Posts

دادی اور پوتی

تحریر: عاطف ملک کمرے کی دیواریں   پر ہلکی زرد سفیدی تھی، پیلاہٹ آمیز، ویسی جو   کتاب کےصفحات کی   ہوتی ہے، ایسی کتاب جو زندگی کی کہانی سناتی ہے۔ جب میں اپنی کتاب چھپوارہا تھا   تو     پبلیشر   نےمجھے کہا کہ سفید کاغذ آنکھوں کو چبھتا ہے،   پیلاہٹ آمیز   صفحات آنکھ آسانی سے پڑھ سکتی ہے۔ تیری کہانیاں زندگی کے گرد گھومتی ہیں، ایسی کہانیاں آسانی سے پڑھی جانی چاہیئے۔ میں مسکرا دیا، اگر   کوئی اس مسکراہٹ کا رنگ دیکھ پاتا تو   جان لیتا وہ ہلکی زرد تھی۔ زندگی کے قہقہوں اور آنسووں   کو رنگوں میں ڈھالا جائے اور پھر زندگی کا اوسط رنگ نکالا جائے تو یہی رنگ نکلے گا۔ کمرے کی دیواروں پر ہلکی زرد سفیدی تھی اور   کمرے میں دو   دیواروں پر     لگے بلب بھی پیلی روشنی پھیلارہے تھے۔   دیواریں ایک دوسرے سے   زاویہ   قائمہ   بنا رہی تھیں اور ان پر چھت   قائم تھی۔ چھت اونچی تھی اور کمرے کی دیواریں   موٹی تھیں، ماضی کی تعمیر جب دیواریں اٹھارہ انچ   کی ہوتی تھیں۔   کمر ے میں چار لکڑی کے دروازے کھلتے تھےاور   سٹور، غسلخانے، اور دو کمروں کو راہ   دے رہے تھے۔کمرے کے کونے کے ساتھ کی   دیوار پر لکڑی کی الماری  

اور ہم نے کتاب چھپوائی

Image
تحریر: عاطف ملک نوٹ: کسی فرد یا ادارے سے مماثلت کو زمان و مکان یا اعمال کااتفاق   جانیے گا۔  استاد بیگ سے ملاقات ہوئی تو   کہنے لگے، پہلے انتشار کم ہے کہ آپ نے مزید   انتشار پھیلایا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ حضرت کیا فرما رہے ہیں ،تو بولے، یہ آپ نے "اوراقِ منتشر" کے نام سے کیا بے تکی   کتاب چھاپی ہے۔ معاشرہ پہلے ہی بگڑا   پڑا ہے اوپر سے آپ   مزید بکھراو            کے درپےہیں۔ہم نے عرض کی کہ کتاب میں کہانیوں کا تنوع ہے   اس بنا پر یہ نام چنا، کہیں خاکے ہیں جیسے   سب سے نمایاں " ماں جی"  کا خاکہ اور مزاح   میں آپ کا خاکہ، کہیں افسانے ہیں جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے دو ہزار پندرہ میں   پاکستان میں افسانوں کے ملکی مقابلے میں چنا گیا افسانہ " پینسل تراش"،   کچھ کہانیاں لکھنے کے تجربات ہیں، مثلاً   سو لفظوں کی کہانی ،      کرونا وائرس کے وقت ایک مختلف خیال کی لکھی کہانی" وائرس سکونا"، تین ای میلز کی کہانی کہ تین ای میلز میں کہانی خود کو بیان کر دیتی ہے، کتاب کے         طنز و مزاح   کے   حصے میں    لکھے گئے " پھوپھی جان کے نام   خط " میں   خط