Posts

Showing posts from March, 2018

آوا گون

  نوٹ: یہ افسانہ معروف ادبی جریدے فنون میں منتخب ہوا۔  آوا گون ہندو دھرم کا ایک بنیادی عقیدہ  ہے جو اِس کو نہ مانے وہ ہندو مذہب کا فرد نہیں۔ اِس کے مطابق موت کے بعد جسم اگرچہ فنا ہوجاتا  ہے مگر روح  قا ئم  رہتی  ہے، اعمال کے مطابق دوسرے اجسام  کا روپ دھارلیتی ہے اوریوں ایک  سفرِمسلسل جاری رہتا  ہے۔  ہندومت کا یہ نظریہ میں نے سنا تو تھا مگر اِس  پر یقین نہ تھا، لیکن ایک واقعہ  نے میرے  خیالات پر اثر ڈالا۔  میں آواگون کے نظریے کو مکمل مانتا تو ابھی بھی نہیں مگراِس پراب کسی حد تک یقین رکھتا  ہوں۔ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرکے جب میں وطن واپس آیا  تو اپنی مادرِعلمی میں ہی بحثیت استاد متعین  ہوگیا۔  یہ ایک عجب تجربہ  تھا،  وہی کمرے جہاں آپ کبھی بحثیتِ طالبعلم  بیٹھے تھے، وہ ڈیسک جس پرآپ سر رکھ کرسوئے تھے، وہ  راہداریاں جہاں آپ اپنے اسا تذہ کو سلام کرتے گذرے تھے، وہ فضا جہاں آپ اپنے ساتھی طالبعلموں کے ہمراہ دھماکا چوکڑی مچا تے تھے، اب آپ کواستاد کی صورت دیکھ  رہی تھی۔ پہلے دن کلاس میں لیکچر کے لیے کھڑا ہوا توماضی آنکھوں  کے سامنے آ گیا ۔ وہ ڈیسک جس پر پندرہ برس قبل میں نے بچپنے میں

کیا ناپاکی سے پا کی حاصل کی جاسکتی ہے؟

                                             تحریر : عاطف ملک     ایک  لمبی  شاہراہ تھی جس پر وہ چل رہا تھا ۔ دائیں جانب  کھیل کا میدان جس میں بچے کرکٹ اور فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ایک کونے میں والی بال کا نیٹ لگا تھا اوردو ٹیمیں مدِمقابل تھیں ۔ وہ وہیں رک گیا ۔ ننگے پیر،  شلواروں کو  اوپراڑسے، بنیانیں پہنے والی بال کھیلتے مرد، جنکے پیٹ آگے کو ڈھلکے تھے۔ انکی قمیصیں والی بال نیٹ کے پولوں  پر لٹکی تھیں یا  پاس پڑے لکڑی کے بنچ  پر پڑی تھیں ۔ اُن کی والی بال کے گیند سے دشمنی دیدنی تھی، وہ اُس سخت اور مقابلتاً چھوٹے گیند کو پوری طاقت سے ہاتھوں سے ضرب لگاتے تھے کہ مخالف  اِسکا  جواب نہ دے پائے۔  جب ہاتھ گیند سے ٹکراتا  تو ایک بلند آواز  پیدا  ہوتی اور کھلاڑی کا جوش دیدنی ہوتا، وہ منہہ سے اپنے جوش کا اظہار کرتا، ناقابلِ فہم آوازیں نکالتا ۔ اُسے اس لمحے ناچتےافریقی قبیلوں کا خیال آیا،  ننگ دھڑنگ،  ڈھول پر ہاتھ مارتے، کالے جسموں پر پسینے کی چمک اورمنہہ سے جوش کا اظہار کرتے۔  جب کسی کھلاڑی کی لگائی گئی گیند کی ضرب کا مخالف ٹیم جواب نہ دے پاتی تو وہ ایسے اکڑ  کر چلتا جیسے مرغیوں کے جھرمٹ میں ا

چھوٹا آدمی

  تحریر: عاطف ملک ایرمارشل ایک بدتمیز آدمی تھا اور میں اُس کا سٹاف افسر تھا۔ دفاتر میں ایسے لوگ آپ کو ملتے ہیں جو اپنے آپ کو عقلِ کلُ سمجھتے ہیں۔ آپ اِن سے معقول بات کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں کہ نہ جانے مزاج پر کیا گراں گذرے اور بے نقط سننے کو مل جائے- معقولیت و نامعقولیت کے فرق سے عاری، عہدے کا نشہ اُن کے سر پر چڑھا ہوتا ہے۔ ماتحت کیا کرے؟ اگر ان سے بچ کر دن گذار سکے تو بہت اچھا، ورنہ دن سولی پر ہی گذرتا ہے اور لب پر ہر وقت عافیت کی دعائیں جاری رہتی ہیں۔ مگر اس صورتحال میں آپ کو ماتحتوں کا ایک اور طبقہ بھی ملے گا کہ جو جان جاتے ہیں کہ دعا کی بجائے چاپلوسی زیادہ پُراثر ہے، اور نتیجتا" صاحب کا مزاج اور بھی سات آسمانوں کو جاپہنچتا ہے۔  فوجی ادارے میں عموماً ڈسپلن کے نام پر اختلاف رائے کو کچل دیا جاتا ہے۔ عہدے میں جو جتنا بڑا ہوا، اس کی بات اُتنی ہی درست ہے۔ بڑا آسان کلیہ ہے، غلط یا صحیح کے تعین میں وقت ضائع کرنے سے بھی بچ گئے اور برہمیِ باس سے بھی بچے رہے- میرا باس اسی ادارے کی پیداوار تھا، مگر اس کا ارتقائی عمل اکثریت سے فرق تھا- ایک خوبرو فرد کے طور پر اپنی نوکری کے آغاز میں ہی

