، چپ رہے، ہمیں بزرگوں نے

ایک سرکاری سکول کے عظیم استاد کی یاد میں

تحریر:عاطف ملک پچھلے دنوں فیس بک پر نوٹیفکیشنز آئیں کہ آپ  کو ٹیگ  کیا  گیا  ہے ۔ دیکھا  تو چند پرانے طالبعلموں نے مختلف  صفحات پر ان اساتذہ میں شامل کیا تھا جنہیں وہ یاد کرتے ہیں۔ اس سے قبل  بھی کچھ  پرانے  طلبا  نے جب پیشہ ورانہ زندگی  شروع کرنے پر پڑھائے گئے مضمون کی افادیت پائی تو ای میل کر کے اپنے تاثرات بھیجے تھے۔  اپنے  دامن میں جھانکتا ہوں تو کچھ بھی نہیں پاتا،  بس ایک اطمینان ہے کہ  وقت ِسوال کچھ تو  پیش  کرنے کے قابل ہوں گا۔    یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصہء محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے کچھ کہانیاں سنا پائے، کچھ زندگیوں میں اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی، خود پیاسے تھے، آگے بھی پیاس دیتے  رہے۔  شاباشیں دیں، ڈانٹیں بانٹیں، محبتیں جہاں ملیں، نفرتوں کا بھی شکار ہوئے۔ کہیں غلطیاں بھی کیں، بس نیت ٹھیک تھی۔ کچھ کے آگے چلے، کچھ  ایسے ملے کہ  جن کے پیچھے چلنے کو بہتر جانا۔ ایک ادھیڑ عمر طالبعلم ملا جس نے جدوجہد  کے معنی سمجھا دیے۔ ایک انجینیرنگ پڑھتا مضطرب تھا جو  سائنس کا سوال پوچھنے بھی آیا  تو فارسی کے اشعار ساتھ لایا، اپنی بے چینی کا رنگ ہمیں بھی دے گیا۔ وہ سرا

مرزا استاد بیگ

                                            تحریر عاطف ملک Few words to explain: perpetual machine is  called  دوامی مشین   and Opportunity is  موقع .           مرزا عبدالودود بیگ اردو کے بےمثل مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے ایک کردار ہیں۔ ہم نے عقیدتاً ایک ہم آواز  کردارمستعار لیا ہے کہ شاید اِس سے تحریر میں اُس چاشنی کا رنگ آجائے جو یوسفی صاحب کی تحریر کا خاصہ ہے۔اس تحریر میں کسی سے مماثلت کو اتفاقی یا الہامی جانیے گا۔ اگر کسی اور سے مطابقت پائیں تو اتفاقی جانیں اور اگر اپنا رنگ پائیں تو الہامی جانیں۔ پہلی صورت میں آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں بھی آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، کہ اس طور الہام القا کرنے والے کو ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔                                                           مرزا استاد بیگ ہمارے دفتری ساتھی ہیں، نوکری میں ہم نے اُن کے جوہر خوب دیکھے۔ فرماتے کہ نوکری کو اخلاقیات سے الگ رکھو کہ نوکری میں قول و فعل کا تضاد خامی نہیں بلکہ خوبی ہے۔ مزید فرماتے کہ نوکری میں انسان پھول کی مانند ہونا چاہیئے، مگر ہر ایرے غیرے پھول کی مانند نہیں بلکہ سورج

سوال

                                                      تحریر: عاطف ملک  آرزو  و عطا کے  بیچ میں خواب و تعبیر کے درمیاں عمل و جزا کے سفر میں تدبیر و تقدیر کے دوش پر                                                   آدمی کی کیا حقیقت ہے خوف و بھوک کے  روپ میں اپنے کاندھوں پہ ان گنت صدیوں کا بے کراں وسعتوں کا آرزوں کے خوابوں کا حقیقت و سرابوں کا بوجھ لیے زندگی ایک دائرے میں گرداں ہے                                                   آدمی کی کیا حقیقت ہے تپتی بے اماں دھوپ میں ضعیف لاغر جسم اپنے سے بھی بھاری بوجھ کو اٹھاتے ہیں ایر کنٹیشنڈ دفتروں میں اغراض کے غلام بندے جھوٹ سنتے ہیں، جھوٹ کہتے ہیں اپنے کاندھوں پہ احساس سے کہیں بھاری  بوجھ کو اٹھاتے ہیں ایک دائرے میں گرداں ہیں                                                   آدمی کی کیا حقیقت ہے Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

