Posts

Showing posts from June, 2018

محبت کے مارے طالبعلم، انٹیگریشن پڑھاتا پیر اور اشفاق احمد

Image
تحریر : عاطف ملک انجیئنرنگ کی پڑھائی کا آخری سال تھا کہ ہمارا ایک ہم جماعت ایک لڑکی کےعشق میں مبتلا ہو گیا۔ وہ توعشق میں مبتلا ہوا ہی ہم بھی ایک ابتلا میں مبتلا ہو گئے۔ یہ طالبعلمی کا دور ویسے بھی عجب ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ کا۔ اپنے سامان کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائے پھرتے ہیں، ویسے ہی بلا وجہ۔ تو کون میں خوامخواہ سے لیکر پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بلکہ عبداللہ دیوانے تک۔ اور وہ تو ویسے بھی میرا دوست تھا، ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ محلے دار بھی۔ لاہور میں ہم ایک گنجان آباد متوسط طبقے کی آبادی میں رہتے تھے۔ تنگ گلیاں آپس میں گڈمڈ ہوتی نکل جاتی تھیں اوردودو تین تین منزلہ گھر بھی آپس میں بغلگیر تھے، جیسے جیسے گھروں کی اوپری منزلیں تعمیر ہوتی تھیں اُنکے چھجے باہرکو نکلتے آتے تھے، اس طرح تین سے پانچ مرلے کی زمین ہوا میں بڑھ جاتی ہے۔ اور جیسے مکان ایک دوسرے میں در آئے تھے، اُسی طرح ہمسائیگی بھی۔ پڑوسی کے ہاں کیا پک رہا ہے، خوشبو بتاتی۔ ٹی وی پرکیا پروگرام چل رہا ہے، آواز بتاتی۔ مہمان کون آیا ہے، پڑوسن خود آپ کے گھر  کی خواتین کو بتاتی۔  اب یہ عاشق ہمارا دوست

مولنا رومی کے ایک قطعے کا ترجمہ

دھپ دا ویلہ لنگ گیا پے گئی ہن اے شام ملن دا ویلہ چڑھیا  چن  آیا  اپنے  بام (عاطف ملک)  مولنا رومی کے شعر سے ۔ بی‌گاه شد، بی‌گاه شد، خورشید اندر چاه شد خیزید، ای خوش‌طالِعان، وقتِ طلوعِ ماه شد (مولانا جلال‌الدین رومی) شام ہو گئی، شام ہو گئی، سورج کنویں میں چلا گیا۔۔۔ اٹھ جائیے، اے خوش بختو، چاند کے نکلنے کا وقت ہوگیا۔ Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

سکوٹر کی ڈگی اور آواری ہوٹل

تحریر : عاطف ملک میرا نام عبدالمجید ملک ہے۔ میں نے محکمہ تعلیم میں نوکری کی، کئی سال پنجاب کے کئی سکولوں میں پڑھایا اوربعد میں انسپکشن سیکشن میں  چلا گیا۔ آپ نےاگر سرکاری سکول میں  پڑھا ہے تو ضرورآ پ کے ذہن میں محکمہ تعلیم کےانسپکٹرکا دورہ  یاد ہوگا۔ اگر نہ بھی یاد ہو تو یہ وہ دن ہوتا ہے، جب استاد خلاف معمول تیارہو کر آتے ہیں، نیا استری شدہ شلوار قمیص، بال ترشے ہوئے، اگر استاد داڑھی رکھتا ہو تو اس دن داڑھی تازہ بنی ہوتی ہے۔ سکول کی صفائی ستھرائی ایک ہفتے سے جاری ہوتی ہے، جماعت میں نئے پوسٹر لگائے جاتے ہیں۔ حاضری کے رجسٹرکی قسمت بھی بدل جاتی ہے، ایک بھورے رنگ کے کاغذ میں وہ ملبوس ہوجاتا ہے۔ ایک جماعت میں درس و تدریس کے دوران انسپکٹرکولایا جانا ہوتا ہے، سو اُس سبق کی پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔ پہلے سے منصوبہ سازی ہوتی ہے، اچھے طالبعلموں کو جماعت میں مختلف جگہوں پر بٹھایا جاتا ہے کہ عام گمان ہے کہ لائق طلبہ عموماً  آگے بیٹھتے ہیں۔ سبق سے متعلقہ سوالات استاد پہلے سے تیار کراتا ہے، اور بتاتا ہے کہ میں سوال پوچھوں گا تو سب نے ہاتھ کھڑا کرنا ہے، گو یہ بھی پہلے سے طے ہوتا کہ جواب کون دے

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ

Image
غزہ 25 میل لمبا اور 4 سے 8 میل چوڑا دنیا کا سب سے کھلا قید خانہ ہے جہاں 18 سے ۱۹ لاکھ فلسطینی قید ہیں، 50 سال سے قید، 10 سال سے ناکہ بند؛ خوراک، ادویات سب ناکہ بندی کا شکار۔ اورابھی سزا باقی ہے، سزا و امتحاں ابھی باقی ہے، وقت کے شمار سے ماورا سزا ابھی باقی ہے، صعوبت خانے کے امتحاں ابھی باقی ہیں۔ اس کھلے قید خانے میں پرندے بھی اترتے ہیں، پھول بھی کھلتے ہیں۔ پھول زرد رنگ ہیں، قبروں پر ڈالنے کے لیے موزوں۔  پرندے وہاں کم زندگی پاتے ہیں،  گولیوں سے بچ جائیں تو بارود  سے آلودہ ہوا کے شکار ہوکر مرجاتے ہیں، بموں کی آواز سے انکے ننھے دل بند ہوجاتے  ہیں۔ مگرحیرانی ہے کہ پھر بھی چہچہاتے ہیں۔ پرندے کب کسی کی سمجھتے ہیں، آزاد آتے ہیں اور جسم چھوڑ کر آزاد  اڑ جاتے ہیں۔ ان زرد پھولوں میں ایک پرندہ تھا، سفید پنکھ اوڑے ۔ غزہ کی خون آلود زمیں پر گرا، سفید پنکھ سرخ رنگ ہوئے، آزاد اڑ گیا۔ پرندوں کی پروازکو بھی بھلا کوئی روک سکا ہے ۔   رزان اشرف نجار، ایک نرس، ایک لڑکی، 21 سال عمر۔ وہ عمرجس میں مسکراہٹ گہری ہوتی ہے، آنکھیں چمک پاتی ہیں، خواب کھلتے ہیں۔ اس چھوٹی سی عمرمیں وہ عو