Posts

Showing posts from December, 2020

براسطہ جہادِ کشمیر سب سے پہلے ہم

تحریر : عاطف ملک آئیے مل کر پڑھتے ہیں درودِ پاک، اللھم صلی اللہ"، اُس کے سامنے بیٹھے شخص نے کہا۔ وہ ہنس پڑا۔ اس کے ذہن میں سوچ آئی کہ یہ سامنے بیٹھا شخص مجھے کتنا بڑا بیوقوف سمجھتا ہے۔ وہ ہنس پڑا یہ خیال کیے بغیر کہ وہ کس صورتحال میں ہے۔ یہ ایک مسکراہٹ تھی، اُس کی کوشش تھی کہ یہ مسکراہٹ سامنے والے کو نظر نہ آئے، مگر  صورتحال اتنی عجیب تھی کہ وہ مسکراہٹ چھپا نہ سکا۔ یہ مسکراہٹ اکیلی نہ ابھری تھی، بلکہ اُس کے دل میں اس سامنے بیٹھےشخص کے لیے گالی بھی ابھر کر آئی تھی، بے ساختہ، منہ بھر آتی؛ بے غیرت بلکہ اس سے بھی آگے کی گالی بلکہ گالیاں، شدید نفرت کے ساتھ بھری گالیاں، جو اُس کا دل چاہتا تھا کہ سامنے والے کے منہ پر دے  مارے، متواتر، مشین گن کے برسٹ کی مانند، مگر وہ چپ رہا۔ وہ گالیاں بکنے والا شخص نہ تھا، گالیاں تو اُس نے اس وقت بھی نہ دیں تھیں جب وہ کیڈٹ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ وہ وقت جب اُس کے آس پاس والے بات بے بات پر گالیاں دیتے تھے، انگریزی میں اور اردو میں گالیاں، صبح شام گالیاں، وجہ بے وجہ گالیاں، کسی بدیسی تربیت کو اپناتے گالیوں کو بھی تربیت کا حصہ سمجھا گیا تھا۔ انگریزی گالیوں کے

ڈر کہانی ------ ایک سو لفظوں کی کہانی

میں قصہ گو ہوں، کہانیاں سناتا ہوں۔ آپ میری کہانیاں سنتے ہوں گے۔ میں شاعری سناتا ہوں، محبت کےپھیلاو اور حسین چہروں کی بات کرتا ہوں، تاریخی اور صوفی کہانیاں سناتا ہوں۔ میں مزاروں پر دھمال ڈالتا ہوں، موسیقی کی لے پر ناچتا ہوں۔ گھنگرو باندھے ملنگوں کو فلم بند کرتا ہوں، خوبصورت وادیوں کی منظر کشی کرتا ہوں۔  جب ایک ملک دو ٹکڑے ہوا، آپ اس کی کہانی سنائیں۔ مجھے اس کہانی کا کچھ علم نہیں ہے۔ میں صرف اس کتاب میں سے کہانیاں سناتا ہوں جو مجھے دی گئی ہے، کوئی اور کہانی سناتے مجھے ڈر لگتا ہے۔ #aatifmalik Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com  

شہزادہ احمد الکمال - قسط دوم

تحریر : واشنگٹن ارونگ ترجمہ : عاطف ملک اس کہانی کی قسط اول مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔  http://aatifmalikk.blogspot.com/2020/12/blog-post.html   قسط دوم اسی اداسی کے درمیان میں سردیاں گذر گئیں، اور پھر موسم خوشگوار ہونے لگا۔ بہار کی آمد آمد تھی، ہوا میں نہ جانے کہاں سے یکایک تازگی آگئی تھی، پھول کھلنے لگے، کونپلیں پھوٹںے لگیں اور پرندوں کے جوڑے تنکے اٹھا اٹھا کر اپنے گھونسلے بنانے لگے۔  غرناطہ کے باغات سے پرندوں کی خوشیوں سے بھری آوازیں مینار کی تنہائی میں رہتے شہزادے احمد تک آنے لگیں۔ ہر کونے سے محبت، محبت کی آواز شہزادے کو سنائی دینے لگی۔ کیا عجب آوازیں تھیں؛ بھنورا گا رہا تھا، محبت، محبت- بُلبل کی آواز کہہ رہی تھی محبت، محبت- کوئل کوکتی تھی، محبت، محبت۔ چاروں جانب سے مختلف سُروں میں آوازیں آرہی تھیں، محبت، محبت۔ ہوا بھی جب شہزادے کے پاس برج کی تنہائی میں گذرتی تھی تو سرگوشی کرتی جاتی تھی؛ محبت، محبت۔ شہزادہ حیران اور ہکا بکا تھا، یہ محبت کیا ہے جو یکایک فضا میں ہر جانب سے در آئی تھی۔  محبت کیا ہے جس کی سرگوشی اور نعرے سب پرندے، پھول، شجر، ہوا، بہتا پانی لگا رہے تھے۔ شہزادہ

شہزادہ احمد الکمال --- قسط اول

  تحریر : واشنگٹن ارونگ ترجمہ : عاطف ملک نوٹ: یہ ترجمہ لفظ بہ لفظ نہیں بلکہ مترجم نے “کچھ بڑھا بھی دیتے ہیں زیبِ داستاں کے لیے”  کا استعمال اس ترجمے میں مختلف مقامات پر کیا ہے۔ ای ک دفعہ کا ذکر ہے کہ غرناطہ کے اندلسی حکمران کا ایک ہی بیٹا تھا، جس کا نام اُس نے احمد رکھا۔ احمد کی ذہانت و فطانت دیکھ کر لوگوں نے کم عمری میں ہی اُسے الکمال کے نام سے پکارنا شروع کردیا، سو باپ کے دیے گئے نام نے بڑھ کر احمد الکمال کی شکل اختیار کر گیا۔  نجومیوں نے اس کے زائچہ بنائے اور پیشنگوئی کی کہ وہ ایک دانشمند حکمران ہوگا جس کا دورِ حکومت تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھے گا مگر غرناطہ کے سب سے بڑے نجومی نے بادشاہ کو ایک خطرے سے آگاہ کیا۔ شہزادے کی عاشق مزاجی اُس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے خصوصاً اگر وہ کم عمری میں اس آزار میں مبتلا ہوگیا۔ بادشاہ خود بھی حُسن پرست تھا اور جانتا تھا کہ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے مگر اس کا بچاو مشکل تھا کہ غرناطہ کی آب و ہوا حُسن کی ترویج کرتی تھی۔ اندلس کی وادیاں، دریائے درو کا پانی، پھلوں سے جھکے اشجار و باغات، غزال آنکھیں، الجھی زلفیں، خوش گلو دوشیزائیں سب غرناطہ میں بکھرے پڑے