Posts

Showing posts from 2018

ایک ورق

اوراق منتشر قسط 3 تحریر : عاطف ملک عرصہ پہلے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئج میں جرمن زبان سیکھنے پہنچے۔ قومی سطح پر مقابلے کے امتحان کو پاس کیا تھا، دو سال اس امتحان کی تیاری میں لگے تھے۔ امتحان امریکی بورڈ نے لیا تھا، نام تھا جی۔ آر۔ای انجینئرنگ۔ ہم نے امتحان دیا تھا، انہوں نے ڈالر لیے تھے۔ نوکری کی تو   بعد میں پتہ لگا کہ ایسے بھی ہیں جو ڈالردینے کی بجائے لینے کے اوصاف رکھتے ہیں مگر دیر یا سویر کسی کڑے امتحان کا ضرور سامنا ہوتا ہے۔  اس امتحان میں اندازاً  بیس پچیس کے قریب انجینئرنگ کے مضامین میں سے پرچہ آتا تھا، وقت کم ہوتا اور جواب کثیر  انتخابی یعنی ملٹیپل چوائس ہوتا سو ہر جواب درست لگتا۔ ایک آوارہ ریڈار یونٹ میں نوکری تھی سو اندرون سندھ  پھرتے رہتے تھے۔ ایک فوجی ٹرنک ہمیشہ ساتھ ہوتا تھا۔ کپڑے بیگ میں ہوتے تھے، ٹرنک انجینئرنگ کی کتابوں سے بھرا تھا۔ کتابیں نیوی انجینئرنگ کالج کی لائبریری سے بھائی کے نام پر نکلوائی تھیں۔ صحرا تھا، ویرانہ تھا، ْقصبہ تھا، آستانہ تھا، خیمہ لگتا تھا، وقت نکلتا تھا، ٹرنک کھلتا تھا اور کتاب کھلتی تھی۔ پہلے سال امتحان دیا، پاس کر لیا، مگر در

بلاعنوان

ایک یونیورسٹی میں پڑھانے کو معمور ہوئے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ایک پرانا ہم جماعت بھی ہم سے پہلے استاد کے مرتبے پر تھا۔ ہم جماعت بڑا بیبا تھا؛ ایسا  بیبا کہ نیک بیبیاں بھی مات کھا جائیں۔ وہ جو ہم نے ایک دفعہ دیکھا کہ وہ کلاس پڑھا رہا ہے اورکمرے کی تمام لائیٹیں بند ہیں۔ پتہ لگا کہ کچھ طالبعلم تھکے تھے، انہوں نے درخواست کی کہ آپ لیکچر ضرور دیں مگر روشنیاں نہ جلائیں کہ سونے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ اور استادِ نرم دل مان گیا۔  جتنا ہمارا ہم جماعت بیبا تھا ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ اتنا ہی گھاگ تھا۔ اہل زبان تھے بلکہ چرب زبان تھے۔ موقع کی مناسبت سے کبھی چربی لگانے لگ جاتا تھے، اور کبھی آنکھوں میں چربی لے آتے تھے کہ پہچاننے سے بھی انکاری ہوں۔ پاکی داماں کی حکایتیں بہت بیان کرتے تھے۔  ایک دن ایک ہاوسنگ سکیم کا اشتہار اخبار میں آیا  کہ قسطوں میں رہائشی پلاٹ کی قرعہ اندازی ہوگی جس کے فارم ایک مشہور بنک کی شاخوں سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک اچھی ہاوسنگ سکیم تھی اور ڈیپارٹمنٹ کے کئی اساتذہ اس میں اپلائی کرنا چاہ رہے تھے۔ اب چونکہ ہمارے شہر میں اس بنک کی برانچ نہ تھی سو ان فارموں کے لیے ایک قریبی بڑے شہر می

علامہ اقبال کو پتلا کردو

Image
نوٹ: یہ ایک پرانا مضمون ہے جس کو علامہ اقبال کی یوم  پیدائش کے لحاظ سے کچھ تبدیل کیا گیا ہے۔ تحریر : عا طف ملک عاصم ایک بدتمیزآدمی تھا اورمیں اُس کا سٹاف افسر۔ دفاتر میں ایسے لوگ آپ کو ملتے ہیں جو اپنے آپ کو عقلِ کلُ سمجھتے ہیں۔ آپ اِن سے معقول بات کرنے  سے بھی اجتناب کرتے ہیں کہ نہ جانے مزاج پر کیا گراں گذرے اور بے نقط سننے کو مل جائے- معقولیت و نامعقولیت کے فرق سے عاری، عہدے کا نشہ اُن کے سر پر چڑھا ہوتا ہے۔ ماتحت کیا کرے، اگر ان سے بچ کر دن گذار سکے تو بہت اچھا، ورنہ دعائِیں پڑھتے ہی دن گذرتا ہے۔ اُسکی بدتمیزی سے لوگ پناہ مانگتے  تھے۔ می٘ں بھی بعض اوقات زیرعتاب آجاتا تھا، مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ باس کی حرکات تین افراد سے نہیں چھپ سکتیں، ایک اُسکی بیوی، ایک اُسکا ڈرائیور اور ایک اُسکا سٹاف افسر۔ سو اس بنا پر میری کچھ بچت ہو جاتی تھی۔ دفتر کے قریب ہی آفیسرز میس تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا تھا، سامنے پہاڑی سلسلہ تھا، رات کو پورا شہر جگ مگ  نظر آتا تو بڑا خوبصورت منظر ہوتا- یہ خاص الخاٰص جگہ تھی، عام افراد کی پہنچ سے دور۔ جب بھی کوئی غیر ملکی یا اہم سرکاری عہ

