چین کا سفر، قسط اول

تحریر: عاطف ملک

مسافر  چین کو عازم ِسفر تھا۔

سفر بھی ایسے آیا کہ سال قبل ایک طالب علم کو ماسٹرز تھیسس کروایا تھا۔ طالب علم نے اس کام پر تحقیقی مقالہ لکھا اور کچھ کانفرنسوں میں بھجوایا۔ چین بلاتا تھا سو مقالہ منتخب ہو گیا سو اب کانفرنس میں شرکت کے لیےہم دونوں کا  چین جانا ٹھہرا۔

کانفرنس لان زو شہر میں تھی۔ اب شہر کا پہلے نام بھی نہ سنا تھا۔ نقشے میں دیکھا تو شمال مغربی چین کے گانسو صوبے کا صدر مقام ہے۔ گانسو  کا صوبہ تبت اورصدیوں قبل  ہوا سے پھیلی سرخ مٹی کے  سطح مرتفع کے درمیان واقع ہے۔ گانسو کے علاقے کا ایک حصہ صحرائے گوبی میں واقع ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں منگولیا کے گووی لتائی ،  اندرونی منگولیا اورچینی مسلمانوں کے صوبے  ننگشیا جبکہ  مغرب میں سنکیانگ اور چنگھائی ، جنوب میں سیچوان اور مشرق میں شانسی سے ملتی ہیں۔ دریائے زرد صوبے کے جنوبی حصے سے گزرتا ہے۔ چنگھائی چین کا ایک اندرون ملک صوبہ ہے جو  رقبے کے لحاظ سے چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور آبادی کے لحاظ سے تیسرا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ شانسی صوبے کا دارلحکومت شیان ہے۔ شیان میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار ہوئی مسلمان ہیں۔ہوئی مسلمان چین کے سب سے نمایاں مسلم نسلی گروہوں میں سے ایک ہیں  اور ہوئی مسلمانوں کی تعداد چین میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ وہ نسلی طور پر ہان چینی ہیں اور بنیادی طور پر مینڈرن چینی بولتے ہیں جبکہ  چین کے سنکیانگ صوبے کے ویغور مسلمان ترک النسل ہیں اور ان کی زبان بھی ترک زبان کے قریب ہے۔  لان زو میں بھی ہوئی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ 

لان زو  سائنسی تحقیق اور تعلیم کا ایک اہم مرکز بھی ہے اور مسافر اس شہر کی کئی یونیورسٹیوں میں سے ایک شمال مغربی یونیورسٹی میں  کانفرنس کے لیے جارہا تھا۔ 

مسافر لان زو کی یونیورسٹی کے دروازے پر

مسافر لان زو کی یونیورسٹی کے دروازے پر

  ایک چینی ساتھی نے جب سنا کہ مسافر لان زو کو جاتا ہے تو کہنے لگا ، خوش ہو جا کہ تو وہاں کے کھانے یاد کرے گا۔ قصہ حاتم طائی کی مصداق صدائیں لگائے گا کہ ایک دفعہ کھایا ہے، دوسری دفعہ کھانے کا اشتیاق ہے۔  ہم نے کہا ہمارا مسلہ تو حلال کھانے ہیں، کئی سال قبل چین کے سفر کا ایک تجربہ تھا جس میں مسافر شنگھائی کی گلیوں میں حلال کھانے ڈھونڈتے پھرتا رہا تھا اور حلال  کھانا عید کے ہلال کی مانند دیکھنے میں نہ آتا تھا۔   کہنے لگا   لان زو مسلمانوں کا علاقہ ہے ، اور کھانوں کی لیے جانا جاتا ہے۔ وہاں کی لان زو بیف نیوڈلز دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔

