چین کا سفر، قسط دوم
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post.html
![]() | ||||||
سڈنی اوپرا ہاؤس اور ہاربر برج سڈنی سے آگے بیجنگ کی پرواز لینی تھی سو اب انٹرنیشنل ایرپورٹ پر جانا تھا۔ ہال میں معلوماتی کاؤنٹر پر دو بوڑھے بیٹھے تھے۔ گمان ہے کہ رضاکار تھے۔ ریٹائرڈ افراد کو زندہ رہنے کے لیے مصروفیت چاہیئے ہوتی ہے ۔ بے وقعتی ہو تو وقت کا وار کاری ہوتا ہے۔ سو مغربی ممالک میں دیکھا کہ ریٹائرڈ افراد سے رضاکارانہ کام لیا جاتا ہے۔ اہمیت بھی رہتی ہے، کام بھی ہوجاتا ہے اور صحت مند بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈومیسٹک ایرپورٹ سے باہر نکلیں ، سامنے سے بس لیں کہ وہ انٹرنیشنل ایرپورٹ پر لے جائے گی۔ اگلی پرواز میں وقت کم تھا۔ وقت کم ہواور احساس بھی ہو تو پھر دباؤ بھی چمٹا ہوتا ہے، سو بھاگ بھاگ کر باہر نکل کر بس لی۔ بس چلی اور دس منٹ میں انٹرنیشنل
ٹرمینل پر لے گئی۔ عجب پرانی سی عمارت کے سامنے بس رکی تھی۔ بتایا گیا کہ اس عمارت
کے طرفی دروازے سے داخل ہوں تو انٹرنیشنل
ایرپورٹ پائیں گے۔ مایوسی سی ہوئی کہ دنیا کے کئی انٹرنیشنل ایرپورٹ دیکھے تھے مگریہاں
یوں لگا کہ
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے کہ سڈنی کا ایرپورٹ دیکھ کر سکھر کا ایرپورٹ یاد
آیا (خیال ہے کہ سکھر کا ایرپورٹ کچھ دہائیاں قبل دیکھا تھا، اب تو وہ بھی شاید
بہتر ہو گیا ہو)۔ اندر داخل ہو کر ایر چائنہ
کا کاونٹر ڈھونڈا۔ لمبی قطار تھی، زیادہ چینی تھے۔ ایک نوجوان آسٹریلین تھا جو اپنے قد سے لمبا
سرف بورڈ بُک کرانے کی کوشش میں کاونٹر سے کاونٹر دُو بہ دُو ہورہا تھا۔ اس کو اضافی
بڑے سائز کے سامان کے کاؤنٹر کو بھیجا گیا۔ اب وہ سامان تھامتا تھا اور سامان اُس
کو تھامتا تھا۔ مسافر نے جانا کہ شوقین
مزاجوں کے یہی قصے ہیں۔ کاونٹر پر ایک چینی خاتون تھی، انگریزی اچھی بولتی تھیں۔ انہو ں نے بورڈنگ پاس عطا کیا۔ اس کے بعد مسافر مسجد کی تلاش میں نکل پڑا کہ کہیں سجدہ ریز ہو۔ رہنمائی ملی کہ ایک کمرہ "پریئر روم" کے نام کا پہلی منزل پر ہے، جہاں اتحاد بین المذاہب کے تحت اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت ہو سکتی ہے۔ سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر پہنچ گیا۔ ایک جانب "پریئر روم" تیر کے نشان کے ساتھ لکھا نظر آیا۔ عجب تاریک راہداریاں ایک دوسرے میں گڈمڈ تھیں۔ تلاشِ حق میں ایک کونے سے دوسرے کونے میں پھرتے تھے۔ راہداریوں میں کچھ دفاتر تھے، کوئی سامان جہاز پر لادنے سے متعلقہ ، کوئی کسی ایرلائن سے وابستہ مگر وہ شروع میں "پریئر روم" تیر کے نشان سے آگے کچھ نہ پاتے تھے۔ ایسے میں ایک دفتر سے ایک اول جول سا گورا نکلا، لباس کا چناؤ اور بال سب بے ترتیب تھے، چہرے پر بھی کسی اور دنیا کے تاثرات تھے۔ ہم نے اُسے ہی رہبر جانا، سو کمرہِ عبادت کا پوچھا۔ کہنے لگا، کئی سالوں سے یہاں کام کررہا ہوں، یہ جانتا ہوں کہ ایسا کمرہ یہیں کہیں ہے، کہاں ہے علم نہیں، ہے یہیں کہیں، شاید دائیں کو ہے یا شاید بائیں کو ہے۔ کئی رہبروں سے بہتر تھا کہ لاعلمی کو مانتا تھا۔ خیر، تلاش اگر سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ تاریک راہداریوں میں ایک راہ سے دوسری میں داخل ہوتے بالآخر کمرہِ عبادت جا پہنچے۔ مسافر وں کوگنجائشعطا ہے، سو ظہر سے عشاء کی تمام نمازیں پڑھیں، اور پھر انہیں تاریک راہداریوں سے گھومتے نیچے کی راہ پائی۔ رات اترتی تھی، سواب کھانے کی تلاش منزل ٹھہری۔ ایرپورٹ پر ایک فوڈ کورٹ مل گیا۔ اب باری حلال کھانے کی تلاش کی تھی۔ ایک ایر لائن کے یونیفارم اور حجاب پہنے خاتون کو ایک دکان سے کھانا خریدتے دیکھا تو اُس سے پوچھ کر ہم بھی قطار میں لگ گئے۔ اس رات روسٹ مرغ کے ٹکڑے اور آلو کے چپس شکم کی زینت بنے۔کھانے کے بعد امیگریشن کا مرحلہ طے کر نےچل پڑے۔ امیگریشن پر لمبی قطار تھی۔ سامان اور آدمی سکین ہوتے ہیں،جامہ تلاشی ہوتی ہے، بیلٹ اتاریے، لیپ ٹاپ بیگ سے نکال کر الگ رکھیں، پانی کی بوتل بھی نامنظور ہے، ٹوتھ پیسٹ کی مقدار کم ہو تو قابلِ قبول ہے۔ اس سے گذر کر ایر چائنہ کی پرواز پر پہنچے، بوئنگ سات آٹھ سات ہے، اس میں تین نشسستیں درمیان میں اور تین دونوں جانب ہیں ، سو درمیان میں دو راہ گذر ہیں۔ جہاز پوری طرح بھرا ہے۔ پرواز تقریباً بارہ گھنٹے لے گی، سو مسافر نے سونے کا ارادہ رکھا ہے۔ ارادے اور عمل میں مگر فرق رہا۔ ایر لائن کو حلال کھانا پہلے سے لکھوایا تھا سو کھانے باقی مسافروں سے قبل ملتے رہے۔ کھانے میں چاول بمعہ گوشت تھا جبکہ ناشتہ آملیٹ اور ایک بھورا لمبوترا بن تھا۔ اگلی نششت پر دو ا لمبے تڑنگے افریقی تھے۔ آنکھیں بند کرکے بھی بتا سکتے ہیں کہ وہ امریکی ہیں۔ ان کی بات چیت کا انداز افروامریکن تھا۔ گمان ہے کہ دونوں باسکٹ بال کے کھلاڑی تھے کہ ایک اپنا باسکٹ بال اٹھائے لایا تھا۔ جب بیجنگ ایرپورٹ پر اترے تو وہ اپنی شہادت کی انگلی پر باسکٹ بال گھماتا تھا، ہمیں بھی شہادت ہوگئی کہ باسکٹ بال کا کھلاڑی ہے۔ صبح چار بجے بیجنگ ایر پورٹ پر جہاز اترا۔ امیگریشن پر لمبی قطار تھی۔ ہم پر خصوصی شفقت ہوئی، پوچھا گیا کیوں آئے ہو؟ کتنے دن کا قیام ہے؟واپسی کی ٹکٹ دکھائیے۔ پاسپورٹ کو ہر جانب سے دیکھا، تصویر کو جانچا۔ پاسپورٹ کی جامد تصویر کا ہم سانس لیتی اکائی سے موازنہ کیا۔ گمان ہے کہ تنگ آکر پاسپورٹ پر مہر لگائی اور مسافر کو ملکِ چین داخل ہونے کی اجازت دے دی۔
ہماری اگلی پرواز دو گھنٹے بعد لان زو کی تھی جو کہ ڈومیسٹک ٹرمینل سے جانا تھی سو ٹرین لے کر دوسرے ٹرمینل پر پہنچے۔ یہاں خوب ہوہکار مچا تھا۔ دروازے پر ایک ہرکارہ کسی بس اڈے کی مانند مسلسل اونچی آواز میں صدائیں لگا رہا تھا۔ دوبارہ سکیورٹی کے مرحلے سے گذرے۔ داخلی دروازے کے باہر میز پر مسافروں سے لی گئی پانی کی بوتلیں اور کھانے پینے کی اشیاء دھری تھیں۔بیجنگ کا ڈومیسٹک ایرپورٹ زبردست ہے، کئی ٹرمینل ہیں۔ اندرمختلف دکانیں، کافی شاپس اور چاکلیٹ شاپس ہیں ۔ ٹوائلٹ صاف ستھرے اور ماڈرن ہیں جن میں مشرقی انداز کے پیروں پر بیٹھنے والے بھی ہیں۔ بیجنگ ڈومیسٹک ایر پورٹ ایرپورٹ پر وائی فائی استعمال کرنے لیے سکین مشین لگی ہے، جہاں اپنا پاسپورٹ سکین کریں تو پاس ورڈ ملتا ہے جس کے ذریعے سے ایرپورٹ کے وائی فائی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لان زو کی پرواز پر کچھ سکول کے بچے کسی مقابلے پر جارہے ہیں ، ایک سے لباس پہنے ہیں۔ ان کا جوش نظر آتا ہے۔دوپہر ساڑھے بارہ بجے کے قریب لان زو کے ایرپورٹ پر جہاز اترا۔ ایرپورٹ بڑا زبردست اور عالیشان ہے۔ سامان کی ٹرالیاں بھی ڈییجیٹل دور کی ہیں۔ ٹرالی پر ایل سی ڈی سکرین لگی ہے، جس پر ویڈیو پیغامات اور اشتہارات چلتے ہیں۔سامان دکھیلتے چلیے اور دنیا اُس سکرین پر آپ کے ساتھ چلتی ہے۔ لان زو ایرپورٹ کا ایک منظر ایرپورٹ پر ایک لڑکا اور لڑکی طالب علم غیر ملکی جان کر آگئے۔ ایک فارم پُر کرنا شروع کردیا، اپنے کسی یونیورسٹی کے کام کے لیے ڈیٹا اور معلومات اکٹھی کررہے تھے۔ ان سے علم ہوا کہ ایرپورٹ تو شہر سے بہت باہر ہے۔ ان کا مشورہ تھا کہ ایرپورٹ سے شہر کے لیے ٹرین لیں اور پھر وہاں سے ٹیکسی لے کر ہوٹل جائیں۔ ان سے بات چیت میں کچھ وقت لگ گیا۔ جہاز پر چیک ان کیا سامان اس وقت تک پہنچ چکا تھا۔ ہم جب تک سامان کی گھومتی بیلٹ تک پہنچے تو لوگ اپنا سامان لے کر جاچکے تھے۔ دیکھا تو ہمار ا سامان بھی نہ تھا۔ اتنے میں دیکھا کہ سرخ یونیفارم پہنے ایرپورٹ کی ایک خاتون ہمارا سامان لیے جاتی ہے کہ سامان کو اُس نے لاوارث جانا تھا۔ بھاگ کر اُسے سامان کی پرچی دکھا کر سامان واپس دھروایا۔ اب ہم اُس سے پوچھتے تھے کہ ٹرین کہاں سے لیں؟ اُس کو ہوٹل کا پتہ بھی دکھایا۔ اب وہ انگریزی سے نابلد تھی اور ہم چینی زبان سے غیر آشنا تھے۔ ایسے میں بات اشاروں کنایوں میں تھی۔ اس نے اپنا موبائل نکالا کہ جس میں ترجمے کی ایپلیکیشن انسٹال تھی، سو اب تم سے تو ہونے لگی۔چینی خاتون موبائل پر چینی میں لکھتی تھی جو انگریزی میں ترجمہ ہوکر مسافر کو دکھایا جاتا تھا۔ مسافر پھر اسی موبائل پر انگریزی میں جواب آں غزل کے طور پر لکھتا تھا جو چینی میں تبدیل ہو کر پیغام رساں ہوتا تھا۔ مگر یہ ترجمہ بھی کئی جگہ پر اپنی خود مختاری دکھاتا تھا۔ ہم جو سمجھتے تھے ، کہا کچھ اور ہوتا تھا، غرض ایک جنریشن گیپ کا سا معاملہ تھا، مثلاً کہا گیا کہ ٹرین رہنے دیں نیکسٹ فلور یعنی اگلی منزل سے بس لے لیں۔ بعد میں کچھ خواری کے بعد علم ہوا کہ بس تو نچلی منزل سے ملنی تھی۔غالب نے کہا تھا کہ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پرناحق، اِدھر ہم اس خاتون کے لکھے کے گرفتار تھے کہ ٹرین چھوڑ کر بس پر بیٹھنے کو تیار ہوئے۔ خاتون سے پوچھا کہ بس کا کیا نمبر ہے؟تو اس کے چینی لکھے کا ترجمہ یوں ہوا کہ ٹکٹ خریدو گے تو بس کا نمبر پتہ لگے گا۔ بات ہمار ی سمجھ میں نہ آئی۔ خیر، جب ٹکٹ خرید لی تو اس نے ٹکٹ پر ایک جگہ دائرہ لگایا کہ یہ بس کا نمبر ہے۔ تب مسافر کو علم ہوا کہ بس کی نمبر پلیٹ کے نمبر پر دائرہ لگا ہے۔خاتون سے درخواست کی کہ ایک کاغذ پر چینی زبان میں ہمارے سٹاپ کا نام لکھ دے کہ یہ گفتگو بذریعہ ترجمہ تو ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی، اور خیال ہے کہ جانا کہیں ہوگا اور ہم پہنچ کہیں اور جائیں گے۔ چین میں لوگ مسافر نے بہت ملنسار اور مددگار پائے سو محترمہ نے کاغذ پر بس سٹاپ کا نام چینی میں لکھ دیا، جسے ہم نے محبت نامے کی مانند سینے سے لگا کر رکھا کہ ہوٹل تک رسائی اسی پر منحصر تھی۔ پچھلے چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد ہوٹل کا رتبہ مسافر کے لیے کسی آستانے سے کم نہ تھا۔ قسط سوم درج ذیل لنک پر ہے۔https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_3.html Copyright © All Rights Reserved No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com #AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#عاطف-ملک
|
Comments
Post a Comment