Posts

Showing posts from January, 2021

محبت کی ایک نظم، شاعر: امجد اسلام امجد، پیشکش: عاطف ملک

Image
  محبت کی ایک نظم اگر کبھی میری یاد آئے  تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں  کسی ستارے کو دیکھ لینا  اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر  تمہارے قدموں میں آ گرے  تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا  اگر نہ آئے  مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے  کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو  تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے  وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے  اگر کبھی میری یاد آئے  گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا  میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا  مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا  میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا  اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو  تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا، میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا  کہیں پہ روشن چراغ دیکھو  تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں  تم اپنی ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا  میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا  کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ  رک کے تم کو صدائیں دوں گا  سمندروں کے سفر پہ نکلو  تو اس جزیرے پہ بھی اترنا امجد اسلام امجد

ْقصہِ دو مسافراں

تحریر: عاطف ملک پہلا مسافر: میں نے بیرون ممالک کئی یونیورسٹیوں میں پڑھایا ہے اور جن پاکستانی طلبا  سے مجھے واسطہ پڑا ہے، انہیں میں نے محنتی اور ذہین پایا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اتنا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پیچھے ہیں؟ دوسرا مسافر: اس کی کئی وجوہات ہیں؛ فنڈز کی کمی، فرسودہ کورسز، پرانا نظام جو طلبا کے صلاحیتوں کو نکھارنے کی بجائے دباتا ہے، غیرمعیاری اساتذہ، پرائمری اور ہائی سکول کی رواجی تعلیم وغیرہ  وغیرہ مگر شاید سب سے بڑی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے انتظامی امور پر سفارشی لوگوں کی تعیناتی جن میں تعلیمی سمجھ  بوجھ کی کمی ہے۔ ان افراد کا بنیادی کام دوسرے تعلیمی مسائل کو حل کرنا اور نظام میں ترقی لانا ہے مگر بدقسمتی سے  وہ خود سب سے بڑا مسلہ ہیں۔ پہلا مسافر: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ دوسرا مسافر:  میں تمہیں اس کی ایک زندہ وجاوید مثال سناتا ہوں۔ ہوائی یونیورسٹی قائم ہوئی تو وہاں کا پہلا وائس چانسلر ایسے شخص کو لگایا گیا جس کا یونیورسٹی سےدور کا بھی تعلق نہ رہا تھا، مگر لگانے والوں نے اسے یونیورسٹی نہیں بلکہ ایر سے واسطہ رکھنے پر لگایا تھا۔ اس کی  بڑی کوالیفکیشن یہ تھی کہ ایر مارشل کا رین