Posts

Showing posts from August, 2018

ایک فوجی اکیڈمی میں پڑھانے کا تجربہ

Image
تحریر : عاطف ملک قسمت کا لکھا تھا سو ہمیں نسٹ یونیورسٹی کے کالج آف ایروناٹیکل انجینرنگ میں پڑھانے کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ یہ کالج پی اے ایف اکیڈمی میں ہے، سو ہمارے تجربے میں اضافہ ہوا۔ اکیڈمی میں استادی دراصل استادوں کا کام ہے، سو اس بنا پر ہم اپنے آپ کو شاگردوں میں شمار کرتے ہیں اور اپنے کئی شاگردوں کو استادوں میں گنتے ہیں، بلکہ ہمارے ہوتے ہوئے ہی بدرجہ استانیوں کی بھی آمد اکیڈمی میں شروع ہو گئی تھی۔ اکیڈمی عجب جگہ ہے جہاں گھاٹ گھاٹ کے نوزائیدہ  آئی ایس ایس بی کی چھلنی سے گذرکراکٹھے ہوتے ہیں، اور پھر ارتقائی عمل سے گذرتےہیں۔ اکیڈمی میں پڑھانے کے دوران ہم نے کیڈٹ کو بکری سے شیر بنتے اوربعد میں اُسی شیرکو نوکری میں بکری کی شکل اختیار کرتے دیکھا۔ اب پتہ نہیں ایسی تبدیلیاں ڈارون نے بھی دیکھی تھیں یا اُس نے بندر کو انسان ہی بنتےدیکھا۔ ہم نے ڈارون سے بڑھ کراکیڈمی میں انسان کو بندر بھی بنتے دیکھا۔ عجب سڑک پربندروں کی طرح کیڈٹ بیٹھتے اچھلتے جاتے تھے۔ شروع میں اس ارتقائی تنزل کو دیکھ کر پریشان ہوئے مگربعد میں پتا لگا کہ یہ ٹریننگ کا حصہ ہے کہ اس سے شخصیت سازی ہوتی ہے۔  اکیڈمی میں تع

اگست 1947 اور ماموں رفیق کی کہانی

Image
تحریر : عاطف ملک   اگست 2018 کو لکھا بچپن میں یاد نہیں کہ کب ماموں رفیق سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔  وہ میری والدہ اور والد دونوں کے رشتے کے بھائی تھے۔ شاید وہ ہمارے گھر آئے تھے یا ہم اُن کے گھر گئے تھے۔ اُن کے گھر جانے کی ملاقات کےعلاوہ بھی وجہ ہوتی،  سو اماں ابا عید تہوار سے قبل اُن کی طرف جاتے تھے۔  لاہورمیں انجینرنگ یونیورسٹی سے جی ٹی روڈ پر شہر کی طرف چلیں تو سڑک ریلوے لائن کےساتھ چلتی جاتی ہے۔ گھڑی شاہو کا پل اترکربائیں مڑیں تواسی جی ٹی روڈ پرچڑھیں گے۔ شروع میں بائیں طرف ریلوے ملازموں کی کالونیاں ہیں اوردائیں طرف پرانی آبادیاں ہیں؛ سوامی نگر، تیزاب احاطہ، سلطان پورہ، آگے چمڑہ منڈی اور جی ٹی روڈ ریلوے لائن کے متوازی ہو جاتی ہے۔ ایک موریہ پل اور دو موریہ پل، جو پل نہیں بلکہ ریلوے لائن کے نیچے سے نکلتے راستے ہیں کہ جن سے نکل کر سرکلر روڈ سے ہوکر اکبری منڈی ، شاہ عالمی اور اندرون لاہور جاسکتے ہیں۔ سوامی نگر، تیزاب احاطہ کےعلاقےعمومی طورپرمتوسط، سفید پوشوں کے علاقے تھے۔ ایک بہت بڑی تعداد ریلوے کے ملازمین کی تھی؛ بکنگ کلرک، گارڈ، کانٹا بدلنے والے، ریلوے کے ورکشاپوں میں کام

