Posts

Showing posts from March, 2020

وائرس کے ساتھ ساتھ خوف کو بھی شکست دینا ہوگی

تحریر: عاطف ملک پچھلے کئی سالوں سے ایک فلاحی طبی ادارے کے ساتھ رضا کارانہ طور پر منسلک ہوں، اور اس ادارے کو پچھلے کئی سالوں میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے بڑھ کر ایک مکمل ہسپتال بنتا دیکھا ہے۔ اس سفر میں پاکستانیوں کی مدد اور جذبے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دنیا کی  ہر قوم میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، پاکستانی قوم بھی کوئی استثناء نہیں ہے، جہاں بری کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، وہیں قربانی کی بھی کئی واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔  کل اس طبی ادارے کے انچارج سے بات ہوئی تو علم ہوا کہ ایک ڈاکٹر استعفی دے گئی ہیں، وجہ جو بھی بیان کی گئی مگر ظاہر بات تھی کہ وہ خوف کی شکار تھیں، اور ہسپتال میں مریضوں سے رابطے سے بچنا چاہ رہی تھیں۔ مزید علم ہوا کہ دو اور ڈاکٹر بھی ایسا ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ کسی اور ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ  کچھ مزید طبی عملہ بھی گھر بیٹھ گیا ہے، کچھ ہسپتال بھی بند ہوگئے ہیں اور کچھ نے اپنا دورانیہ بہت کم کردیا ہے۔ طبی عملے کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ اس معاملے کی وجہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنا چاہیئیں۔  خوف انسانی جبلت میں

چند اشعار

Image
The pic was taken by me at one of the superchains in Australia آسٹریلیا میں ٹوائلٹ رول کی panic buying پر ایک قطعہ : میری پہنچ سے نکل کر کہیں دور جانے والے تیرا گلی گلی میں چرچا، ذکر ہر انجمن میں سرِ ALDI پکارا، لبِ Coles بھی صدا دی میں کہاں کہاں نہ پہنچا تیری دید کی لگن میں (عاطف ملک) P.S.    ALDI and Coles are two super market chains ایک اور شعر: کوئی ہا تھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے یہ کرونا وائرس کا دور ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو (عاطف ملک)  ایک شعر کے ساتھ اپنی کچھ تُک بندی: سب کچھ جو چمکدار ہو، سونا نہیں ہوتا ہر چھینک کا مطلب تو کرونا نہیں ہوتا (رحمان فارس) جا ستم گر تجھے چھوڑ دیا ہم نے ہر دل کا مطلب تو کھلونا نہیں ہوتا (عاطف ملک)

پرانی کوٹھی، قسط 2

تحریر : عاطف ملک آپ نے میری پچھلی روداد تو پڑھی ہوگی کہ جس میں میں نے بتایا تھا کہ میں کالج میں پڑھاتی ہوں جبکہ میرے شوہر شاہجہاں ایڈورٹزمنٹ ایجنسی چلاتے ہیں، ہمارے تین بچے ہیں جو سکول جاتے ہیں۔  پچھلی تحریر میں میں نے پرانی کوٹھی خریدنے کا شوق اور بعد میں اسے خریدنے کا قصہ بیان کیا تھا۔ خواہش تو پوری ہوگئی تھی مگر اب اُس کوٹھی میں ہمارے ساتھ دو روحیں بھی اقامت پذیر تھیں۔ یہ روحیں پرانے مالک مکان مرزا اسلم خان اور اُنکی اہلیہ مہرالنساء کی تھیں جو کہ دونوں ایک حادثے میں مارے گئے تھے۔ آپ نے پچھلی کہانی میں پڑھا ہوگا کہ شروع میں انہوں نے ہمیں ڈرایا مگر بعد میں ہمارے ساتھ اُنکی اچھی نبھنے لگی تھی، خصوصآً میرے ساتھ تو ان کے اچھے تعلقات ہوگئے تھے۔ وہ دونوں خیال کرتے تھے کہ کسی قسم کا خوف نہ پھیلے سو بچوں کو تو کبھی احساس تک نہ ہوا تھا کہ ہمارے ساتھ  دو روحیں  بھی اس گھر میں رہتی ہیں۔ البتہ میرا ان دونوں بزرگوں کی روحوں کے ساتھ  تعلق رہتا تھا۔ کبھی اکیلے گھر کا دروازہ کھولا تو پردہ خودبخود کھڑکی سے ہٹ جاتا تھا کہ دھوپ اندر آنے لگ جاتی تھی۔ شام کو کبھی دروازہ کھولا تو بجلی جلانے کے لیے