چین کا سفر، ساتویں قسط
تحریر: عاطف ملک
چھٹی قسط درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_16.html
ٹیکسی کو موبائل فون پر ایپ کے ذریعے بلایا گیا اور پاکستانی طالبہ نے پل کا پتہ منزل کے طور پر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹیکسی ڈرائیور کا فون آگیا کہ وہ پہنچ گیا ہے مگر ہم کہاں ہیں؟ طالبہ نے ایک چینی کو فون دیا کہ بات کرے ۔ پتہ لگا کہ ٹیکسی سڑک کی دوسری جانب ہے اور اب گھوم کر آئے گی۔ تھوڑی دیر میں گاڑی پہنچ گئی۔ اب ڈرائیور کچھ کہتا تھا جو ہمیں سمجھ نہ آتی تھی۔ بہر حال اس نے گاڑی چلائی اور سفر شروع ہوا۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر چینی زبان میں کچھ کہا جو ہمیں سمجھ نہ آیا۔ بہرحال وہ ہمیں دریائے ذرد کے ایک عظیم الشان پل پر لے گیا جو گمان ہے کہ نیا بنا تھا۔ یہ پل ہائی وے پر تھا اور گاڑیاں اور ٹرک اس پر رواں دواں تھے۔ گاڑیوں کے علاوہ وہاں کچھ نہ تھا، کوئی لوگ نہ تھے، نہ کوئی رونق، نہ کوئی میلہ تھا ۔ ڈرائیور نے پل پر ایک جانب گاڑی روکی اور کہا کہ یہی آپ کی منزل ہے۔ ہم حیران و پریشان گاڑی سے اترے ۔ اب یہ ایک ہائی وے تھی جس کے پل پرہم کھڑے تھے اور ساتھ سے ٹرک اور گاڑیاں تیز رفتاری سے گذر رہی تھیں۔ پل کے ساتھ ایک چلنے کی راہ بنی تھی مگر مسئلہ یہ تھا پل کے ساتھ اونچا جنگلہ لگاتھا جو ہم سے پھلانگا نہیں جاسکتا تھا۔ عجب مرحلہ درپیش تھا۔
![]() |
دریائے زرد پر نیا پل؛ ہم سڑک پر تھے جبکہ کہانی میں ذکر کردہ چینی اس راہ پر تھا |
اب ہم ٹریفک کے بہاؤ کے ساتھ یا اس کے مخالف چل سکتے تھے، گوگل میپ نہ تھا کہ ہم فیصلہ کرسکتے کہ کس جانب کو پیدل جانے سے جلد اس ہائی وے سے نکل پائیں گے، سو کھڑے تھے رہگذر پر اور خبر نہ تھی کہ جائیں کدھر کو ہم ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹریفک کے بہاؤ کے مخالف چلیں گے کہ سامنے سے آتی گاڑیوں کو دیکھ کر اپنا کچھ بچاؤ تو کر پائیں گے۔ سڑک کنارے بنے سیمنٹ کی تقسیم کرتے بلاکوں سے چمٹے الٹ راہ کو چل رہے تھے۔زندگی میں بعض اوقات عمومی بہاؤ سے الٹ چلنا ہی درست ہوتا ہے گو یہ ہمت مانگتا ہے۔ سامنے سے آتی گاڑیوں کے ڈرائیور بھی ہمیں حیرت سے دیکھتے تھے کہ یہ کہاں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دور پیدل چلے تھے کہ سامنے اب دوراہا تھا۔ بائیں جانب سے پل پر بل کھاتی سڑک نیچے سے اوپر کو آرہی تھی اور دوسرا راہ سامنے سے آتا تھا۔ دونوں جانب سے گاڑیاں آرہی تھیں۔ ہم نے سوچا کہ بل کھاتا راہ شاید جلدی پل سے زمین پر لے جائے گا سو اس جانب چلتے ہیں۔ بلندی کے خواہش شاید قدرتی ہو مگر ہم اُس وقت زمین پر پیر دھرنے کے خواہاں تھے۔
اب نیا مسلہ درپیش تھا کہ بل کھاتی سڑک پر چلتے تھےتو خم کی بنا پر آتی گاڑی کو ہم نظر نہ آتے تھے اور نہ ہی ہمیں گاڑی نظر آتی تھی۔ ڈر تھا کہ یہ بے خبریاں کل کے اخبارکی خبر نہ بن جائے۔ سو بل کھاتی سڑک پر دوڑ لگائی کہ خم سے جلد نکل جائیں اور سامنے دیکھ پائیں۔ بہت سے حادثات سامنے سے سامنا نہ کرپانے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اب گھوم کر کچھ نیچے پہنچے تھے تو دیکھا کہ وہی پل پر ملنے والا چینی اب اتر کر ساتھ کی راہ پر تھا۔ راہ ساتھ ہی تھی مگر سڑک کے ساتھ نصب اونچا جنگلہ ہماری راہ بدلنے میں رکاوٹ تھا۔ وہ چینی دوبارہ ہم سے مخاطب ہوا۔ اُس نے اپنے موبائل پر نقشہ لگا یا اور کہا کہ بہتر ہے کہ آپ بل کھاتی سڑک پر واپس جائیں اورواپس دوراہے پر پہنچ کر دوسری طرف کی راہ لیں۔ اُس طرف امکان ہے کہ آپ جلد ہائی وے سے نکل پائیں گے۔ یہ راہ جس پر آپ چل پڑے ہیں یہ تو کئی میل ایسے ہی چلے گی۔
