Posts

Showing posts from April, 2018

اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٘مضموں کی تیسری قسط

اس مضمون کی دوسری قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ http://aatifmalikk.blogspot.com/2018/04/blog-post_28.html پاکستان ہجرت کے بعد اماں کےوالدین کو جڑانوالہ کے قریب  ایک گاوں میں زمین ملی اوروہ وہاں آباد ہو گئے۔ مگرابھی زندگی رواں بھی نہ ہوئی تھی کہ اگلا  دکھ بھاگا آیا۔  گاوں میں کسی معمولی بات پررشتہ دار لڑ پڑے، ایک شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب یہ تھانہ کچہری کا معاملہ چل پڑا۔ غریب لوگ لٹ پٹ کے آئے تھےمگر انا پرستی، عدم برداشت اور عزت کے ایک سراب کے زیرِاثر اپنی ہی جان کے درپے ہوگئے۔ مقدمہ چل رہا تھے، دونوں فریقوں کے مرد حوالات  میں تھے۔ ایسے میں فریقِ مخالف کی کسی عورت نے اماں سے چھوٹے بھائی اوراس سے چھوٹی بہن کو زہرآلود مکئی کی چھلی دے دی۔  دونوں معصوم کہاں دشمنی کی بات جانتے تھے، دونوں زہرکا شکارہوکرمر گئے۔ اماں کبھی اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو نہ بھولیں۔ اُماں اوراُنکے بھائی ہیرے میں دو  یا تین سال کا فرق تھا-  کبھی کبھی اماں بھائی کو یاد کرتیں تو کہتیں آج ہیرا زندہ ہوتا تو اتنے سال کا ہوتا۔ انکے لہجے میں ایک تاسف ہوتا، ایک دکھ۔ ایک بہن کا دکھ جو کوئی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھی

اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مضموں کی دوسری قسط

اس مضمون کی پہلی قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ http://aatifmalikk.blogspot.com/2018/04/blog-post_1.html اماں نے اپنے شہید بیٹے کے نام پر ہسپتا ل بنانا شروع کیا۔  یہ عجب بات تھی، بیٹے ماوں کے نام پر یادگاریں بناتےہیں، یہ تو اُلٹ معاملہ تھا۔ مگر اماں  کہاں  عام عورت تھیں وہ  خاص عورت تھیں۔ اور جب اماں نے یہ کام شروع کیا تو اُن کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ دو دن قبل ہی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں تو اُن کی عمر شاید تین چار سال زیادہ ہی ہو گی۔ پاکستان بننے سے پہلےآپ گورداسپور کے ایک گاوں میں پیدا ہوئِیں۔ اُس وقت کون پیدائش کی تاریخ کا خیال رکھتا  تھا اورماں جی تو بہت عرصہ بعد سکول داخل ہوئیں۔ خیال ہے کہ اُس وقت استاد نے جو دل چاہا تاریخ ڈال دی ہوگی۔ ماں جی پا کستان بننے سے قبل گورداسپور کےایک گاوں میں پیدا ہوئیں- آپ کے ماں باپ دونوں ان پڑھ تھے۔ شاید  تین چار  سال کی عمر  کی  ہوں گی  کہ  اُن پر پہلا  دکھ آیا۔ شام کو جلتے دیے کے ساتھ  کھیل رہی تھیں کہ دوپٹے اور کپڑوں  کو آگ  لگ گئی۔ گاوں  میں کوئی نیم حکیم تھا جس نے علاج خراب کر دیا۔ اماں نے ایک دفعہ مجھے بتایا ک

اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مضموں کی پہلی قسط

                           اپنی والدہ مسز کلثوم منصورکی یاد میں                    تحریر:عاطف  ملک                                                    اماں کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ ، جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کردیتیں ۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اورملائمت میں فرق رکھتے- مگروہ ایک سلائی سے ایک دھاگے کواُٹھاتی٘ں، اُس کواہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں- اور پھر جب وہ سویٹرتیا ر ہوتا  تواُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی،  کہیں بازووں  پرخانہ داراُبھرے ڈیزائن، کہیں ایک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اورکبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے  سے بٹن دار۔ اورجب وہ سویٹرپہنتا تواُن کی خوشبو، محبت،  گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔  اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا ۔ اُن کے پاس اپنا  کوئی آلہ تھا، نہ نظر آنے والا، بہت حسا

