Posts

Showing posts from March, 2019

اللہ ماہی ۔ شاگردوں کی قطار میں میرا استاد

تحریر : عاطف ملک لیکچر کے لیے استاد کلاس کے سامنے کھڑا ہوا۔  یہ کلاس کے سامنے کھڑے ہونا بھی دریا کے سامنے کھڑے ہونا ہے، ٹھہرا منظر اور پھر آہستہ سے بدلتا منظر، دھیمی سی تبدیلی۔ دھیرے سے بہتا پانی جس کے ایک کونے سے ایک آبی پرندہ ابھرتا ہے، اوپر کو دیکھا اور پھر پانی کے اندرغائب۔ ایک لمحہ ہی سب تبدیلی چھپائے ہے، پکڑ لو تو جھولی بھر دے،  نکل گیا تو ہاتھ خالی۔ دیکھنے کی آنکھ ہو تو بدلتا منظر نظرآتا ہے، ورنہ  سب کچھ سپاٹ ہے۔ سپاٹ سی دیوار اور اس پر  ٹنگی ساکت تصویریں۔ دیکھنے کی آنکھ ہو تو تصاویر  سرگوشی کرتی ہیں، کہانیاں سناتی، منظر دکھاتی۔ محسوس ہو تو غیر محسوس  بھی چھب دکھلاتا ہے۔ استاد کلاس میں کھڑا ہو تو سامنے طالبعلموں کے چہرے ہیں، سپاٹ چہرےاور کہانیاں سناتے چہرے۔ بے زار، جمائیاں لیتے، سر کھجاتے، لیکچر کی بےوقعت قید گذارتے چہرے۔  لیکچر میں دلچسی لیتے، چمکتی آنکھوں سے استاد پر نظر رکھتے،  ہاتھ سے کاپی پر تیز تیز نوٹس بناتے چہرے۔ اور بھری کلاس سے علیحدہ کچھ چہرے۔ جماعت کے ایک کونے میں بیٹھی طالبہ اور اس کے ساتھ ہمیشہ بیٹھتا وہ طالبعلم۔ ہتھیلیوں پر چہرہ دھرے وہ لیکچر کی طرف متوج

اور جان لو کہ ہرتکلیف کے بعد آسانی ہے

Image
تحریر : عاطف ملک جمعہ کا دن ڈیپارٹمنٹ میں  مہمان لیکچرز کے لیے مختص ہے، تین چار دن قبل اساتذہ اور پی ایچ ڈی کے طالبعلموں کو ای میل بھیج کر مقرر کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے۔ مگر یہ جمعہ فرق تھا کہ اس جمعے کو ایک سعودی لڑکی اپنا پی ایچ ڈی کا فائنل ڈیفنس دے رہی تھی۔ میں خصوصاً  یہ سننا چاہ رہا تھا، سعودی طالبعلم یونیورسٹی میں ویسے بھی کم تھے اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے والی سعودی طالبات تو اور بھی کم ہیں۔ حجاب اوڑھے، لمبا عبایہ پہنے طالبہ نے اپنا کام پیش کیا۔  اسکی انگریزی کا لہجہ اس کے علاقے کا پتا دیتا تھا۔ سوالات ہوئے، کچھ کے جوابات دیے، ایک آدھ سوال پراُسکا سپروائزر مدد کو آیا۔ ایسا ہمیشہ ہوتا ہے۔ ڈگری کے اس آخری مقام پر مقصد  فیل کرنا نہیں ہوتا بلکہ سمجھنا ہوتا ہے۔ سپروائزر نے پہلے ہی کام  کو چیک کیا ہوتا ہے، تھیسس بیرونی ماہرین سے چیک ہوگیا ہوتا ہے، تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہوتے ہیں۔  یہ آخری مرحلہ شاید بس پریشان کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ حاضرین میں بیٹھے مجھے مختلف خیال آرہا تھا؛ علمی نہیں معاشرتی۔ اس کے لباس کا خیال، سر پر لپٹے حجاب کا، لمبے عبائے کا خیال۔ آسڑیلیا میں

