Posts

Showing posts from 2021

واٹس ایپ گروپس کے ممبران کی درجہ بندی

تحریر: عاطف ملک ٹیکنالوجی نے کئی رنگ دیے ہیں، چوپال کا متبادل واٹس ایپ گروپس کی شکل میں آیا ہے جہاں مختلف لوگ ارشادات، فرمودات اور خرافات پیش کرتے ہیں۔ خرافات کو پیش کرنے پر کس کو اعتراض ہو سکتا ہے مگر جس محبت سے پیش کرتے ہیں، وہ کوئی ایسی خوشی کی بات بھی تو نہیں۔ شاعر نے کہا تھا کہ "اے محبت تیرے انجام پر رونا آیا" مگر یہاں تو کئی دفعہ آغاز پر ہی رونا آجاتا ہے۔ ایسے ایسے ارشادات اور تحقیقات سننے کو ملتی ہیں کہ  اُن کی عقل کو رووں کہ پیٹوں انہی کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں  نوحہ گر کو میں  ان گروپس میں طلاق یافتہ کامیاب شادی کے گر بتا رہے ہوتے ہیں، ڈیپریشن کے مریض خوش رہنے کے طریقے بتاتے ہیں، جن کی اپنی صحت برگِ لرزیدہ ہے وہ حکمت کے ایسے نسخے بیان کر رہے ہوتے ہیں جن کی حکیم لقمان کو بھی خبر نہ ہوگی۔ کووڈ کی ویکسین سے انسان میں چِپ لگانے کی خبر کا پتہ یہیں سے لگا ہے، مانیے جب سے یہ افلاطونی خبر سنی ہے ہمیں چُپ ہی لگ گئی ہے۔ بل گیٹس کی طلاق کی حکیمی وجوہات سے لے کر وینا ملک کی اسلامی و غیر اسلامی خدمات پورے ثبوتوں کے ساتھ یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ بھرپور زندگی گذارنے کے یونائی طریق

ایک روداد

Image
عام طور پر میں سٹ ان کیاک میں کشتی رانی کرتا ہوں۔ اس میں آپ کشتی میں ایسے بیٹھتے ہیں کہ ٹانگیں آگے بنے خانے میں سیدھی ہوتی ہیں۔ دو ہفتے قبل میری کیاک دریا میں الٹ گئی اور میں الٹا پانی میں تھا۔ منہہ پانی میں تھا اور ٹانگیں کشتی کے اندر خانے میں تھیں۔ جانیے جیسے واپڈا کے کھمبوں کی تاروں پر کبھی پرندے الٹے لٹکے نظر آتے ہیں کچھ ویسی صورتحال تھی۔ یا سمجھیے جیسے سرکاری سکولوں میں بچوں کو مرغا بناتے ہیں یا بعض سرکاری نوکریوں میں چھوٹے ماتحت مرغے بنے ہوتے ہیں ویسی صورتحال درپیش تھی بلکہ اضافہ تھا کہ منہہ پانی میں تھا۔ استاد نے بتایا تھا کہ اگر کبھی کشتی الٹی تو آپ کو دنیا الٹی نظر نہیں آئے گی، تمہاری آنکھیں بند ہوں گی۔ ہم نے کہا کہ گویا سرکاری نوکری ہوئی کہ کوئی اور دنیا نظر نہیں آتی۔ کہنے لگے تمہاری مثال غلط ہے کہ اس الٹ سے تم جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرو گے۔ مزید فرمایا کہ اگر کشتی الٹے تو الٹی لٹکی چمگاڈر کی مانند ہو گے سو اپنے جسم کو اٹھانا اور کشتی سے بغلگیر ہونے کی کوشش کرنا، اس سے تم اپنی ٹانگیں خانے سے نکال پاو گے۔ ہم نے کہا محترم، پانی میں الٹے ہوکر کشتی سے بغلگیری ایسا تو ہم اپنی مح