موچی دروازہ اور پانی

آج پتہ لگا کہ موچی دروازے لاہورمیں ایک جلسہ کو پانی سے فیضیاب کیا گیا ہے، مقصد  کچھ بھی ہومیدان بھی خوش ہوگا کہ پیاسے کو پانی تو ملا۔ اوراس  موقع پرتو پانی خود چل کر پیاسے کےپاس آیا اورشاید فائربریگیڈ کےسرخ رنگ کی گاڑیوں پر لد کرآیا۔ وہ گاڑیاں بھی خوش ہوئیں کہ اسی بہانے ان کے ٹینکرزکی لیکچ کا پتہ بھی لگ گیا۔ پنجاب آئے مہمانوں کی آو بھگت بھی ہوئی، روایتی مہمان نوازی کے طور پر پانی  پوچھا نہیں گیا بلکہ دیا گیا ۔  پانی کی بات ہو تو سب سے پہلے حکیم الامت علامہ اقبال کا شعر اپریل کے ماہ کی مناسبت سے یاد آتا ہے۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من پھراردو دانوں کی بات یاد آتی ہے کہ آنکھوں کا پانی مر گیا  ۔ موچی دروازے میں تو پانی بہت تھا ورنہ تو  کئی عزت دار زیادہ نہیں چلو بھر پانی کو ہی بہت سمجھتے ہیں۔  خیالِ اغلب ہے کہ ڈوب مرنے کا مقام ڈھونڈنا بھی اب مشکل ہے، کیونکہ بھارت کے دریاوں پر بند باندھ لینے کے بعد وہ ذمہ داران جو سوئے رہے، کہتے ہیں کہ وہ زندہ رہنے پر مجبورہیں کیونکہ ڈوب مرنےکے لیے پانی سے بھرا مناسب مقام ہی نہیں ملتا۔

ایک انجینیر کے ایر ڈیفنس میں شب و روز

تحریر : عاطف ملک اگر آپ سیلانی طبیعیت کے حامل ہوں، آوارہ گرد ہوں، بے چین روح ہوں، آپ کا گھر میں جی نہ لگتا ہو، ویرانے آپ کو صدائیں دیتے ہوں، آپ کو بزرگوں کی بہت دعائیں یا کچھ بد دعائیں ہوں،  آپ کی کوئی سفارش نہ ہو، آپ کے پیر میں چکر ہوں، کھنڈرات آپ کے لیے کشش کے حامل ہوں، کوئی چڑیل آپ کے عشق میں گرفتار ہو، تو پاک فضائیہ کی ایر ڈیفنس کی موبائل یونٹ ہی آپ کا  مقدر ہے۔  اب ہمارے وہ دوست جوایرڈیفنس سے ناواقف ہیں اور موبائل یونٹ کو موبائل فون کی کوئی قسم جان رہے ہیں بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس کے ساتھ کچھ فری نائیٹ پیکچز بھی ہیں۔ وہ جان لیں کہ ہم نے اپنے چند دوستوں کا حال ان پیکچز میں یوں پایا کہ ہمارے نزدیک یہ کسی دعا کے زمرے میں نہیں آتا۔ توصاحبو، ایرڈیفنس کی موبائل یونٹ ایک ماڈرن خانہ بدوشوں کا گروپ ہے۔ کہنے کو انکا ہیڈکواٹر کسی فضائیہ کی بیس میں ہوتا ہے، مگر حقیقت میں انکے پاوں میں پہیے اور کاندھوں پر بسترے لدے ہوتے ہیں۔ ہمارے دوست جوگی مراد آبادی نے کچھ وقت ایسی یونٹ میں گذارا تو کہنے لگا،" گنہگار ہوں، نماز کی طرف تو نہ آسکا  مگر بخدا  اس نوکری  کے بعد  سے تبلیغی جماعت کی دل

ملی ترانہ، ایک علامہ اقبال کی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیڈیو

Remembering the Great Philosopher and Poet Allama Iqbal on his death anniversary by reciting one of his poems. This tarana was written after his Hindi Tarana. Some people take the Hindi Tarana as proof of his nationalist view. This Milli Tarana negates this notion.  اقبال کا ترانہ مسلمانون کے قافلے کے لیے بانگ درا کی حثیت رکھتا ہے بانگ درا وہ گھنٹی کی آواز جو اس وقت بلند ہوتی جب قافلہ چلنے کے لیے تیار ہو۔   .دعا ہے کہ ہمارا قافلہ سفر کے لیے تیار ہو