دریائے رائن، فرینکفرٹ پر پلِ محبت

Image
ہر تالے پر دو نام ہیں اور چابی دریا میں پھینک دی ہے۔ عشق اندھا ہوتا ہے، یہاں آکر محسوس ہوا اندھے کے ساتھ ساتھ بیوقوف بھی ہے۔ محبت تالوں کے بغیر ہوتی ہے۔ تالا تو علامت ہے قید کی، جکڑ کی، گھٹن کی۔ اور محبت ساتھ کی زنجیر سے ماورا ہے۔  جب بغیر دیکھے اویس قرنی اپنے دانت توڑ لیتا ہے۔  جب ماں دیار غیر میں رہتے اپنے بچے کی مصیبت ہزارا میل دور محسوس کر لیتی ہے، خود بخود۔ جب ہم سفر بغیر بتائے جان لیتا ہے کہ ان کہی تکلیف ہے۔ سودائیو، محبت ساتھ کا ہی نام نہیں، جدائی کا بھی نام ہے۔ پلِ محبت، فرینکفرٹ پلِ محبت، فرینکفرٹ پلِ محبت، فرینکفرٹ At love bridge over river Rhein, Frankfurt پلِ محبت، فرینکفرٹ پلِ محبت، فرینکفرٹ Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

غرناطہ کا مدرسہ یوسفیہ

Image
تحقیق، تحریر و تصاویر: عاطف ملک غرناطہ کو چلیے، حصہ سوم درج ذیل لنک پر ہے۔ https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_30.html مدرسہ یوسفیہ میں مسجد کے کمرے کے دروازے کی اندرونی تصویر چودھویں صدی کے آغازمیں غرناطہ کےحکمران یوسف اول نےغرناطہ کی جامع مسجد کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے کی تعمیرکا حکم دیا جسے مدرسہ کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے، گوغرناطہ کی جامع مسجد کومسمارکرکے وہاں چرچ بنادیا گیا ہے۔ موجودہ تصورسے برعکس یہ مدرسہ مذہبی اور دنیاوی دونوں تعلیم دیتا تھا، یہاں مذہب، قانون، منطق، طب، ادب، فلکیات اور ریاضی پڑھائی جاتی تھی[1]۔   غرناطہ مدرسے کی موجودہ بیرونی تصویر   یہ ایک شاندارعمارت تھی جس کا سامنے کا رخ سفید سنگ مرمرسے بنا تھا۔ اس سنگ مرمرکے ٹکڑے آج بھی غرناطہ شہرکے آثارِ قدیمہ کےعجائب گھر میں رکھے ہیں۔ عجائب گھر میں رکھے ان ٹکڑوں میں سنگِ بنیاد بھی ہے، جس پرلکھا ہے کہ یہ عمارت محرم، 750 ہجری یعنی مارچ یا اپریل 1349 عیسوی میں قائم کی گئی۔  کہا جاتا  ہےکہ یہ مدرسہ مسلم سپین میں سب سے پرانا تھا اورموجودہ جگہ سے قبل غرناطہ میں شاہی املاک میں قائم تھا۔ اُس