ہجرت

                                                                تحریر: عا طف ملک   یہ افسانہ اردو جریدےادب لطیف میں شائع ہوچکا ہے۔  پس منظر:      حکومتِ نے کچھ عرصہ قبل ڈے لائیٹ سیونگ کے  نام پر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی تھیں۔ یہ افسانہ اُسی فیصلے کے تناظر میں  لکھا گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، ایک لمحہ جو اُس نے گذارا  نہیں،  ایک پل جس میں اُس نے سانس نہیں لیا ، جو اُس پر نہیں بیتا، جسے اُس نے محسوس نہیں کیا ، جو اُس کے احساسات سے نہیں گذرا ، جس کو اُس نے خرچ نہیں کیا  اُس کے حساب سے کیسے خارج ہو گیا ۔ اُس کی عمر سے کیسے منہہ ہو گیا ، خود بخود ، بنا  اُس سے پو چھے۔  ذاتی بنک اکاونٹ میں جمع رقم  کہ جس پر انسان کا  حقِ ملکیت ہوتا  ہے، ضبط ہو جا ئے،  بغیر قصور کے،  بغیر  بتائے، بنا پو چھے ۔ وہ یہی سوچتا رہا  ، اسے جلن تو نہیں کہتے مگر اِک زیاں کا احساس تو  تھا، جیسے بو ڑھے کسان سے گندم کی بوری نہ اٹھائی جائے  تو جوان بیٹا کچھ کہے بغیر بوری اُٹھا لے، ایک لمحہ جو  برسوں بیت جانے کا احساس دلا جاتا ہے، خامو شی کے ساتھ، چپکے سے ۔اُس نے سوچا یہ حکومت کون ہوتی ہے گھڑیوں کی سوئیاں آ

بیاد فلائیٹ لفٹیننٹ وقاص شمیم

                                                                                  تحریر عاطف ملک پس منظر: فلائیٹ لفٹیننٹ وقاص شمیم نے انیس سو نوے میں ایروناٹیکل انجینیئر کے طور پر پاکستان ایر فورس اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا۔ انیس سو تیرانوے میں آپ سرگودھا کے قریب کرانہ پہاڑی پر لگے ریڈار پر بحثیت انجینئر تعینات تھے کہ آپ کی جیپ پہاڑ سے گر گئی، جس کے باعث آپ دو ساتھیوں کے ہمراہ خالق حقیقی سے جاملے۔ اگر آپ اکبری دروازے  سے اندرون  لاہو ر میں داخل ہوں  تو  تنگ بازار  سے گزر کر محلہ سریاں والا  آتا   ہے، غازی علم دین شہید  کا گھر اِسی محلے  میں تھا، اُ نہیں کے نام  پر اب وہاں کا چوک موسوم  ہے۔ اُس چوک  سے بائیں جانب مڑ کر کوچہ چابک سواراں  سے گزرتے جائیے تو آگے محلہ ککے زئیاں آتا ہے۔  ککے زئی اسے عرفِ عام میں بڑی گلی کہتے ہیں گو کہ یہ گلی اتنی تنگ ہے کہ کسی مرگ پر جنازہ بھی آسانی سے نہ نکل پائے۔ کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی  کے ساتھ  حملہ آور لشکر میں یہ قبیلہ تھا۔ فاتح قوم کے طور پر اُنہوں  نے مفتوح علاقے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ صدیاں گذر گئیں مگر ککےزئی اپنے رنگ  کے ساتھ جڑے  رہے۔  ککے زئ

English Translation of my Urdu Short Story Pencil Tarash by Suhail Akhtar

 The Pencil Sharpener (A short Story written in Urdu by Atif Malik, Translated in English by Suhail Akhtar) The Urdu Version is available at : http://aatifmalikk.blogspot.com/2017/10/PencilTarash.html Sharpening pencils had become a habit, a hobby, an obsession; one which he could not forsake. The drawers of his office desk were brimming with pencil sharpeners of all sizes and colours. He kept their blades sharp and gleaming, ready to carve and mold any unsharpened pencil, a sight which he could not bear. Arranged neatly in a tray on top his desk were a wide variety of lead pencils with the leads so sharp and pointy that one could not resist the urge to pick them up and admire them. For him the sight of an unsharpened pencil was an anathema, which evoked within him feelings of being somehow unfulfilled. Only when he had sharpened and added it to his collection did he feel at peace again. Head Clerk Pierre Chardonnay had spent his life keeping ledgers in the Accountant

Pencil Sharpener ..............A short story that got selected in Oxford University Press Competition and published in Book "KOOZAH"

پنسل تراش  :The English Translation of this story can be read at the following  http://aatifmalikk.blogspot.com/2017/10/englishTranslationPencilSh arpner.html تحریر عاطف ملک اُس کی نوکری پنسل گھڑتے ہی گزری۔ پنسل گھڑنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ ایک ہابی،ایک ایسا ساتھ جس کے بغیر جیا نہ جائے۔اُس کے دفتری میز کی دراز میں رنگ برنگے پنسل تراش تھے۔ مختلف سائز کے، مختلف تراش خراش کے ،  اپنے تیز نوکیلے بلیڈوں کے ساتھ۔ اُس سے کوئی بھی ان گھڑی پنسل نہ دیکھی جاتی تھی۔ اُس کے میز کی ٹرے پر مختلف پنسلیں چمک رہی ہوتی تھیں۔ تیز سکے بنی، چھبنے والی ، نظر پڑے تو نظر رک جائے۔ خواہ مخواہ اٹھانے کو جی چاہے۔ اُس سے کوئی بھی پنسل بغیر تراش برداشت نہ ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی کمی، کوئی جلن، کوئی چبھن، کوئی پھانس سی ہے۔ پنسل تراش کر ٹرے میں رکھ دیتا تو جیسے سکون سا آجاتا۔ ہیڈ کلرک ارشد حسین کی زندگی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں بل بناتے گزر گئی تھی۔ ارشد حسین نے اپنی زندگی یہاں کتنوں کے بل پاس کراتے گزار دی تھی۔ ریٹائرمنٹ میں چند سالوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ کبھی کبھی اب وہ کرسی پر بیٹھا اونگھ لیتا ت