Posts

Showing posts from April, 2020

پراسرار رات

تحریر : عاطف ملک کسی نے پیر پر ٹھڈا مارا اور کہا، " اٹھ عثمان اٹھ، باقی لوگ پہنچ رہے ہیں، اٹھ ابھی اگلا سفر پڑا ہے، اور دیکھ سڑک کے ایک طرف ہو کر لیٹا کر، کسی گاڑی کے نیچے آکر مارا جائے گا"۔ مجھے علم نہیں ہے کہ کتنے ٹھڈے مارے  گئے تھے، اور کون تھا جس نے ٹھڈے مارے تھے۔ یہ جو ڈائریکٹلی مولڈیڈ سول جوتے جنہیں عام زبان میں  ڈی-ایم-ایس شوز کہتے ہیں، انکا سول اتنا موٹا ہوتا ہے کہ ان پر ٹھڈے مارو بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ مارنے والے کو اور نہ ہی جسے مارا جاتا ہے۔ سونے والا سویا ہی رہتا ہے ۔ سنا تھا کہ کھال موٹی ہو تو کسی بھی چیز کا اثر نہیں ہوتا، یہ  ڈی-ایم-ایس  موٹی کھال کےجوتے ہیں۔  میں اٹھ گیا تھا، مگر شاید نہیں اٹھا تھا، یا شاید جھٹ اٹھ پڑا تھا۔ جب پتہ ہو کہ سفر ابھی باقی ہے تو سویا ہوا بھی جاگا ہی ہوتا ہے۔ مگر جاگ کر بھی مجھے لگ رہا تھا کہ میں سویا ہوا ہوں، خواب اور حقیقت کے درمیان کہیں لٹکا ہوا ہوں۔   میرے پیروں کو ڈی-ایم-ایس جوتوں کی عادت ہوگئی تھی، کسی ناخوشگوار ساتھ کی مانند جس سے چھٹکارا نہ پایا جاسکے اور پھر کچھ عرصے بعد بک بک جھک جھک کی عادت ہو جاتی ہے۔

الحمرا اور مسافر, قسط دوم

Image
تحریر : عاطف ملک تصاویر : عاطف ملک و محی الدین الحمرا اور مسافر، قسط اول مندرجہ ذیل لنک پر  ہے۔ http://aatifmalikk.blogspot.com/2020/01/blog-post_27.html ہم وضوگاہ کے کھنڈر سے نکلے اور مسجد کی جگہ پر کھڑے چرچ کے ساتھ سے گذرتے چارلس پنجم  یا ہسپانوی میں کارلوس پنجم کےمحل کے سامنے تھے۔ چارلس پنجم سولہویں صدی میں آسٹریا کا حکمران تھا جو1519عیسوی میں فرانسیسی بادشاہ کے مقابلے میں کیتھولک رومن حکمران منتخب ہوا تھا۔  اس کی سلطنت جرمنی سے جنوبی اٹلی، بلجیم، ہالینڈ، لگسم برگ، سپین اور شمالی اٹلی کے علاقوں سسلی، نیپلز پر مشتمل تھی۔  1526 عیسوی میں چارلس نے اشبیلیہ میں پرتگال کی حکمران خاندان کی ازابیلا سے شادی کی اور الحمرا میں اپنے لیے ایک محل کی تعمیر شروع کی۔  الحمرا کی مسجد کو مسمار کرکے چرچ اور دوسری عمارات کو ڈھا کر محل کی جگہ بنائی گئی۔  یہ محل  ان کی زندگیوں میں مکمل نہیں ہوا بلکہ بیسویں صدی تک بغیر چھت کے تھا۔ محل کی درمیانی جگہ کھلی ہے جس کے گرد دو منزلہ برآمدے ہیں۔ برآمدوں میں جا بجا ستون ہیں۔ اس محل کے ایک حصے میں اب الحمرا کا عجائب گھر قائم ہے جس میں الحمرا کی تاریخ