چین کا سفر، قسط سوم
تحریر : عاطف ملک
قسط دوم درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_2.html
نچلی منزل پر اتر کر باہر نکلے تو تین چار بسیں کھڑی پائیں جن کے ڈرائیور باہر کھڑے تھے۔ وہ رقعہ جس پر منزل کا بس سٹاپ لکھا تھا، انہیں دکھایا تو ایک نے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور بس کے ایک جانب کا کور کھول دیا کہ سامان اس ڈگی میں رکھا جائے۔ مسافر نے سامان اُس خانے میں رکھا اور ڈرائیور کو غور سے دیکھا۔ اُس چینی ڈرائیور کے ہاتھ میں دو تسبیحیاں تھیں، اب علم نہیں کہ وہ دونوں کو کیسے پڑھتا ہوگا۔ ایرپورٹ پر چینی مسلمان نظر آرہے تھے، کچھ حجاب اوڑھے چینی خواتین بھی تھیں۔
مسافر بس میں بیٹھ گیا۔ شہر ایرپورٹ سے دور تھا سو سفر لمبا تھا۔ سڑکیں بہتر اور ٹریفک اچھی تھی۔ سڑک کے ساتھ پہاڑیاں تھیں۔ چالیس منٹ کے سفر کے بعد شہر شروع ہوا اور بس مختلف سٹاپ پر رکنا شروع ہوئی۔ اب مسلہ یہ تھا کہ سٹاپ کے نام کا اعلان چینی زبان میں ہوتا اور لکھا بھی چینی میں ہوتا۔ مسافر بس کی اگلی سیٹ پر آگیا، ڈرائیور کو پہلے ہی پرچی دکھائی تھی کہ اس سٹاپ پر سواری اتارنی ہے مگر ڈر تھا کہ وہ بھول نہ جائے۔ ایک چینی لڑکی پاس بیٹھی تھی۔ اس سے انگریزی میں بات کی تو اس نے بھی جھٹ موبائل نکال لیا، بات بذریعہ ترجمہ ایپ ہوئی ۔ وہ لان زو کی زرعی یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ اُس نے اطمینان دلایا کہ وہ سٹاپ کا بتا دے گی کیوں کہ اُس کی منزل ہمارے سٹاپ کے بعد تھی۔
ایک نوجوان گذرا تو اس سے رہنمائی چاہی۔ پھر وہ موبائل مترجم تھا اور ہم تھے، اس نے کہا کہ ٹیکسی تو مشکل سے ملے گی، مگر ہوٹل قریب ہی ہے سو پیدل ہی چلے جاو۔ اس نے اپنے موبائل پر راہ دکھائی۔ مسافر نے اس نقشے کی تصویر کھینچ لی اور اب سامان کھینچتے ہوٹل کی راہ کو ہو لیا۔ راہ پوچھتے تقریباً پندرہ منٹ بعد یونیورسٹی کے دروازے کے سامنے تھے۔ ہمارا ہوٹل یونیورسٹی کے اندر تھا سو کچھ ڈھارس بندھی کہ منزل مل ہی جائے گی۔
یونیورسٹی کا نام نارتھ ویسٹ نارمل یونیورسٹی ہے۔ اب سمجھ نہ آیا کہ نارمل یونیورسٹی کیا ہوتی ہے، شاید زرعی یونیورسٹی، میڈیکل یونیورسٹی سے فرق بتانے کے لیے نارمل کا نام یونیورسٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یونیورسٹی میں داخل ہوگئے، بڑی عمارتیں اور باغ تھے۔ کچھ طالب علم بھی آجا رہے تھے۔ ہم پوچھتے پوچھتے اپنی منزل تک جاپہنچے۔ یہ ہوٹل یونیورسٹی کا انٹرنیشنل ایکسینچ سنٹر ہے۔ اس کی ایک سولہ منزلہ اور دوسری پانچ منزلہ دو عمارتیں ہیں۔ ہوٹل کے فرنٹ ڈیسک کے سامنے دو میزوں پر کانفرنس کے رضاکار طالب علم بیٹھے تھے۔ انہوں نے خوش آمدید کیا۔ اب ہم جو بھی کہتے ، وہ اپنا موبائل سامنے لے آتے۔ ا یک طالب علم نے ایسی ترجمے کی ایپ انسٹال کی تھی جو آواز میں بیان کرتی تھی۔ وہ ہمیں ہمارے کمرے تک لے گیا۔