کالک

Image
 جین ریٹائرڈ نرس ہے، اور خوب خدمتی ہے۔ آج صبح پارک میں ہم کشتی چلانے والوں کا مل کر ناشتہ بنانے کا پروگرام تھا۔ جین کرسیاں، جگہ ٹھیک کرنے اور ناشتہ بنانے میں مصروف رہی جبکہ میں کشتی چلا کر واپس آیا تو ساتھ مدد کے لیے لگ گیا۔ پارک میں لگے الیکٹرک چولہے پر گول گول پلاسٹک کے سانچے لگا کر چولہے کی سائیڈ پر ایک طرف سے انڈہ مارتا اور اس سانچے میں ڈال دیتا۔ انڈے کے باریک چھلکے کو نکالتے ایک دفعہ ہاتھ بھی گرم چولہے پر جا لگا۔ انڈے نے کہا پتہ لگا خود جلنا پڑتا ہے تب شکل نکلتی ہے۔ انڈے کو پلٹنے کے لیے سانچے اٹھانا پڑتا اور پھر الٹایا جاتا۔ میں نے کہا انڈے کی زردی نظر نہ آئے تو مجھے تو بہت قلق ہوتا ہے۔ زردی سے سورج دیوتا نظر آتا ہے، یہ جو انڈے پلٹے جارہے ہیں ان سے لاہور کی سردیوں کی دھند بلکہ اب سنا ہے کہ سموگ بھی آجاتی ہے، اس کا احساس ہوتا ہے۔ انڈے کو نہ الٹا کہ زردی نظر نہ آئے تو مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ کہنے لگی چل تو کہتا ہے تو ایک انڈہ نہیں پلٹتے۔ پھر کہنے لگی میں تو خدمت پر معمور ہوں تو کدھر سے آگیا۔ میں نے جین سے کہا تو ساری عمر خدمتی رہی ہے سو یہ تیرا مسلہ نہیں ہے، میں ادھر کالک کم کرنے آی

آپر چونٹی

یہ نظم ایک تجربہ ہے۔ اس میں اردو، انگریزی اور پنجابی کو جوڑا گیا ہے۔   اک صاحبِ فرزانہ نے سب کو تھا افطار پر بلایا کھجور کھلائی، ایم پی کا خطاب سنوایا جگدیش نے پھر اس دیش کا ہم کو بتایا ہارمنی کا اپنا سبق، اپنا سبق ہم کو پڑھایا لیڈراں فیر ایم پی نال فوٹو چھکے باقی رہ گئے بُھکے بیٹھے اونوں پچھیا اے کی اے اونے دسیا اے ای اے We gathered the community There was an opportunity Look at it with immunity   ہن کوئی سانوں صدا کھلے کسے دے گھار اے منڈا جمیا کسے نے ویاہ دا سنیا کھلیا کوئی قرآن دا ختم کرائے   پولے منہ نال پُچھ لینے آں پھا جی، اے آپرچونٹی تے نہیں

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا

یہ نظم انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس کے شاعر ساحل صاحب ہیں۔ عاطف ملک نے کچھ اپنے شعر اس نظم کے ساتھ جوڑے ہیں جو کہ نیچے نیلے رنگ میں لکھے گئے ہیں۔ مگر اس شاعری کا سہرا ساحل صاحب کے سر ہی ہے۔ وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا یہ سیٹوں کی تقاطع اور یونین کچھ بتا دو نا یہ قالب اور الجبرا، یہ کیسے لاگ لیتے ہو جمع تفریق اور تقسیم ضربیں کیسے دیتے ہو مجھے بھی اپنی نسبت کا ذرا حساب دے دو نا وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھا دو نا یہاں پہ مستقل کیا ہے؟ تغیر کس کو کہتے ہیں منفی منفی سے یہ مثبت کیسے بنتے ہیں یہ سوالوں کی مساواتیں تم کیسے بناتے ہو سوالوں سے جوابوں کے خزانے چھین لاتے ہو یہ ناطق غیر ناطق سے جدا کر کے دِکھا دو نا وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا اِسے اہلِ ادب نے خشک تر مضمون بولا ہے جو اس سے دل لگا بیٹھا، اُسے مجنون بولا ہے کہا میں نے ریاضی کا بہت دشمن زمانہ ہے ریاضی اِک تخیّل ہے، یہ شاعر کا فسانہ ہے بولی میرے مجنون کوئی عشق کا نعرہ لگادو نا وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا ابھی جاناں بتانے کو جذر مجذور باقی ہیں کئی بلین ستاروں کے جہاں مفرور باقی ہیں