ارسلہ کا کوئی قصور نہیں، اُس کو معاف کردیجیئے

تحریر:عاطف ملک   جولائی2017  اے ایس پی سپیشل برانچ اسلام آباد ارسلہ سلیم نے مریم نواز کو کیا ایک سلیوٹ مار دیا، ملک میں بھونچال آ گیا۔ مسرت نذیر کے لونگ گواچے کی طرح اس کی گونج ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ بھائی معصوم بچی کومعاف کردو۔ اُسے آج تک یہی توسکھایا گیا تھا کہ کارِسرکار ہے کہ سرکار کو سلام کرو۔اچھی بچی تھی اپنے سرکاری بڑوں کےکہنے پر عمل کیا۔ اسلام آباد کی ٹریفک تو ویسے ہی اُس کےسرکاری اُستادوں نے بند کردی تھی۔ مریم کی گاڑی رکی تو بھاگ کردوسرے سپیشل بھائی دروازہ کھولنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے۔ خاندانِ سرکاراں کی یہ بہن کیوں پیچھے رہتی۔ بھائی کیا ہوا، اگراُس نے ایک قلم اُٹھا کر پیش کر دیا، معصوم ہےمگراتنی بھولی نہیں کہ اُسے علم نہ ہو کہ قلمدان کس کے پا س ہے۔  اُسےآج تک یہی تو سکھایا گیا تھا اور پھرسپیشل برانچ سپیشل حقیقتیں تو بھی سکھا جاتی ہے۔ سروس کا مطلب بے شک خدمت ہو مگر پولیس سروس معاشرے کے طبقات کے مطابق سروس دیتی ہے، غریب آدمی کے اعضاء علیحدہ علیحدہ کر کے سروس کیے جاتے ہیں، جبکہ صاحبِ اقتدار کے لیے خدمتِ جسم و جاں سےبھی بڑھ کرکیا کیا نہ پیش کیا جاتا ہے ۔ ارسلہ کا ب

حاضر

تحریر: عاطف ملک عاطف ملک، اشبیلیہ، قرطبہ اور غرناطہ کے سفر پر جاتے دن لکھا،  مرید ہندی کا ایک بے نشاں مرید آج اپنے پیر کی راہ پر ۔چل رہا ہے  جمعہ 6 جولائی 2018 حاضر میں حاضر  میں کہ کچھ بھی نہیں ایک راندہ درگاہ حاضر  آنکھ نم جذبات بے کراں  دل بےصبر حاضر میں حاضر میں فقیرِجاں میں گدائے جہاں حاضر میں حاضر جسم خاک آلود جاں گرد آلود حاضر میں حاضر عطا ہو بھیک عطا ہو کچھ بے نشاں کچھ بے سوا درد لادوا اک فساں  حاضر میں حاضر فساں ، وہ پتھر جس پر رگڑ کر کند اوزار تیز کیا جاتا ہے  " ۔" Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

اکیسویں صدی کے طالبعلم کو کن صلاحیتوں پر عبور حاصل کرنا ہوگا؟

Image
تحریر: عاطف ملک پچھلی چند دہائیوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی معاشرے پرگہرا اثرڈالا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کا ایک بے پایاں بہاو ہے جو کہ انسانی نسل کو بہا لے جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے زیرِ اثرمعاشروں میں نمایاں تبدیلیاں نظرآرہی ہیں، رہن سہن، لباس، زبان، سماجی تعلقات، سیاست غرض ہر شعبےمیں ایک تیز تبدیلی آئی ہے۔ فاصلے معنی کھو چکے ہیں کہ آج کی دنیا سمٹ کرقریب آگئی ہے۔ قابل اورصلاحیت مند افراد کے لیے ان گنت مواقع ہیں، پوری دنیا انکی قدردان ہے۔  دنیا کے کسی کونے سے بھی اٹھ کرایک صاحبِ ایجاد  تیزی سے تما م دنیا کی تسخیر  کر سکتا ہے، اورموجودہ دور نے اپنے مختصرماضی میں ٹیکنالوجی کے کئی سکندر دیکھے ہیں۔ بقول علامہ اقبال جو عالمِ ایجاد  میں  ہے  صاحبِ ایجاد ہر دورمیں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ آج کے دور میں یہ طواف فوری اورعالمگیر ہے۔ کریں گے اہلِ نظرتازہ بستیاں آباد، مگر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان بستیوں کے معماروں کوکونسا ہنرآنا چاہیئے۔ کیا سیکھا جائے اورکیسے سیکھا جائےکہ آج سیکھنے کے ساتھ ساتھ بہکنےاور وقت ضائع کرنے کے بھی اتنے ہی زیادہ مواقع ہیں۔ ٹیکنالوجی، اسکی تی