Posts

Showing posts from February, 2020

ایک پرانی تصویر

ایک پرانی تصویر تحریر : عاطف ملک ایک پرانی تصویر کسی نے بھجوائی ہے تو کیا کیا یادیں بھاگی بھاگی آن پہنچی ہیں۔  یہ زندگی شروع کرتے کچھ لڑکے اکٹھے کھڑے ہیں۔ لڑکے؟ مرد ؟ نوجوان؟ یہ کون ہیں، یہ تو عام سے لڑکے ہیں، گندمی رنگ، بال سنوارے، شیو بنائے، داڑھی مونچھ تراشے، عام سے لڑکے، کسی گلی کے موڑ پر کھڑے آوارہ گرد، روایتی، رواجی سے لڑکے۔ ان جیسوں سے ہر بازار بھرا پڑا ہے۔ غور سے دیکھیے، تصویر پر توجہ دیجیئے۔ کچھ نظر آیا؟ ان کی آنکھوں کی چمک دیکھئیے۔ یہ کون ہیں؟   یہ بکھری کہانیاں ہیں؟  یہ زندگی شروع کرتی کچھ کہانیاں ہیں، کہانیاں، جی کہانیاں، متوسط طبقے سے تعلق رکھتے، اپنے وطن سے ہزاورں میل دور، ایک اجنبی زبان بولتے بیگانے معاشرے میں روشن مستقبل کی آس میں اپنے گھر بار سے دور نکلے طالب علم ہیں۔ طالب علم ؟ نہیں، یہ طالب علم نہیں ہیں۔ کیوں جھوٹ بولتے ہو، یہ محنت کش ہیں، مزدور، مستقبل کی اُجرت کے وعدے پر پہاڑ کاٹتے تیشہ زن ہیں، یہ کان کن ہیں۔ مجھ سے مت جھوٹ بولو، یہ طالب علم نہیں ہیں۔  انہوں نے دیارِغیر میں پڑھنا ہے، اپنا خرچہ نکالنا ہے، اپنی فیسیں ادا کرنی ہیں، پیچھے دیس میں منتظر خاندان کے لیے

پرانی کوٹھی، قسط ۱

پرانی کوٹھی تحریر : عاطف ملک میں اور میرے میاں کچھ عرصے سے خریدنے کے لیے گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ گھر خریدنا بہت مشکل کام ہے خصوصاً اگر آپ کے پاس پیسے کم ہوں اور اگر آپ کے ذہن میں پہلے سے خیال ہو کہ آپ کیسا گھر خریدنا چاہتے ہیں، تو یہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے  معاملے میں مسلہ اور گھمبیر تھا کیونکہ ہم ایک پرانا گھر خریدنا چاہتے تھے۔ کم پیسوں کے ساتھ پرانا گھر ہی خریدا جاسکتا ہے، مگر ہمارا مسلہ یہ تھا کہ ہم ایک خاص قسم کا پرانا گھر خریدنا چاہتے تھے۔   خاص قسم کا پرانا گھر، چلیے، میں آپ کو اس کا پس منظر بتاتی ہوں۔ میرے میاں کا نام شاہجہاں ہے مگر وہ بادشاہ نہیں ہیں۔ میرا نام ممتاز ہے اور آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ میں کوئی ملکہ نہیں ہوں۔ میں ابھی زندہ ہوں اور ابھی زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ کئی وجوہات ہیں ایک تو میرا شاہجہاں میرے لیے کوئی تاج محل نہیں بنا سکتا، وہ تو خود میرے ساتھ مل کر پیسے کمانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ دوسرا زندگی میرے لیے کشش رکھتی ہے، یہ کشش دھیمی سی مگر طاقتور ہے۔ میری زندگی سے محبت کسی ناری کی اٹھتی ہوئی جوانی کی زور مارتی کشش نہیں ہے، بلکہ برسات کی ہلکی بوندا

The Highlander

Written  in Urdu b y Atif Malik , Translated in English by Suhail Akhtar The original Urdu writing is available at http://aatifmalikk.blogspot.com/2020/02/blog-post.html A faint smile clung to the aging highlander’s lips as he squinted at the snow-capped peaks of the distant mountains. He could make out the tiny rivulets that came down the mountainside as the summer sun battled the accumulated snow. Over time, the rivulets had cut deep ravines into the mountainside which were bordered by deep snow on both sides. As he gazed upon brilliant blue of the summer sky, the old man’s smile grew a little deeper. He knew that the sky is a brighter blue when viewed from the mountain top. It made him think of the night sky, which is even more wondrous, brimming with a multitude of bright twinkling stars, like the shimmering beads sewed on to an innocent child’s quilt. These mountains were a part of the highlander’s life. When he stood up his hulking frame reminded passerby’s of

خورشید بہ روزنے در افتاد و برفت

تحریر : عاطف ملک بوڑھے کوہستانی نے دور سامنے نظر آتے پہاڑوں پر نظر ڈالی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ دور پہاڑ جن کی چوٹیاں گرمیوں میں لکیر دار ہوجاتی ہیں؛ دھوپ جہاں جیت جائے وہاں برف پگھل جاتی ہے، پانی کی لکیر بن کر نیچے کو بہہ جاتی ہے۔ اور اس لکیر کے آس پاس برف جمی رہتی ہے۔ پہاڑ  سے نیچے اترتا راہ، گہرا راہ مگر برف سے بھرا رہتا ہے، سفید برف سے بھرا راہ جس پر نیلا آسمان اپنا رنگ ڈالتا ہے۔ پہاڑ کے اوپر کے آسمان کو دن میں دیکھو تو کچھ زیادہ ہی نیلا لگتا ہے، اور رات کو دیکھو تو ایسا ستاروں سے بھرا ہوتا ہے کہ کسی معصوم کی جھلملاتے تاروں سے سجی اوڑھنی ہو۔ بوڑھا کوہستانی مسکرا رہا تھا، یہ پہاڑ اس کی زندگی کا حصہ تھے۔ اس کی داڑھی برف کی مانند  سفید تھی، جھاگ کی مانند سفید، اور وہ خود دھوپ کی مانند اجلا تھا۔ وقت کی دھوپ نے اس کی  داڑھی کے رنگ کو پگھلا کر سفید کر دیا تھا مگر وہ اب بھی جب کھڑا ہوتا تھا تو ایک رعب ساتھ لے کر کھڑا ہوتا تھا۔ اس کے سر کے اوپر آسمان کچھ زیادہ ہی نیلا لگتا تھا۔ بوڑھے کوہستانی کے چہرے پر وقت نے لکیریں ڈال دی تھیں۔ لکیر جہاں سے کبھی آنسو بہے ہونگے مگرآس پاس