کیا کاروبار سکول بزنس کو درست پڑھا رہے ہیں ؟

تحقیق و تحریر: عاطف ملک  اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی اور مواصلات کی ترقی نے  کاروبار  کے لیے بے پناہ مواقع دیے ہیں، ٹیکنالوجی کی کئی چھوٹی کمپنیوں نےاپنے قیام کے کچھ عرصے میں ہی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، مثلاً اوبر، واٹس اپ، سکائیپ وغیرہ۔ دوسری جانب یہ ترقی بزنسز کے لیے کئی نئے چیلنیجز بھی لائی ہیں۔ کاروباری دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں ٹیکنالوجی میں بڑا نام رکھنے کے باوجود  ان تقاضوں کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے یا وقت پر تبدیلی نہ لانے کے باعث ناکامی کا شکار ہوئی ہیں، مثلاً  کوڈک، نوکیا وغیرہ۔ اس صدی کا کاروبار نئے تقاضوں  سے نبرد آزما ہے۔ دنیا سمٹ کر چھوٹی ہوگئی ہے،  کمپینوں کا مقابلہ اب عالمی سطح پر ہے۔ گاہگ پہلے کی نسبت ہوشیار ہیں، آج خریدار انٹرنیٹ کے ذریعے مصنوعات کے بارے بہت کچھ جان سکتا ہے، وہ مختلف کمپنیوں کی تیار کردہ اشیا کا تقابلی جائزہ کر سکتا ہے۔ خریدار کا مصنوعات سے متعلقہ علم اور توقعات کمپنیوں کو اپنی مصنوعات بہتر کرنے پر کوشاں رکھتی ہیں۔ عالمی منڈی تک آسان رسائی اور مقابلہ، آوٹ سورسنگ، ڈیجیٹل دور،  علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت اور نت نئی ایجادات نے کمپنیوں پر ایسا

کہانی کار

Image
At Perth, Sunday 20 September, 2020 یہ کہانی کار دیوانے ہیں، جادوگر ہیں۔ یہ کہانی کار مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف ملکوں سے آئے ہیں اورمختلف مزاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ساوتھ افریقہ کا نسل پرست دور گذار کر آیا یہودی، جس کی کوئی کہانی جنس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جھیل سی آنکھوں والی آئرش جس کی کہانیاں جھیل کہانیاں ہیں کہ اس کا آئر لینڈ میں گھر ایک جھیل کنارے تھا۔ ایک برطانوی جو جادوگرنیوں کی کہانیاں لکھتا ہے کہ کسی طلسم نے اسے جکڑ رکھا ہے۔ اور ایک پاکستانی جس کی کہانیاں سن کر ساتھی سکاٹش عورت کو سکاٹ لینڈ میں اپنے کسی پاکستانی بوائے فرینڈ کی یاد آجاتی ہے کہ پاکستانی کی کہانیاں یادوں کے ہی گرد گھومتی ہیں۔ ایک فرانسیسی النسل جو یونیورسٹی میں مزاہب کا تقابلی جائزہ پڑھ رہی ہے اور اس کی کہانیاں تلاش ذات کا پتہ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ تیری کہانیاں جانے کیوں مجھے اپنی کہانیاں لگتی ہیں۔ وہ رومی کی چاہنے والی اس کے ساتھ قونیہ میں رقص کرتے درویشوں میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ یہ کہانی کار اپنے اپنے دائروں میں رقص کرتے، گھومتے مدہوش ہیں۔ یہ محفلِ مدہوشاں ہے۔ یہ کہانی کار دیوانے ہیں۔ یہ جادوگر ہیں۔ Cop

The slingshot whirls

Image
  English Translation of an Urdu poem of Aatif Malik The actual Urdu poem can be read at following link: http://aatifmalikk.blogspot.com/2018/05/blog-post_14.html The slingshot whirls By Aatif Malik The wheelchair gets bogged down in the ground Like the soul restrained by the body’s frame Like a prisoner caged behind the bars It’s me But my spirit is free Like the slingshot ---- that whirls That whirls raising itself over the head Free, free like air ---- unrestrained, unbridled, limitless It’s me I will not flee My legs are already freed from my body I will not flee I will fight I will fight till I will be free It’s me Whether I live or not, The time will change, You will bury me, But my spirit will wander, wander here, among the destroyed Olive trees, among the bombed houses, among the burnt fields, My spirit will wander here, Like the slingshot ---- that whirls twirling over the head Free, free like air ----unrestrained, unbridled, limitless It would be me. Copyright © All Rights Re

