Posts

Showing posts from March, 2022

غزل

 شاعر: عاطف ملک یہ عمر ہم نے کیسے بِتائی ہے اک خواب ہے، خواب کی کمائی ہے چار سو پھیلے گھپ اندھیرے میں خیال کی شمع اک جلائی ہے آنسو، دھواں، ندی، زنجیر تیری زلف کی ہم نوائی ہے مجبور جا بجا ہیں بکھرے ہوئے گام گام الگ الگ خدائی ہے دہائی دیتے دیتے آواز بیٹھ گئی آنکھ روتے روتے پتھرائی ہے  زندہ رہنے کی مجبوری ہے "کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے" اپنے اندر جو جی لیا عاطف لمحہ، وہ  لمحہ ہی خدائی ہے    

بندہ روگی ----------------------------- اک پنجابی نظم

شاعر: عاطف ملک ایں نوں جاندا، اوں نوں جاوے بندہ روگی جان نو آوے اپنا وزن ودھاندا جاوے بے وزنے جئے شعر سناوے چھوٹے مسلے، لمیاں گلاں لمے مسلے، چھوٹیاں گلاں اکھاں نوں گھماندا جاوے بندہ روگی جان نو آوے گلاں کردے لمیاں چھٹے وچ مدہانی پانی رڑکے پانی توں فیر بتی کڈے بتی فیر ایکسپورٹ کرا وے بندہ روگی جان نوں آوے کوئین نوں اپنی پُھپھی دسے افریقہ وچ وی اودے رقبے شیراں نال او کوڈی کھیڈے  کمیاں نال او دوڑاں لاوے بندہ روگی جان نوں آوے ذات وی اپنی سید دسے دور دور دے مسلے کڈے امریکہ نوں اوں عقلاں دسے عینک پا کے عینک لبے ویلے بھہ کے کنڈ کھجاوے بندہ روگی جان نوں آوے اک عمرے آکے ہر اک روگی روٹی پچھے جنڈری رُل گئی بچیاں آلنوں ماری اُڈاری بچھے رہ گیا بیٹھا روگی روگی گلاں چھڈا جاوے بندہ روگی جان نوں آوے Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com  

بیٹی

تحریر: عاطف ملک ابو، آپ تو نہ روئیں۔  وہ دن عام طرح کا ایک دن تھا، ایسا دن جو گذر جائے تو یاد نہیں رہتا۔ تسبیح کے دانوں کی طرز کا ایک  ہم رنگ دن، ایک دفعہ گذر گیا تو آپ اس کی شناخت نہیں کر پاتے، مگر مجھے علم نہ تھا کہ وہ دن ایک عام دن نہ رہے گا۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا عمومی کاموں میں مصروف تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔  ہیلو، عاطف صاحب سے بات ہو سکتی ہے۔ جی، میں عاطف بول رہا ہوں۔ عاطف صاحب، میں کانونٹ سکول سے عباس بول رہا ہوں۔ آپ کی بیٹی ہمارے پاس چوتھی جماعت میں پڑھتی ہے۔  جی، جی، خیریت ہے؟ خیریت ہی ہے، اصل میں بیٹی بھاگ دوڑ کر رہی تھی کہ ڈیسک سے جا ٹکرائی ہے۔ اس کی کمر میں درد ہے۔ آپ آکر اُسے لے جائیں۔  چوٹ زیادہ تو نہیں آئی۔ جی، کچھ زیادہ چوٹ نہیں محسوس ہورہی۔  ٹھیک، میں آ رہا ہوں۔ میں نے جلدی سے کچھ جاری کام نبٹائے اور سکول کی طرف روانہ ہوگیا۔  کیا حال ہے؟ ابو، ڈیسک کا کونا کمر میں لگ گیا تھا، درد ہورہی ہے۔  چلو، یہیں سے ہسپتال چلتے ہیں۔  میو ہسپتال میں بہن ڈاکٹر ہے سو اُسے فون کیا اور گڑھی شاہو، لاہور میں واقع سکول سے بیٹی کو لے کر سیدھا میو ہسپتال چلا گیا۔ بیٹا، کیا ہوا؟ کمر میں ڈیسک ک

قدامت پسند

آج سے تقریباً بیس سال قبل اولی اور میں دونوں جرمنی میں یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھ رہے تھے۔ وہ سٹگارڈ کے قریب ایک    گاوں سے تعلق رکھتا تھا۔ ہماری کچھ طبیعیت آپس میں راس آگئیں۔ ہم دونوں ہی کچھ قدامت پسند تھے۔ مجھے جب جرمن سیکھتےہوئے ایک ڈرامے کا کردار دیا گیا تو ڈائریکٹر نے کہا کہ تم ایک بوڑھے آدمی کا کردار ادا کرو گے۔ میں نے ہنس کر کہا میں تو ابھی جوان ہوں۔ اس نے کہا ، نہیں میں تمہیں جان گیا ہوں، تم جوان نہیں بلکہ ذہنی طور پر ایک عمر کے ہو، بس ایک جوان جسم میں رہتے ہو۔ کئی ماہ بعد ایک دن اولی اور میں دوپہر کے کھانے پر یونیورسٹی کی کینٹین میں آمنے سامنے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے. ساتھ کی میز پر ایک شوخ اور چنچل لڑکی نے اپنے چھب اور اطوار سے آسمان کو سر پر اور کھانا کھاتے طالبعلموں کی نگاہوں کو پلیٹوں سے ہٹا کراپنے پر مرکوز کروا رکھا تھا۔ اولی اسے دیکھ کر کہنے لگا، مجھے اس طرح کی شوخ لڑکیاں پسند نہیں، میں جب بھی شادی کرونگا تو ایک ذہنی طور پرسمجھدار لڑکی سے شادی کرونگا، اور شاید اسی وجہ سے میری ابھی کوئی سہیلی نہیں ہے۔ ہم دونوں ہنس پڑے، ایسی لڑکیاں اتنی عام نہیں ملتیں۔ بیس سال بعد پچھلے ماہ ج