Posts

Showing posts from May, 2023

بندر تماشہ

  تحریر: عاطف ملک پرانی آبادی کے وسط میں واقع بڑے احاطہ کے گرد گھر اور گلیاں ہیں۔ اُس احاطے میں بچے کھیلتے اور بڑے سردیوں میں دھوپ سینکتے، بعض جگہ عمر رسیدہ لوگ زمین پر بیٹھے تاش، لوڈو یا بارہ ٹینی کھیل رہے ہوتے۔ کونے پر جانی نائی کی دکان ہے۔ یہ دکان اصل میں محلے کی بیٹھک ہے، اتوار کے دن بال کٹوانے والوں کے ساتھ ساتھ گپ شپ لگانے کے لیے بھی لوگ وہاں بیٹھ کر اخبار پڑھتے۔ کیبل آنے کے بعد سے چینلوں کی بہتات ہوگئی اور حاضرین اب اخبار سے زیادہ چینلوں سے مستفیذ ہوتے ہیں۔  دکان میں ٹی وی کا ریموٹ پکڑنے کے بہت لوگ شوقین ہیں مگر جب حامد فتنے کی ہاتھ میں ریموٹ ہو تو ٹی وی کے چینل مسلسل بدلتے رہتے۔ ابھی کسی مولانا کا خطاب چل رہا ہے جس میں سے حامد فتنہ کسی جملے کو سیاق و سباق سے الگ  کر کے رائے زن ہوتا تاکہ دکان کا ماحول گرم ہو، اس کے فوراً بعد وہ کسی انڈین فلم کا ہیجان انگیز آیٹم نمبر لگا کر حاضرین کو اس میں سے آرٹ نکال کر بتارہا ہوتا گو فتنے کی آنکھیں اور اطوار اُس کی چُھپی حسرتوں کے آئینہ دار ہوتے۔ دوسری جانب جانی کے ہاتھ میں چاہے اُسترا ہو یا قینچی وہ سیاست پر بھرپور رائے زن رہتا۔ کہتا کہ سیاست

توھین

Image
    " آپ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، آپ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ " اُس نوجوان کی آنکھوں میں غصہ اور آواز میں کاٹ تھی۔ وہ رواں انگریزی میں مجھ سے بات کررہا تھا، اور میں نے محسوس کیا کہ اُس کا انگریزی کا چناو دانستہ تھا۔ وہ مجھے باور کرانا چاہ رہا تھا کہ اُسے میں عامی نہ جانوں۔ مگر میں اُسے عام نہیں سمجھ رہا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ صرف اُن طالب علموں کو ملتا تھا جو ایف ایس سی میں نمایاں ترین ہوتے ہیں۔ مجھے علم تھا کہ اُن میں سے کچھ نے لاہور کی   یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں سول، میکینیکل انجینئرنگ   اور دوسرے شعبوں کے داخلے چھوڑ کر پنجاب یونیورسٹی کو فوقیت دی تھی کیونکہ وہ الیکٹریکل انجینئر بننا چاہتے تھے۔ وہ نوجوان عام نہیں تھا۔ مگر وہ عام تھا، وہ عام تھا کہ وہ ہمارے مطالعہ پاکستان کے مضمون کی مار تھا، وہ مضمون جس کی مار نے کئی خواص کو عام بنایا۔ وہ مضمون جو سکول کے بچوں میں سوچ کو مارتا اور عقلی استدلال کو طریقے سے ختم کرتا ہے۔ وہ ذہین تھا مگر بند ذہن بنا دیا گیا تھا۔ اس نوجوان کے غ

زمان و مکان ( قسط دوم )

اس تحریر کی پہلی قسط درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ http://aatifmalikk.blogspot.com/2023/05/blog-post_19.html       سڑک کنارے لگے کھمبوں کی ناکافی روشنی میں صبح ساڑھے چار بجے مزدور کے ہمراہ ایک طالب علم لڑکی ہوتی۔ پھندنے والی گرم اونی ٹوپی، گرم جیکٹ، گلے پر لپٹے لمبے اونی مفلر، جینز اور نیچے لمبے جوتے پہنے اس کی سفید ناک کا سرا سرخ ہوتا۔ وہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر نہ مسکرائے، صرف ملتے ہوئے ایک دوسرے کو صبح بخیر کہتے۔ منفی پانچ کی سرد صبح ابھی خیریت کی جانب جاگ رہی ہوتی، اور دو مزدور ایک الگ زمان و مکان میں جنس کی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنی زندگی کے کھیت میں ہل چلانے نکل رہے ہوتے کہ آگے فصلِ گُل کھلے گی۔ صبح بڑی سرد تھی مگر انہیں یقین تھا کہ اُن کے صحن میں بھی سورج نکلے گا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر کبھی نہیں مسکرائے، وہ آنے والی صبح کی خیریت کے طالب تھے۔    ہر صبح جب وہ لڑکی نظر آتی تو مزدور سوچتا کیا مملکتِ خداداد میں یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے موسم، ایسے ویرانے، ایسی تنہائی، ایسے وقت میں کوئی لڑکی تن تنہا بس سٹاپ پر کھڑی ہو؟ مزدوری کی طلب گار بچیاں تو ہر جگہ پر ہیں کہ اپنے گھر، اپنے ماں