نظم طلوع اسلام - پہلا بند

Image
علامہ اقبال کی نظم طلوع اسلام انکی کتاب بانگ درا میں شامل ہے۔ پرتھ آسڑیلیا کی ایک فکری نشست میں اس نظم کا پہلا بند پڑھا۔

لا پلا دے ساقیا پیمانہ پیمانے کے بعد

تحریر : عاطف ملک تھائی ایر لائنز کے جہاز نے لاہور سے اڑان بھری ۔ یہ جہاز بنکاک جارہا تھا اور پوری طرح بھرا تھا۔ زیادہ مسافر پاکستانی تھے، کچھ ہی غیر ملکی ہونگے۔  یورپ اور دوسری دور کی منازل کے لیے تھائی ایرلائنز کی پروازیں بنکاک کے راستے سے جاتی ہیں سو اِس مسافر کی طرح  کئی اور مسافروں نے بنکاک سے آگے کی پروازیں لینا تھیں۔ کئی لوگ بنکاک بھی جارہے تھے؛ کپڑے کے تاجر، سیاح، جنس کے بیوپاری۔ بنکاک کی کئی وجوہات ِشہرت ہیں، جن میں شاید شہوت سب سے سرِفہرست ہے۔  اسی پر مسافر کو ایک اور پرواز یاد آگئی جو اُس نے ایک دفعہ  دسمبر کے آخری ہفتے میں آسڑیلیا سے بنکاک کی لی تھی۔ جہاز نئے سال منانے بنکاک جاتے لاپرواہوں سے  پورا بھرا تھا۔ جہاز میں کچھ دور بیٹھی گوری لڑکی پر تو وہ وارفتگی طاری تھی کہ وہ اونچا اونچا گارہی تھی۔ ایک شراب کا گلاس پیتی تھی اور پھر نیا سر لگاتی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ بھی کبھی کبھی لے میں اپنا حصہ ڈالتا تھا۔ انگریزی گانے اور کھانے ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آئے،  اور کئی عقلمندوں سے برخلاف جو چیز ہماری سمجھ میں نہ آئے اسے عموماً  پسند بھی نہیں کیا۔ وہ لڑکی اپنے آپے سے باہر ہو

قرطبہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

Image
تحریر و تصاویر : عاطف ملک نوٹ : اس مضمون سے قبل کی قسط " اشبیلیہ، اندلس کا سفر" درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔   https://aatifmalikk.blogspot.com/2018/10/blog-post_21.html   مصنف کی مسجد قرطبہ میں بنائی گئی ویڈیو درج ذیل یوٹیوب لنک پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ https://youtu.be/of62PkOcgvc    سات جولائی 2018 کی  سہ پہر کو اشبیلیہ سے قرطبہ کے لیے کار میں روانہ ہوئے۔ دریائے وادی الکبیر کے کنارے سے گذرے، دریا میں کشتی رانی کے مقابلے ہو رہے تھے۔ ایک ہزار سال پہلے قرطبہ مسلم اندلس کا دارلحکومت تھا۔ قرطبہ 711 عیسوی میں اموی دور کے بربر سپہ سالار طارق بن زیاد نے رومن افواج کو شکست دیکر فتح کیا۔ یہ شہر وادی الکبیر میں سے گذرتے دریا قوائد الکبیر کے کنارے پر واقع ہے۔ فتح کے بعد  قرطبہ اموی سلطنت کا ایک حصہ تھا جس کا دارالحکومت دمشق تھا۔ دمشق بازینطینی سلطنت کا ایک اہم ترین شہرتھا۔ دمشق کو 634 عیسوی میں خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور میں حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں اسلامی فوج نے فتح کیا تھا۔ دمشق کی شکست کے بعد بازینطینی بادشاہ ہر کولیس نے ایک بڑی فوج اکٹھی کی اور 636 عیسوی میں