چین کا سفر، چوتھی قسط
تحریر: عاطف ملک
تیسری قسط درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_3.html
مسافر کو کمرہ نئی عمارت میں دیے جانے کی آمادگی ہوئی مگر اب نیا مسلہ آگیا کہ ویزہ کارڈ اور دوسرے کارڈ نہ چل رہے تھے۔ پتہ لگا کہ چین میں یہ کبھی چلتے ہیں، کبھی نہیں چلتے، اپنی ایک پرانی گاڑی کی یاد تازہ ہوگئی۔ اس اثناء میں ہوٹل میں مسافر کا شاگرد بھی آگیا۔ وہ چینی طالب علم جس نے اس تحقیقی مقالے پر کام کیا تھا، وہ اپنی پرانی یونیورسٹی جوکہ شیان شہر میں واقع تھی وہاں گیا تھا اور اب وہاں سے لان زو کانفرنس کے لیے پہنچا تھا۔ اب چین میں کارڈز سے بڑھ کر وی چیٹ اور علی پے سے ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ مسافر اُس کا قرض بار ہوا کہ اس نے کمرے کی ادائیگی کی ۔ اس معرکہِ تبدیلی کمرہ و ادائیگی میں شام شہر پر اور بھوک مسافر پر اتری تھی۔
ایک پاکستانی لڑکی بھی جو شیان کی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی، اپنا مقالہ پیش کرنے لان زو آئی تھی، اس سے بھی ہوٹل کی ریسیپشن پر ملاقات ہو گئی۔ سو ہم سب کھانے کے لیے نکل پڑے۔ بتانے والوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ساتھ ہی کئی حلال کھانے کی دکانیں ہیں کہ لان زو میں ہوئی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ وہ کھانے کی دکانیں جن میں کام کرنے والے سفید ٹوپیاں پہنے ہیں، وہ مسلمانوں کی ہیں، نیز ان پر گو چینی الفاظ میں حلال لکھا ہوگا ( تو پڑھ نہ پائے گا) مگر وہ الفاظ سبز رنگ میں ہوں گے، سو جان جائے گا۔ ایک اور فائدہ تھا کہ مسافر کا شاگرد چینی تھا سو زبان کا مسلہ بھی حل تھا۔
مسافر یونیورسٹی سے نکلا تھا کہ پہلے موڑ پر ہی کئی دکانیں صدائیں دیتی تھیں کہ رک، کھانے کے لیے یہیں رک، سو ہم نے بھی پہلی ہی مسلم دکان کا چناؤ کیا۔ مینو کی تصویر کھینچی اور ترجمے کی ایپلیکیشن سے رہنمائی چاہی۔ اب ایپلیکیشن نے دکھایا کہ یہاں تو پورک یعنی سور بھی ملتا ہے۔ ہم تو اپنی جگہوں سے اٹھ پڑے۔ چینی طالب علم نے دکاندار سے بات کی تو پتہ لگا کہ یہ تو سب ترجمے کی غلطی ہے اور اس دکان میں کوئی سور نہیں پکتا بلکہ بقول دکاندار یہ تو ترجمے کا سور پن ہے۔ مسافر کو اپنے دیس کا خیال آگیا جہاں کئی مترجم غلط ترجمہ بیان کرکے سلامتی کو فساد سے ایسے تبدیل کیے ہیں کہ کوئی طالب علم ان سے سوال بھی نہیں کرسکتا۔
کچھ پوچھ پچھا کر کھانے کا آرڈر دیا۔ آرڈر دیا ہی تھا کہ قہوے کے پیالے اور ایک پلیٹ سورج مکھی کے بیجوں سے بھری ہمیں پیش کردی گئی۔ اُدھر کھانے میں پانی کی بجائے گرم قہوہ دیا جاتا ہے۔ اُدھر قہوہ ختم ہوا، اِدھر کوئی دوبارہ بھر دے گا۔ سورج مکھی کے بیج آغازیہ یعنی سٹارٹر ہیں۔ مسافر نے بعد میں بازاروں میں سورج مکھی کے بہت بڑے بیجوں سے بھرے پھول بکتے دیکھے۔ ہم نے بیف اور بکرے کے گوشت کی سیخیں منگوائی تھیں۔ یہ سیخیں سائیکل کے پہیے کی تاروں کی مانند تھیں اور ان پر گوشت بھی مقابلتاً پتلا لگتا ہے، مگر ذائقہ خوب اچھا تھا۔ نیز ایک ڈش اور منگوائی تھی
ڈش کا نام ہے ترجمہ کریں تو کہتے ہیں مرغ کی بڑی قاب۔ Dapanji (大盘鸡)
ایسے
ذائقہ دار قاب مسافر نے پہلے نہ کھائی تھی۔ شوربہ ذائقہ دار، مرغی کا کھال اور
پنجوں سمیت گوشت ، آلو، شملہ مرچ اور
شوربے کے اندر ڈوبے نان کے ٹکڑے،
ذائقہ ایسا کہ
مسافر اب صدائیں دیتا ہے، ایک دفعہ کھایا ہے دوسری دفعہ کھانے کا اشتیاق ہے۔
کھانا بچ گیا جو ہم نے پیک کروالیا۔ تھکن انتہا کی تھی سو کمرے میں پہنچتے ہی سوگیا۔
![]() |
سورج مکھی کے بیج اور بیف اور بکرے کی سیخیں |
![]() | |
ڈی پان جی یعنی مرغ کی بڑی قاب جس میں شوربہ اور اس میں ڈوبے نان، مرغی کا کھال اور پنجوں سمیت گوشت، آلو اورشملہ مرچ |
![]() |
دکان پر سورج مکھی کے پھول بیجوں کے لیے برآئے فروخت |
Comments
Post a Comment