کتاب احساس کے آئینے میں ، شاعر عاطف ملک

Image
 عاطف ملک کی شاعری کی کتاب " احساس کے آئینے میں " درج ذیل کیو-آر کوڈ یا لنک سے ڈاون لوڈ کی جاسکتی ہے۔   ڈاون لوڈ کے لیے نچلی تصویر پر کلک کریں۔

زمان و مکان ( قسط اول)

Image
تحریر : عاطف ملک یہ تصویر انٹرنیٹ پر ان محترمہ نے پبلک پوسٹ کے طور پر لگائی، یہ حال میں ہوئی کسی آرٹ کی نمائش کی  تصویر ہے۔ کسی طرح اتفاقاً یہ تصویر مسافر کے سامنے آگئی۔ مسافر نے اِس مکان کو دیکھا تو زمان کے ایک اور دور میں پہنچ گیا جہاں مسافر اس مکان میں پایا جاتا تھا۔    یہ جگہ آرٹ کے لیے شروع سے مختص رہی ہے۔  یہ لاہور میں ایر فورس کا ایر ڈیفنس سکول تھا جو کہ اب ایک کلب بن گیا ہے۔ اس جگہ جہاں محترمہ و بزرگ کھڑے ہیں، یہ کھلی جگہ تھی۔  ہر دوسرے تیسرے ماہ یہاں میز لگا کر چائے اور کھانے کا بندوبست ہوتا تھا۔  اس چائے اور کھانے کا خرچ عام طور پر کسی پر ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ خرچ اُس کلاس پر ڈالا جاتا تھا جو یہاں کورس مکمل کرکے جارہی ہوتی تھی۔ سنا ہے موجودہ زمان میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ یہاں لوگ اپنے کھانے کا خرچہ خود اٹھاتے ہیں۔    یہاں سے تھوڑا بائیں چلیں توایک برآمدہ آتا ہے جس کے ایک طرف چھوٹا سے باغیچہ ہے اور دوسری طرف کمروں کی ایک قطار ہے۔ مسافر دو سے تین سال ان کمروں میں سے ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ یہ مسافر کا دفتر تھا۔ مسافر کی یہاں کئی یادیں ہیں۔    یہیں اسی دفتر میں لگے نوٹس بورڈ پر

ڈاکٹر شعیب کی پرتھ آمد پر استقبالیہ

Image
  معزز حاضرین، ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ڈاکٹر شعیب ہمارے درمیان پرتھ میں موجود ہیں، کیونکہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے   اس محفل میں شریک اور اس کے علاوہ پرتھ اور دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں کئی لوگ کسی زلف کے اسیر ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں ڈاکٹر شعیب کے اسیر رہے ہیں، دلی اسیر۔ پرتھ میں ان کے آنے کا پتہ لگا تو بہت سے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا جس سے علم ہوا کہ    اک ہم ہی نہیں تنہا الفت میں تیری رسوا اس شہر میں ہم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں  ڈاکٹر صاحب نے  کئی دہائیاں پاکستان میں تعلیم کی آبیاری کی ہے۔ افرادی قوت کی اعلی درجے کی تربیت کی ، وہ موقع جس کی بنا پر ان کے شاگرد اور ان کی ادارے میں کام کرنے والے دنیا کی نامور یونیورسٹیوں جیسے ایم آئی ٹی، سٹینفورڈ وغیرہ میں داخلہ لے پائے، غرض عملی مثال ہیں کہ "سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے میرا ڈاکٹر صاحب سے تعلق ادبی اور غیر ادبی ہے۔   ڈاکٹر شعیب سے اپنے تعلق کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔ اردو ریاضی میں کہتے ہیں تناسب راست، یعنی ڈائریکٹ پروپوشن، انیس سو چھیاسی س