لان زو بیف نیوڈلز

لان زو بیف نیوڈلز

   مسافر کی پہلی فلائیٹ سڈنی کے لیے تھی۔ ورجن ایر لائنز کی یہ فلائیٹ بوئنگ  سات تین سات کی تھی۔ اس جہاز میں دونوں جانب تین تین نشستیں  ہوتی ہیں جبکہ درمیان میں راہ گذر ہوتی ہے۔ سستی ایر لائن ہونے کی بنا پر پرواز میں کچھ نہیں ملتا گو اس پانچ گھنٹے کی  پرواز میں  ایک دفعہ پانی اور چائے دیے گئے۔ آغاز ہی کچھ پروفیسرانہ رہا، ایرپورٹ پر سامان بُک کراتے  دیکھا کہ لیپ ٹاپ گاڑی میں ہی بھول چکا تھا۔  فون کرکے گاڑی کو واپس بلوایا کہ مقالہ سے متعلقہ سب کچھ لیپ ٹاپ کی مٹھی میں تھا۔  سیٹ اکتیس نمبر ملی تھی۔ کہا گیا کہ گو جہاز کے اگلے حصے کے ساتھ برتھ جڑی ہے، مگر مسافر پیدل ٹارمک پر جائے اور جہاز کے پچھلے دروازے سے سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں داخل ہو۔ جہاز پر چڑھے تو پتہ لگا کہ جہاز کی سب سے پچھلی نشست ہے۔

جب جہاز نے پرواز بھری تو  سب سامنے تھا، جہاز کی  ناک اوپر تھی  ، اور مسافر دُم پر تھا۔ دید سامنے تھی، کچھ دباؤ جسم پر تھا جو ذہن پر بھی آن پہنچا تھا۔ اگر آنکھ کھلی ہو تو  منظر  بھی نظر آتا ہے، غلطیاں سامنے رہتی ہیں، عمل  بھی سوچ کے تابع رہتا ہے۔  لاپرواہی  اور  غفلت    ساتھی ہو تو پشیمانی کہیں نہ کہیں سے ہم رکاب ہوجاتی ہے۔  

اُس لمحے مسافر کی زندگی  اُس کے سامنے تھی۔

پچھلی نشست  بے کار نہیں ہوتی، بہت کچھ دکھا دیتی ہے۔  کمرہ جماعت کی پچھلی سیٹ کا رنگ اور ہوتا ہے۔ سب دکھائی دیتا ہے، کون پڑھتا ہے، کون شرارت میں مصروف ہے، کون کسی صنف مخالف ہم جماعت کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہے۔ پچھلی سیٹوں والے پڑھائی میں اچھے ہوں نہ ہوں، زندگی کے رنگ سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔

جہاز کی سب سے پچھلی نشست کا بھی اپنا رنگ ہوتا ہے، اوپر کیبن میں سامان نہیں رکھ سکتے کہ اس میں پہلے ہی  جہاز والوں کا سامان بھرا ہوتا ہے، نشست سے پیچھےٹوائلٹ ہے کہ لازمی بدبو وقتاً فوقتاً  آتی رہتی ہے، ساتھ ہی ایر ہوسسٹوں کا  علاقہ ہے جہاں سے کبھی خوشبو اور کبھی کھانے کی مہک  آ پہنچتی ہے۔ پچھلی نشست  زندگی کے رنگ اور باس لیے ہوتی ہے۔

ساتھ کی نشست پر ایک درمیانی عمر کی  عورت تھی، جو دورانِ پرواز اپنی کاپی پر قلم سے کچھ لکھتی رہی۔آج کے دور میں قلم تھامنے والے کم ہی ہیں۔  بات ہوئی تو  علم ہوا کہ وہ جاپانی عورت سنگاپور میں رہائش پذیر ہے، میاں اس کا اٹالین ہے اور وہ  خود بھی سنگاپور میں کسی ریسٹورنٹ میں اٹالین کھانوں کی شیف ہے۔ دو لڑکے سڈنی میں رہتےہیں جن سے ملنے جارہی تھی۔ کہنے لگی، میرے لڑکوں کے پاس تین قومیتیں ، اٹالین، جاپانی اور آسٹریلین ہیں۔  مسافر نے  سوچا کہ انسانی زندگی بھی  یک رنگی سے رنگا رنگی  کے سفر پر ہے۔ گوت، برادری ، قومیت سب اپنے معنی بدل رہے ہیں۔ اُسی لمحے جہاز نے ایک بڑا غوطہ کھایا،  کچھ راہیوں نے اپنی اپنی زبان میں خدا کو یاد کیا جبکہ کچھ نے گالی کا سہارا لیا۔

پچھلی نشست پر بیٹھے مسافر کے سامنے زندگی کے رنگ آشکار تھے۔ 
 
قسط دوم کا لنک درج ذیل ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_2.html
 

 

Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#عاطف-ملک

 





 
 

 


Comments

Popular posts from this blog

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