Posts

Showing posts from May, 2018

غلیل گھومتی ہے

Image
This poem is written, seeing this photo of a Palestinian without legs, fighting with just a sling against the brutal occupying military might of Israel. تحریر :عاطف ملک وہیل چیئر کے پہیے زمیں پہ پھنستے ہیں روح جیسے جسم کے پنجر میں پابند ہے سلاسل میں مگر احساس میرا زندہ ہے  چارسو آوارہ جیسے غلیل گھومتی ہے چارسو آوارہ سرسے بھی بلند ہوکر  چارسو آوارہ میں نہیں بھاگوں گا ٹانگوں کو میں نے پہلے ہی جسم سے آزادی دی میں یہیں پہ لڑتا ہوں اپنی اب آزادی تک میں رہوں یا نہ رہوں وقت گھومے گا مجھے تم دفناو گے میری روح یہیں گھومے گی  زیتون کے سربریدہ شجروں میں جلائے گئے باغوں میں تباہ کردہ کھنڈروں میں  بم شدہ  مکانوں میں میری روح یہیں گھومے گی  جیسے غلیل گھومتی ہے چار سو آوارہ سرسے بھی بلند ہوکر  چار سو آوارہ   English Translation of the poem can be read at following link:   http://aatifmalikk.blogspot.com/2021/08/english-translation-of-urdu-poem-of.html   Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be r

اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٘ مضمون کی چوتھی قسط

تحریر : عاطف ملک اس مضمون کی تیسری قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔  http://aatifmalikk.blogspot.com/2018/04/blog-post_88.html اماں کی وفات ہوئی تو میں اُن کےپاس تھا۔ ان کے آخری وقت میں ان کے بستر کے پاس تھا۔ انہوں نے آخری سانس لی اور اگلے سفر کی اڑان پر چل نکلیں اور میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ میں ماتم کروں کہ یہ ایک شکر کی گھڑی ہے۔ اللہ نے مجھے کیا خوبصورت موقع دیا تھا، اُس عورت کے پاس رہنے کا، اُس کو دیکھنے کا، اُس سے سیکھنے کا، جو کہ ایک رہبر تھی۔ میں اماں کی موت کے لمحے سے اُس وقت کا احساس کر پایا تھا جب مالکِ کائنات نے فرشتوں کو آدم کا سجدہ کرنے کا کہا تھا ۔ وہ اُسی اسرار کی ایک کڑی تھیں جب مالکِ ارض و سما نے ملائکہ کو کہا تھا کہ اِس مٹی کی تخلیق کو سجدہ کرو کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے اپنے کرم سے مجھے اُس اسرار کو محسوس کرنے کا موقع دیا تھا، یہ اُس کی عطا کا شکر ادا کرنے کا موقع تھا۔ اماں دو تین ماہ سے ہی کہہ رہی تھیں، " جانے کا وقت آ گیا ہے"۔  مگرمجھے لگتا تھا کہ ابھی کچھ

ڈس کوالیفائیڈ ٹیم

Image
تحریر : عاطف ملک مصنف ایک دوڑ کے مقابلے میں وقت رکا تھا، تھما ہوا، شاید ہوا چل رہی تھی یا شاید رکی  تھی، شاید دھوپ تھی یا شاید  بادل سورج کے سامنے تھا، اُسے کچھ علم نہ تھا۔ اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، دونوں بھووں کو تر کرتا۔ اُس کا حلق خشک تھا، ابھی کچھ منٹ قبل ہی تو اُس نے پانی سے لب تر کیے تھے، یہ خیال کرتے کہ پانی زیادہ نہ پیے۔ یہ پانی پیاس بجھانے کے لیے نہ تھا، اُس لمحے پیاس بجھ بھی نہ سکتی تھی۔ اُس کے پیٹ میں درد تھا، دور سے کہیں اٹھتا، ہلکا مگرتمام پیٹ میں پھیلتا، مسلسل اپنا احساس دلاتا۔ یہ ہمیشہ ہوتا تھا، ایک اضطراب، اُسے علم تھا کہ اِس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ آس پاس شور تھا؛ شور- قریب و دور کے درمیان شور، بہت سے لڑکے اونچی اونچی آوازوں میں نعرے لگا رہے تھے، کچھ اس سے مخاطب تھے، اُس کا نام لے رہے تھے، مگر اُسے کچھ  سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ معلق تھا، زمیں اور آسماں کے درمیاں کہیں معلق۔ کانوں میں شور، کچھ بے معنی اور کچھ معنی رکھتا، اور آنکھیں مرکوز تھیں، سامنے، عین سامنے۔ وہ جھکا تھا، زمین پر، ساکت، زمین سے پیوست ایک مجسمہ، دایاں گھٹنہ زمین پر ٹکا ہوا اور دائیں پیر کا پنجہ زمی

لہو بہتا ہے ہزار راہ

لہو بہتا ہے ہزار راہ کوئٹہ کےشیعہ ہزاروں کے لیےایک پنجابی سنی کی نظم {کہ میں تمہارے غم میں شریک ہوں} تحریر : عاطف ملک لہو بہتا ہے ہزار راہ مانندِ دریا، ہزار راہ شریانوں میں دوراہوں میں چوکوں میں  بازاروں میں خوابوں کی پامالی میں جواں بیوہ کے ہاتھ کی لالی میں یتیم بچوں کی روتی آنکھوں میں ماں کی پھیلی چادر میں باپ کے گریہ کے ہر لفظ ،  ہر خاموشی میں لہو بہتا ہے ہزار راہ مانندِ دریا ، ہزار راہ اندھیر چہار سو چپ چہار سو آنکھ کی پتلی پر چپکا اندھیر چہار سو کانوں کے پردوں پر چپکی چپ چہار سو خوابیدہ احساس چہار سو اور اک لاش روبرو ہر دوسرے دن  اک لاش روبرو احساس کی ہریالی کی کرتی دعا لہو بہتا ہے ہزار راہ مانندِ دریا ، ہزار راہ یکم مئی 2018 Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com