ڈاکٹر تنویر الحق کی یاد میں

Image
                                                              تحریر:  عاطف  ملک پنڈی سے لاہور آتی ریل کار نے دریائے راوی کا پل عبور کیا  اور میں نے موبائل  نکالا اور  پیغام ٹائیپ  کرنا شروع کیا، "میں لاہور پہنچ گیا  ہوں، کل ملتے ہیں اور دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں"۔ دو گھنٹے بعد موبائل پر جوابی پیغام آتا  ہے،"میں تنویر الحق کی بہن ہوں، تنویر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، دعا کریں"۔ وقت مقرر تھا، سو ڈاکٹر تنویرالحق بہت سوں کو سوگوار چھوڑ کر اگلے جہاں کے سفر پر چل نکلے۔ تنویرالحق میرے بڑے بھائیوں کی طرح تھے، میں نے کئی معاملات میں ان سے مشورہ لیا۔ میں ایک بے چین، بے صبرا اور تنویر الحق ایک معاملہ فہم آدمی، کئی جگہ پر انہوں نے مجھے درست مشورہ دیا جسے میں نے مانا، کئی جگہ پر انہوں نے مجھے درست مشورہ دیا جسے میں نے اسی یقین کے ساتھ نہ مانا جس یقین کے ساتھ انہوں نے مشورہ دیا تھا۔ میں انہیں اپنے بڑے بھائی کی جگہ جانتا تھا، مجھےعلم تھا کہ یہ وہ شخص ہے جس سے مجھے میرے ماننے اور رد کرنے سے بالاتر ہوکر بے غرض صائب رائے ملے گی۔ آج کے دورمیں یہ اطمینان ہونا بڑی بات ہے۔ اگرآپ

ماما ایوب : جا تیرا اللہ نبی وارث

ماما   ایوب : جا تیرا اللہ نبی وارث تحریر : عاطف ملک 9 مارچ 2018 ماما ایوب میری والدہ کا چچا زاد بھائی تھا ۔ میری اُس سے پہلی ملاقات شاید   1981 کے آس پاس ہوئی ، میں اس وقت ساتویں میں پڑھتا تھا ۔ جڑانوالہ کے قریب ہمارا گاوں ہے۔ جڑانوالہ سے ستیانہ روڈ پر جائیں تو ایک سٹاپ "ڈورشن " کہلاتا ہے۔ ایک طرف   گوگیرہ برانچ کی نہر ہے۔ اور کیا نہر ہے، چوڑی اور گہری۔ پتھر ایک طرف سے پھینکیں تو پار نہ کروا پائیں، اور پانی کا بہاو   اتنا   تیز   کہ میں نے آج تک کسی کو اس میں نہاتے نہیں دیکھا،   تیرنا یا عبور کرنا تو دور کی بات ہے۔   ڈورشن کے سٹاپ پراس نہر کے بالکل نیچے سے ایک سیم نالہ گذرتا ہے، سمجھیے کہ ایک   جمع کا نشان بنتا ہے ۔  یہ علاقہ نہری اور زرعی ہے، کماد یعنی گنا   یہاں کی بنیادی فصل ہے۔ پانی کی سطح اوپر آنے سے زمین کی نمکیات سطح   زمین پر آگئیں اور اس وجہ سے زمین بنجر ہوتی چلی گئی۔ زمین کو دیکھیں تو اس کی سطح پر سفید نمک کی تہہ نظر آ تی ہے،   اسے سیم   اور تھور کی بیماری کہتے ہیں ۔ اس کے توڑ کے طور پر سیم نالہ بنایا گیا ۔ اس نالے میں زمینی پانی ڈال دیا جاتا ہے کہ باق

دفتر باو

دفتر باو تحریر : عاطف ملک  ستمبر2019 ،16 کہیں پڑھا تھا کہ مضمون کو لکھ کر گھڑے میں ڈال دینا چاہیئے اور عرصے بعد نکالنا چاہیئے۔ اس کا اثر بڑھ چکا ہوگا، پھر اسے پڑھیے اور دوبارہ نوک پلک درست کریں، سو یہ تجربہ اس دفعہ کیا ہے کہ ایک مضمون پرانا نکالا ہے , کچھ اضافہ کیا ہے، کچھ چھانٹا اور جھاڑا ہے۔ خیال ہے کہ شاید چمک گیا ہو۔  ******************************************************************* دفتر باو تحریر : عاطف ملک ہماری ابتدائی نوکری ہوئی  تو ٹریننگ کے لیے بھیجے گئے، بعد میں نوکری  کی تو  محکمے میں جس سےبھی ملے پتا لگا کہ  اپنے اپنے وقت میں  اِس بھٹی سے گذرے تھے۔ تربیتی ادارہ ایسا تھا کہ مثلِ پلِ صراط کہ جس سے گذر کر ہی منزل پانا تھی ۔ یہ بھٹی جلاتی تھی کبھی ہلکی آنچ پر، کبھی  بھرپور حرارت  پر، کبھی  چہرہ  دمک اٹھتا تو کبھی سیاہی پھیل جاتی تھی ، کبھی سوختہ چنوں کی مانند بھن بھن  کر اٹھتے ۔  ریت بھری کڑاہی میں سب چنے اکٹھے تھے، ایک ہاتھ تھا جو وقتاً فوقتاً  اٹھاتا اور ٹپک دیتا ۔ کچھ  چنے اس حرارت کو برداشت نہ کر پائے،  ٹوٹے اور بکھر گئے مگر اپنا رنگ دے گئے۔ آ نسو کی مانند یوں