Posts

Showing posts from May, 2019

مدرسہ یوسفیہ، غرناطہ کی ایک ویڈیو

Image
غرناطہ کے سفر میں اس مدرسے کی خوبصورتی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے حسن نے مبہوت کر دیا۔ اس ویڈیو میں کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ پیش کرپایا ہوں۔ اس مدرسے کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کے بعد ایک مضمون لکھا جو کہ مندرجہ ذیل لنک پر دیکھا جاسکتا ہے http://aatifmalikk.blogspot.com/2018/08/blog-post_6.html

مسجد قرطبہ

Image
یہ ویڈیو مسجد قرطبہ میں بنائی، اس میں جو ذہن میں آتا رہا وہ  ریکارڈ کیا۔

آیڈیو کالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم پشاور جاو تو میرے لیے سیاہ قمیص لے کر آنا

پشاور جاو تو تم میرے لیے سیاہ قمیص لے کر آنا

تحریر : عاطف ملک انجینرنگ کی پڑھائی مکمل کی تھی اور مزید پڑھنے کا شوق تھا۔ ہر ایک سے مشورہ کر رہا تھا کہ مزید کیا پڑھائی کی جائے۔ ان دنوں انجینئرنگ کے بعد ایم بی اے کرنے کا رجحان تھا، سو ہمیں بھی یہی خیال ہوا کہ ایم بی اے کیا جائے۔ ملک میں آئی بی اے کا بڑا نام تھا، سو ہم کراچی کو عازم سفر ہوئے۔ نوکری بھی کراچی میں کرلی اور شام کو آئی بی اے میں داخلہ لیکر پڑھائی بھی شروع کر دی۔  کراچی ہمارے لیے فرق تھا۔ عمارتیں وہ اونچی کہ دیکھیں تو ٹوپی گر جائے، اور غریب پرور شہر یوں پھیلا تھا کہ سوچ اور نگاہ دونوں تھک کر راہ میں بیٹھ جائیں۔ شہر تو شہر تھا لوگ بھی لاہور سے فرق تھے، خوراک میں ہی تیزی نہ تھی، افراد کے انداز میں بھی تیزی تھی۔ لوگ کام کے معاملے میں بڑے پروفیشنل تھے، لاہوری لا ابالی پن نہ تھا۔ کراچی کی سڑکوں پر آواز لگاتی بسوں کا شور تھا، صدر، کیماڑی، بندر روڈ کی آوازیں لگاتے کنڈ کٹر اور رنگین نقش و نگار سے مزین بسیں۔ ان بسوں پر بہت سفر کیا۔ شام کو آئی بی اے کے صدر کیمپس کے لیے انہیں بسوں پر جاتا۔  چار پیسے پاس ہوتے تو رکشہ بھی کر لیتا، بعد میں ایک موٹر سائیکل خرید لی تو کراچی کے

کیا مائیں بھی مر جاتی ہیں؟

تحریر : عاطف ملک بچہ پہلا سوال ماں سے پوچھتا ہے، اور پھر ساری عمر ماں سے ہی پوچھتا رہتا ہے۔ خصوصاً متوسط طبقے میں تو باپ احترام کا نام ہے، اور احترام میں سوال پوچھتے جھجک، ڈر، خوف سب سامنے آن کھڑے ہوتے ہے۔ مل کر زبان روکتے، الفاظ کے سامنے دیوار کھڑی کرتے۔ جبکہ ماں سے پوچھا جاسکتا ہے، بغیر الفاظ کے پوچھا جاسکتا ہے کیونکہ ماں اور اولاد کی گفتگو تو زبان پر لفظ  اترنے سے کہیں پہلے شروع ہوتی ہے۔ یہ گفتگو الفاظ کی محتاج نہیں۔ باقی دنیا  بچے کی پیدائش کے بعد ایک رشتہ جوڑتی ہے۔ ماں اس سے کئی ماہ قبل رشتہ جوڑے ہے، احساس، محبت، بوجھ، تکلیف سب ساتھ لیے۔ سخت کھیتی کی مزدوری، دن رات کا کسب، رات کی بے آرامی، لمبے دن کا کٹھن، ایک لمبی فہرست ہے۔ اور پھر ایک لمبا سفر آگے بھی  ہے۔ ایک ننھی روح کو پروان چڑھانا، تربیت دینا، اوصاف نکھارنا۔ محبت، خلوص، الفت، چاہ، قربانی، برداشت سب کا تعلق ماں سے ہے۔ لیکن الفاظ کا دامن اس رشتے کو بیان کرنے سے خالی ہے کیوں کہ یہ رشتہ الفاظ کے اترنے سے کہیں پہلے بنتا ہے۔ الفاظ بے بس ہیں اور اس سے آگے جملے، مضامین سب تہی دامن، بیکار، کسی نہ کام کے۔ الفاظ یوں ہی لنگڑاتے،

تین ای میلز کی کہانی

تحریر : عاطف ملک پہلی ای میل ،ڈیئر بسمل صاحب سب سے پہلے تو  ہم آپ کے شکر گذار ہیں کہ آپ نے ہماری ویب سائیٹ "دل جوڑ"  کو جوائن کیا۔ میں آپ کو ذاتی طور پر خوش آمدید کہتی ہوں۔ میرا نام  دل آرام  ہے اور  میں "دل جوڑ" کمپنی کی مارکیٹنگ مینجرہوں۔ یقین جانیئے آپ کے جوائن کرنے سے ہمیں حقیقی خوشی ہوئی ہے۔ ہم آپ کی عمر کے لحاظ  کے بغیر آپ کی زندگی بدل دیں گئے۔ ہم دل جوڑنے کے ماہر ہیں۔ ہمارے پاس آپ کے لیے ہر انواع واقسام کا جوڑ ہے، سانولی سلونی شرمیلی سے لیکر کاگ اڑاتی ابلتی بوتل تک۔ ہم کئی جہانوں پر نظر رکھتے ہیں۔ آپ کی خوابوں کی دنیا بھی ہماری دسترس میں ہوگی۔ خوش ہوجائیے، آپ کی حسرتیں اب حسرتیں نہیں رہیں گی۔ اپنی خواہشات ہمیں کسی ہچکچاہٹ کے بغیربتائیں۔ ہم آپ کی ضرورت کے مطابق  آپ کا رابطہ کروائیں گے۔ ہم دل جوڑنے کے ایکسپرٹ ہیں۔ ہمارا مقصد  آپ جیسے محبت کے متلاشی لوگوں کی خدمت کرنا ہے، اور ہم اس کے لیے تہہ دل سے کوشاں ہیں۔ ہمارے پاس لاتعداد محبت کے متلاشی دلوں کے رابطے ہیں، اور ہمارا الگورتھم اس دور کے ذہین ترین لوگوں نے بنایا ہے۔ ہم آپ کے لیے ایسا جوڑ ڈھو