نارتھ ویسٹ نارمل یونیورسٹی، لان زو میں ہمار ہوٹل
مسافر نےکمرہ آن لائن پلیٹ فارم ٹرپ ڈوٹ کام کے ذریعے سے بُک کیا تھا، اور آن لائن اشیاءوالے بھی بیوٹی پارلر والوں کی طرح ہیں کہ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا، سو کمرہ دیکھا تو حقیت کو خیالی سے بہت فرق پایا، اور یہ فرق بھی صرف خرابی کی ہی جانب تھا۔ میں ریسپثن پر گیا اور کانفرنس انتظامیہ سے کہا کہ میں کمرہ بدلنا چاہتا ہوں اور سولہ منزلہ عمارت ( جو کہ نئی عمارت تھی) میں کمرہ چاہتا ہوں۔ اب ایک ہوہکار مچ گیا۔ کانفرنس کی انتظامیہ میں سے ایک چینی خاتون میرے ایما پر ہوٹل والوں سے بات کرنے لگی۔ ہمیں خبر نہ تھی کہ چینی اتنے جوش سے بولتے ہیں، تیزگام بلکہ بلٹ ٹرین کی رفتار پر وہ بات کرتی تھی، راہ میں آتے سٹیشن بھی چھوڑ جاتی تھی۔ مسافر پریشان تھا کہ کہیں لڑائی جھگڑے کا منظر نہ بن جائے۔ ہوٹل والے کہتے کہ کیوں کہ بکنگ ویب سائیٹ سے کروائی گئی ہے ، سو ان سے بات کرنا ہوگی۔ وہ خاتون اب ہانگ گانگ میں ویب سائیٹ کے دفتر بات کر رہی تھی، آواز مسلسل اونچی اور تیز رفتار تھی۔ پہلا موقع تھا مگر اس کے بعد بھی چینی خواتین کو بڑا پُراعتماد اور حوصلہ مند پایا، وہ کام کروانا جانتی ہیں۔شور وغل تھا، فون پر ہانگ گانگ بات ہورہی ہے، ایک طالب علم ہوٹل ریسپشنسٹ سے بحث میں ہے، دوسرا ہمیں بذریعہ موبائل مترجم حوصلہ دے رہا ہے ، فکر نہ کریں کمرہ بدلوا کر دم لیں گے، اور تھکا مسافر چوبیس گھنٹے کے مسلسل سفر اورآدھے گھنٹے کی سامان دھکیلنے کی تھکان کے بعد زبان غیر کے معرکے دیکھ رہا تھا۔ بالآخر پتہ لگا کہ ویب سائیٹ والے مسافر کے کمرے کی بکنگ کینسل کرنے کو تیار ہو گئے ہیں، مگر اب ہوٹل والے کہتے ہیں کہ دونوں کمروں کے کرایوںمیں فرق ہے اور کیوں کہ مسافر نے چیک ان کرلیا ہے اور اب دوسرا کمرہ چاہتا ہے سو پرانے کمرے کا کرایہ تو اُس پر پڑگیا ہےاور اب دوسرے کمرے کا کرایہ بھی تمام دنوں کے لیے علیحدہ ادا کرے ۔ ا س معرکہِ تو تو میں میں میں گھنٹہ گذر گیا تھا اور مسافر کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مسافر وہ دیہاتی تھا جو کمرہ عدالت میں انگریزی میں اپنے مقدمے کی روداد سنتا ہو، اور کچھ نہ سمجھتا ہو کہ مائی لارڈ کیا فرمان نکالیں گے۔ اب فرمان جو سامنےآیا تو جرمانے کے ساتھ تھا کہ آن لائن خیالی کو حقیقی جاننے کا تاوان بھرے۔ تھکن اتنی تھی کہ کہا سب قبول ہے۔
کئی جگہ پر مستعمل طریقہِ
انصاف کی سمجھ آگئی کہ سوالی کو اتنا تھکا
دو کہ منصف کا ہر فیصلہ قبول ہو، انصاف لرزتے
ہاتھ اور بالوں کی چاندی کے بوجھ میں اپنے معنی کھو دے، اور اس بے معنویت میں طاقتور
اپنے معنی تراش لے، وہ معنی جو فیصلے میں لکھے گئے بلندو بالا الفاظ کے کھوکھلے
پن میں پیسے اور طاقت کے آئینہ دار ہوں۔
چوتھی قسط درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_4.html
دریائے زرد
Comments
Post a Comment