وارنٹ آفیسر مسکین اور گندے انڈے

تحریر : عاطف ملک اگر آپ بیوروکریٹ یا ریٹائڑد فوجی کے پاس بیٹھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ تو ماضی میں جی رہا ہے۔  اس کے پاس آپ کو سنانے کے لیے اپنی نوکری کی کہانیاں ہوتی ہیں؛ وہ کہانیاں سناتا ہے، بے دریغ، بے بریک، بے حساب، بے جواب، بے خواب۔ آپ کا سننا ضروری نہیں، ہوں ہاں کرنا بھی ضروری نہیں، آنکھ ملانے کی ضرورت بھی نہیں، کان کھجائیے، بے زاری کا اظہار کریں، ماتھے کو رگڑیے، کچھ کرلیں ماضی میں سانس لیتا حال سے بے خبر ہی رہتا ہے۔  کہانیاں دواقسام کی ہوتی ہیں۔ اگر کہانی سنانے والے کاعہدہ چھوٹا رہا ہو تو وہ بڑے عہدیداروں سے کہانی شروع کر کےاپنے تک لائے گا۔ جیسے جیسے کہانی سنانے والے کا عہدہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے، اس کی کہانیاں تیزی سے اپنے جانب آتی ہیں، اور پھر وہ مقام آتا ہے کہ کہانی سنانے والا اپنے ہی گرد والہانہ رقص کر رہا ہوتا ہے، دیوانہ وار ناچتا ہے۔ یہ چھب دکھاتی طوائف نہیں ہوتی بلکہ وقت کا مارا، حقیقت سے فرار مانگتا ناچار نچیا ہوتا ہے۔ ایسا ناچنے والا جو اپنا تماشبین بھی خود ہی ہے۔ یہ زندگی کا رقص نہیں بلکہ حسرتوں کا ناچ  ہے۔ مور کا سنا ہے کہ پنکھ پھیلائے ناچتے اپنے پیروں کو دیکھ کر روتا

ہاتھ دھونا

عجب ایک عادت ہے، پتہ نہیں کب سےسرشت میں شامل ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ طریقہ زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے۔  جب بھی ہاتھ دھوتا ہوں، وقت اور مکاں سے بلا لحاظ صابن ہاتھ پر ملتا جاتا ہوں اور سورہ فاتحہ پڑھتا جاتا ہوں۔ سورت ختم ہوتی ہے تو ہاتھ کا دھونا بھی ختم ہوتا ہے۔ کبھی یاد نہیں کرنا پڑا خود بخود نہ جانے کہاں یہ سورت کا پڑھنا آجا تا ہے۔ کبھی اس کی شعوری کوشش نہیں کی کہ عقل کے پیمانے پر تولنے کی صلاحیت سے قبل سکھائی گئی چیزوں کے نقوش بڑے گہرے ہوتے ہیں۔  وائرس کرونا آیا تو ہاتھ دھونے کے طریقے بتائے جانے لگے کہ ہاتھ ایسے دھوئیں اور پندرہ سے بیس سیکنڈ تک آپس میں ملیں۔  عقدہ حل ہوگیا کہ ایک کم سن کو سیکنڈوں کے پیمانوں کے علم سے بھی قبل ہاتھ دھونے کے دورانیے کا پابند کردیا گیا تھا، اور ہاتھ صاف کرتے دعا بھی کہ کرم شدہ لوگوں کی پیروی مل جائے۔ ماں سے زیادہ کس کو بچے کی جسمانی اور روحانی ستھرائی کا خیال ہوگا۔ اگلی دفعہ آپ ہاتھ دھوئیں تو سورہ فاتحہ اپنی ماں اور میری ماں کے لیے پڑھ لیجئے گا کہ صفائی اوراولاد کی تربیت ماوں کے دم سے ہوتی ہے۔  

پانچ مصرعوں کی ایک نظم

Image
 زندگی کی بہتی ندی، نِت اطوار کبھی ساکت، کبھی تیز رفتار کبھی گدلی، کبھی صاف نتھار بہتا پانی، شجر، وقت، اسرار سائیں اُچے دے عکس ہزار شاعر : عاطف ملک x