اندھیرا تھا اور ہم واپس بل کھاتی سڑک پر پل کی جانب بھاگے، بھاگے کیوں کہ اب تیز رفتارگاڑیاں ہمارے پیچھے سے آرہی تھیں اور کوشش تھی کہ جلد از جلد دوراہے پر پہنچ جائیں کہ اس سے آگے کم از کم ٹریفک کی دوسری جانب چلیں گے کہ سامنے سے آتی گاڑیاں نظر آئیں گی۔ پھولی سانسوں کے ساتھ دوراہے پر پہنچے اور راہ بدلی۔ اب دوسری جانب کو جارہے تھے۔ سڑک سیدھی ہونے کی بنا پر کم از کم ہم گاڑیوں کو آتا دیکھ پارہے تھے اور شاید گاڑیوں کی بھی ہمارا اندازہ ہورہا تھا۔ پل سے سڑک اتر رہی تھی اور ہم بھی اس کے ساتھ اتر گئے مگر ہائی وے کے ساتھ لگےاونچے جنگلوں کا ابھی بھی ساتھ تھا۔ اُن جنگلوں کا مقصد شاید باہر سے اندر کسی کو نہ آنے دینا تھا، مگر ہم ایسے شکار تھے کہ اندر سے باہر نہ جاسکتے تھے۔
خدا خدا کرکے ان جنگلوں میں ایک پھاٹک نظر آیا جو شاید کسی سرکاری محکمہ کا علاقہ تھا، گمان ہے کہ محکمہ انہار ( کہ دریا ساتھ تھا) یا محکمہ جنگلات کا ہوگا۔ ہم نے پھاٹک کی کنڈی کو زور لگا کر کھولا اور کچھ جھجک اور ڈر کے ساتھ اس میں داخل ہوگئے۔ ایک راہ دریا کو جاتا تھا اور اس راستے میں کچھ پرانی گاڑیاں اور زنگ آلود موٹر سائیکل اپنی زندگی کے دن گذار رہے تھے۔ ہم ان کے ساتھ سے گذر کر دریا پر پہنچ گئے۔ آگے چلے تو پل ہمارے اوپر تھا، وہی پل جو دو کناروں کو جوڑ رہا تھا اور جس پر ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے اوردونوں ہاتھوں کو جوڑا تھا۔
موسم اچھا تھا، ہوا میں خنکی تھی، دریائے زرد کا پانی اپنی چمک کے ساتھ مسافر کے پاس سے گذر رہا تھا اور مسافر کی کہانیوں میں ایک کہانی کا اضافہ ہوچکا تھا۔ مسافر نے ساتھ گذرتے دریا سے پانی اپنے ہاتھ میں بھر کر واپس اچھال دیا۔ ایسے لگا کہ دریا نے بڑھ کرپانی کو تھام لیا۔ ایک لمحہ کے لیے پانی کی سطح پر ایک نقش بنا ، وہ نقش جو اُس لمحے میں منفرد تھا سب سے الگ، وہ نقش جو شاہرائے ریشم سے گذرتے کئی مسافروں نے اس مسافر سے قبل بنائے ہوں گے۔وہ پانی پل کے نیچے سے گذرگیا۔ کیا خبر کبھی یہ پانی کسی اور زمان میں مسافر سے دوبارہ ملاقات کے لیے کسی بادل سے کسی اور مقام پر ٹپکے گا۔
راہ نشانوں سے اٹے ہوتے ہیں ، دیکھنے کی نگاہ اور محسوس کرنے کے لیے احساس چاہیئے ، کسی درخت پر چاقو سے نام کھودنے یا عمارت پر نام لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
رات بھیگ چکی تھی۔ کوئی راہی نہ تھا مگر دریا کے ساتھ چلتا راہ جنگل میں جا گھسا تھا۔ درخت گھنے تھے اور روشنی کم تھی۔ پاکستا نی طالبہ نے مسافر کو بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ ملک چین بہت محفوظ ہے، اپنے ملک میں دن میں بھی پھرتے ڈر ساتھ چلتا تھا، مگر چین میں رات گئے کہیں بھی پھرتے اُسے ڈر نہیں لگا۔
دورکہیں سے ہنسی کی آواز آرہی تھی، ایک جوڑا کہیں دور دریا کنارے موسم سے لطف اندوز ہو رہاتھا۔ ہم تھک چکے تھے مگر راہ چل رہا تھا اور مسافر بھی چل رہے تھے۔ بائیں جانب ایک سڑک گذرتی نظر آرہی تھی مگر اس تک پہنچنے کا راستہ کہیں نہ تھا کہ درمیان میں خودرو جھاڑیوں اور درختوں کی بہتات تھی۔ بالآخر ایک پگڈنڈی بائیں جانب جاتی نظر آئی، موقع جان کر اُس پر ہولیے۔ درختوں اور جھاڑیوں سے ہوتے یہ راہ ہمیں سڑک پر لے آئی۔ مگر وہاں بھی وہی پرانا مسلہ درپیش تھا کہ سڑک بل کھاتی آرہی تھی اور گاڑیاں تیز آرہی تھیں۔ سو سڑک کے ساتھ چلتے رہے ، انتظار تھا کہ سیدھی راہ مل جائے۔ ایک جگہ مناسب مقام پہنچ کر موبائل ایپ کے ذریعے ٹیکسی منگوائی اور تھکے ہارے ہوٹل پہنچے۔ شکر کیا کہ خیریت سے واپس پہنچے ہیں اور بستر پر لیٹنے کا کیا، نیند ہمارے انتظار میں پہلے ہی کمرے میں تھی۔
کہانی جاری ہے، کانفرنس کی روداد اگلی قسط میں
Comments
Post a Comment