Posts

Showing posts from November, 2021

آپر چونٹی

یہ نظم ایک تجربہ ہے۔ اس میں اردو، انگریزی اور پنجابی کو جوڑا گیا ہے۔   اک صاحبِ فرزانہ نے سب کو تھا افطار پر بلایا کھجور کھلائی، ایم پی کا خطاب سنوایا جگدیش نے پھر اس دیش کا ہم کو بتایا ہارمنی کا اپنا سبق، اپنا سبق ہم کو پڑھایا لیڈراں فیر ایم پی نال فوٹو چھکے باقی رہ گئے بُھکے بیٹھے اونوں پچھیا اے کی اے اونے دسیا اے ای اے We gathered the community There was an opportunity Look at it with immunity   ہن کوئی سانوں صدا کھلے کسے دے گھار اے منڈا جمیا کسے نے ویاہ دا سنیا کھلیا کوئی قرآن دا ختم کرائے   پولے منہ نال پُچھ لینے آں پھا جی، اے آپرچونٹی تے نہیں

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا

یہ نظم انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس کے شاعر ساحل صاحب ہیں۔ عاطف ملک نے کچھ اپنے شعر اس نظم کے ساتھ جوڑے ہیں جو کہ نیچے نیلے رنگ میں لکھے گئے ہیں۔ مگر اس شاعری کا سہرا ساحل صاحب کے سر ہی ہے۔ وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا یہ سیٹوں کی تقاطع اور یونین کچھ بتا دو نا یہ قالب اور الجبرا، یہ کیسے لاگ لیتے ہو جمع تفریق اور تقسیم ضربیں کیسے دیتے ہو مجھے بھی اپنی نسبت کا ذرا حساب دے دو نا وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھا دو نا یہاں پہ مستقل کیا ہے؟ تغیر کس کو کہتے ہیں منفی منفی سے یہ مثبت کیسے بنتے ہیں یہ سوالوں کی مساواتیں تم کیسے بناتے ہو سوالوں سے جوابوں کے خزانے چھین لاتے ہو یہ ناطق غیر ناطق سے جدا کر کے دِکھا دو نا وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا اِسے اہلِ ادب نے خشک تر مضمون بولا ہے جو اس سے دل لگا بیٹھا، اُسے مجنون بولا ہے کہا میں نے ریاضی کا بہت دشمن زمانہ ہے ریاضی اِک تخیّل ہے، یہ شاعر کا فسانہ ہے بولی میرے مجنون کوئی عشق کا نعرہ لگادو نا وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا ابھی جاناں بتانے کو جذر مجذور باقی ہیں کئی بلین ستاروں کے جہاں مفرور باقی ہیں