ماں جی ----- عورتوں کے عالمی دن کے لحاظ سے ایک تحریر

Image
، ماں جی، ایکسیلنس ان نرسنگ کے فلورنس نائیٹ انگیل ایوارڈ کے لیمپ کےساتھ 1965 کالج آف نرسنگ کراچی  تحریر : عاطف ملک گرمیوں کی چھٹیاں لاہور میں سخت ہوتی تھیں۔  لمبے دن، آسمان سے برستی آگ، نلکوں سے نکلتا کھولتا پانی، گرم ہوا پھینکتے پنکھے، خاموش دوپہر، ساکت ہوا اور ایک سرکاری کواٹر میں کھڑکی سے باہر تکتے تین کم سن بچے۔  کبھی گھونسلے میں چڑیا کے چھوٹے بچوں کو دیکھا ہے، منہ کھولے، چونچیں اوپر کیے، ایک آس، ایک انتظار رکھے۔  آسماں جتنا بھی وسیع ہو انکی کائنات مختصر ہے۔ دانا کھلاتے دو ماں باپ، جو دانے کی تلاش کے ساتھ ساتھ  بچوں کی حفاظت کے خیال کا بوجھ اٹھائے دور تک نہ پرواز کر پائیں۔ ماں جی ہسپتال میں نرس تھیں، خوش قسمتی تھی کہ ہسپتال میں دو کمروں کو سرکاری کواٹر ملا تھا۔ دو کمرے، آگے برآمدہ جس کے کونے میں ایک چھوٹا  باورچی خانہ، برآمدے سے آگے چھوٹا سا  اینٹوں کا صحن، صحن کے آخر میں ایک غسلخانہ، غسلخانےسے متصل بیت الخلا اور صحن کی بیرونی دیوار پر گھر سےباہر نکلنے کا ایک پٹ کا دروازہ۔ جب ہم پرانی انارکلی کے احاطہ مادھو رام کا ایک کمرے کا گھر چھوڑ کر اس سرکاری کواٹر میں آئے تھے، ت

A thing of beauty is joy for ever.

کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تخلیق کی صلاحیت سب سے زیادہ بچوں میں ہوتی ہے، اور جیسے وہ عمر میں بڑھتے جاتے ہیں انکی تخلیقی صلاحیت کوختم کرنے کے لیے بڑے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نیک نیتی سے بچوں کو روایتی طور پر کام کرنےکی عادت ڈالی جاتی ہے اور اگراس کے باوجود بھی اگر کچھ تخلیق کی صلاحیت بچ جائے تو اس کے خاتمہ کے لیے جگہ جگہ پہلے حکومت نے سکول بنائے تھے، اب کئی چرب زبانوں نے تخلیق کی ترویچ کے نام سے تخلیق کے خاتمے کے سکول بنائے ہیں جہاں سادہ لوح اپنے پلے سے پیسے دیکر بچوں کی تخلیق کی حجامت بلکہ ٹنڈ بنواتے ہیں۔ کل مغرب کی نماز پڑھ کر نکلا تو ایک منظر دیکھا جس سے طبیعیت ہری بھری ہو گئی۔ یہ ایک ترک مسجد ہے۔ ترکوں کے نزدیک مسجد ہمارے پاکستانی مزاج کے مطابق طاق پر رکھا قرآن نہیں بلکہ گھر کا صحن ہے، جہاں ٹھنڈی ہوا میں جانماز ڈال کر عبادت بھی کر لی جائے، فٹبال میں ہوا بھر کر بچوں کے ساتھ میچ بھی ہوجائے، موڈ ہو تو چادر بچھا کر لوڈو کی بازی بھی لگالی جائے، چولہے پر کیتلی چڑھا کر چائے کا لطف بھی اٹھا لیا جائے۔ سو زندگی میں کئی ترک مساجد دیکھیں، مسجد کے احاطے میں