نظم، ایک شہید کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیڈیو

سانحہ آرمی پبلک سکول، پشاور

تحریر : عاطف ملک یہ عجب مناظر تھے۔ یہ درسگاہ تھی جہاں بچےعلم حاصل کرنے آتے تھے۔ نرم شاخیں، وہ کلیاں جو پھول بنتی ہیں۔  ماوں باپوں کے خواب،  بہنوں اور بھائیوں کی محبتیں، دادا دادی اور نانا نانی کےلاڈ، کِھلتی ہوئی ہنسیاں۔ یہ بچے نہ تھے، رب کا بنایاعالم تھا، ہربغزکینہ سے پاک، رب کا رنگ لیے۔ ان کو دیکھوتومایوسی بھی جی اُٹھے، یہ نغمے تھے سرشاری کے، اُمنگ کے۔ یہ ماوں کے سہارے تھے۔  وہ ماں جو سردیوں کی تاریک راتوں میں اُس وقت اُٹھتی  جب سورج بھی اپنے بستر سے نہ نکلا ہوتا ۔ کہیں لکڑیاں جلاتی،  پھونکیں مارتی آنکھوں میں آنسوبھرلاتی ۔ کہیں کم ہوتی گیس میں دعا کرتی کہ ایک لمحے کو گیس  جل اُٹھے تو بچوں کا ناشتہ وقت پر تیار کردوں کہ کہیں سکول سے لیٹ نہ ہو جائیں۔  باورچی خانے سے پھر بچے کے بستر کو   لپکتی ، اُس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتی ، پیار سے اُٹھاتی ، ماتھا چومتی کہ  اُٹھ کر نماز  پڑھ لے  اور سکول کے لیے تیار ہو ۔  کوئی بچہ آرام سے اُٹھ جاتا  ، کوئی بستر پر ہی کروٹیں بدلتا  رہتا ، کوئی آدھی بند آنکھوں سے مزید  سونے کا اصرار  کرتا ۔ ماں کا ایک قدم باورچی خانے کی جانب جاتا کہ ناشتہ  اب تک تیا

ایک شہید کے نام

اپنے چھوٹے بھائی لیفٹیننٹ ضرار کے نام جس نے ۱۰ اگست ۱۹۹۹ کو شہادت کا رتبہ پایا جب پاک بحریہ کے اٹلانٹک طیارے کو بھارتی جنگی جہازوں نے میزائل کا نشانہ بنایا۔ اس نظم کا ایک حصہ قرانی آیات     ولا تقولولمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون   اور  وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتًۢا ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ  فَرِحِينَ بِمَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِٱلَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا۟ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا منظوم ترجمہ کرتا ہے۔   سفرِ زندگی کی تاریکی میں تم ایک ستارہ ہو محبت بھرا اے ہم قدم، اے ہم نفس رہ ِحیات میں میرے ہم نشین اکٹھے تھے ہم اکٹھے رہے اکٹھے گرے اکٹھے اُٹھے اکٹھے لڑے اکٹھے ہنسے عطا مگر تجھ کو وہ رتبہ ہوا آرزو جس کی کرتے پیمبر گئے آج ظاہر کی آنکھ تجھے دیکھ پاتی نہیں اک خلش اک چبھن ایک غم ایک نمی رگِ جاں میں پھیلتی تو ہے مگر شعورِ انساں،  گماں سے پرے حدِ سوچ،  لامکاں سے پرے

آسٹریلیا میں بکرے کی تلاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ویڈیو بیانیہ

بارود آج رویا ہے

قندوز میں مدرسےمیں حفظِ قرآن کی تقریبِ تقسیمِ اسناد کے دوران مارے گئے بچوں کے نام تحریر : عاطف ملک زمین سنگلاخ ہے فصل کیا پھوٹے گی حلق سنگلاخ ہے آواز کیا نکلے گی ذہن سنگلاخ ہے سوچ کیا ابھرے گی دل سنگلاخ ہے آنکھ کیا برسے گی اک بے حسی کا عالم ہے عالم پراک بے حسی کا عالم ہے بچوں کے عماموں سے کفن اب بنائیں گے انکی سندوں کو ساتھ اب دفنائیں گے ہم کو یہ مت بتلائیں کون تھے، یہ کیوں تھے کن کے یہ بچے تھے کیسے ان کو پالا تھا ہم اقوام عالم میں امن لیکر آئے ہیں کونپلیں مسل کر ہم امن لیکر آئے ہیں ہم کو آئینہ نہ دکھلائیے مطمن رہیئے بارود آج رویا ہماری سفاکی پر بارود آج رویا ہے Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com