غلیل گھومتی ہے، کلام شاعر بزبانِ شاعر

Image
 

سچ

شاعر : عاطف ملک جو ہم کہیں وہی ہے سچ جو ہم لکھیں وہی ہے سچ جو ہماری دستاویز ہے، وہی ہے سچ جس پہ ہماری مہر ہے، وہی ہے سچ ہمیں یہاں کے ہیں معتبر ہمیں یہاں کی شان ہیں  تمہیں ہماری کیا خبر کیا مان ہے، کیا آن ہے تمہیں گر ہے کچھ اور دکھا تم نے گر ہے کچھ اورکہا  تم پھر گہنگار ہو  عدو کےتم یار ہو تمہارا ہم کریں گے کچھ مگر تم یہ جان لو جھوٹ ہے سقوط ارض جھوٹ ہے تاریک رات جھوٹ ہے درماندگی جھوٹ ہے  ٹپکتی رال اور  سچ نہیں فرقوں میں بٹی بحث سچ نہیں فقیہِ غرض کا بول سچ نہیں سیٹھ کا سیل کا بورڈ سچ کٹی گھاس کی مہکار ہے سچ ابھرتے سورج کی ہے روشنی سچ کوری مٹی پہ بارش کی باس ہے سچ ماں کی گود میں ہمکتے بچے کی ہنسی سچ حسین کی پیاس ہے تم نے جو کہا  میں نے ہے سنا میں مسافرِ آخر شب سامانِ جھوٹ نہ اٹھاوں گا اس حیاتِ اُلجھ سے بے ریا ہی جاونگا  

محبت کی ایک نظم، شاعر: امجد اسلام امجد، پیشکش: عاطف ملک

Image
  محبت کی ایک نظم اگر کبھی میری یاد آئے  تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں  کسی ستارے کو دیکھ لینا  اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر  تمہارے قدموں میں آ گرے  تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا  اگر نہ آئے  مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے  کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو  تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے  وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے  اگر کبھی میری یاد آئے  گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا  میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا  مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا  میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا  اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو  تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا، میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا  کہیں پہ روشن چراغ دیکھو  تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں  تم اپنی ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا  میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا  کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ  رک کے تم کو صدائیں دوں گا  سمندروں کے سفر پہ نکلو  تو اس جزیرے پہ بھی اترنا امجد اسلام امجد

ْقصہِ دو مسافراں

تحریر: عاطف ملک پہلا مسافر: میں نے بیرون ممالک کئی یونیورسٹیوں میں پڑھایا ہے اور جن پاکستانی طلبا  سے مجھے واسطہ پڑا ہے، انہیں میں نے محنتی اور ذہین پایا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اتنا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پیچھے ہیں؟ دوسرا مسافر: اس کی کئی وجوہات ہیں؛ فنڈز کی کمی، فرسودہ کورسز، پرانا نظام جو طلبا کے صلاحیتوں کو نکھارنے کی بجائے دباتا ہے، غیرمعیاری اساتذہ، پرائمری اور ہائی سکول کی رواجی تعلیم وغیرہ  وغیرہ مگر شاید سب سے بڑی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے انتظامی امور پر سفارشی لوگوں کی تعیناتی جن میں تعلیمی سمجھ  بوجھ کی کمی ہے۔ ان افراد کا بنیادی کام دوسرے تعلیمی مسائل کو حل کرنا اور نظام میں ترقی لانا ہے مگر بدقسمتی سے  وہ خود سب سے بڑا مسلہ ہیں۔ پہلا مسافر: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ دوسرا مسافر:  میں تمہیں اس کی ایک زندہ وجاوید مثال سناتا ہوں۔ ہوائی یونیورسٹی قائم ہوئی تو وہاں کا پہلا وائس چانسلر ایسے شخص کو لگایا گیا جس کا یونیورسٹی سےدور کا بھی تعلق نہ رہا تھا، مگر لگانے والوں نے اسے یونیورسٹی نہیں بلکہ ایر سے واسطہ رکھنے پر لگایا تھا۔ اس کی  بڑی کوالیفکیشن یہ تھی کہ ایر مارشل کا رین