Posts

Showing posts from 2022

عورت ---- اک پنجابی نظم

عورت شاعر، عاطف ملک توں ماں ایں بلدی دھپے ٹھنڈی چھاں ایں رب دا جگ وچ رنگ   جنت   دا نشاں ایں توں ماں ایں   توں بہن ایں جگ سارے دا گہن ایں توں دعاوں منگدے ہتھ توں راہواں تکدے نین ایں   توں بہن ایں   توں گھار آلی ایں نسلاں دی توں والی ایں گھار دے دیوے دی ہیں لو دکھ خوشی دی ہانی ایں پنڈے اتے کپڑے   چدر کھیت کھلیان ہریالی ایں توں گھار آلی ایں   توں دھی ایں ساڈے جی   دا جی ایں ویڑھے وچھی چانن توں مٹی دی خشبو رب دی رحمت ہی ایں توں دھی ایں توں دھی ایں     Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com     #AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu  

استاد ---- قسط اول

تحریر: عاطف ملک وہ ہمارے نویں اور دسویں جماعت میں استاد تھے،   بیالوجی اور کیمسٹری پڑھاتے تھے۔ ایک پرانی سائیکل کو دھیرے دھیرے چلاتے سکول آتے۔ انہیں ہم نے کبھی سائیکل تیز چلاتے نہ دیکھا تھا بلکہ ان کی گفتگو کی رفتار بھی   ان کی سائیکل کی رفتار کی مانند نہ صرف کم تھی بلکہ اس سے ایک بیزاری کا رنگ جھلکتا تھا، گو ہمیں علم نہیں وہ بیزاری کس سے تھی، زندگی سے، نوکری سے، اپنی ذات سے یا اپنی سائیکل سے مگر کچھ تھا۔ اپنے ہی رنگ میں رہتے تھے، انہیں کسی پر غصہ کرتے نہیں دیکھا بلکہ کسی پر خوش ہوتے بھی نہ دیکھا۔ مردانہ سٹاف ممبران سے تو بیزار تھے ہی زنانہ کو بھی اسی بیزاری کی نگاہ سے دیکھتے تھے، غرض عورت مرد کی برابری کے قائل تھے۔ ہر کام آرام سے کرتے، ہمارے خیال میں تو تیزی بھی ان کے پاس سے آہستہ سے گذرتی ہوگی۔ اپنی ذہانت اور سالہا سال مضامین پڑھانے کے باعث انہیں کتابیں یاد ہوگئی تھیں۔ کلاس میں آتے، سامنے کھڑے ہوتے اور کتاب کھولے بغیر پڑھانا شروع ہوجاتے۔ آواز ایک ہی سطح پر رکھتے، چاہے کیمسٹری میں ایکشن سے چل کر ریکشن کے باعث دھماکا یا گیس کے بلبلے نکل رہے ہوتے یا بیالوجی میں عمل تولید سے نسلِ حیو

کہانی ---- کیوں، کیا اور کیسے؟

  اس تحریر میں ہم کہانی سے متعلق تین سوالات کے بارے میں بات کریں گے۔ کہانی کیوں لکھی جائے؟ کیا کہانی لکھنا سیکھا جاسکتا ہے؟ کہانی کیسے لکھتے ہیں؟ ہم سب کہانیاں سننا پسندکرتے ہیں۔ ہم سب کہانیاں سنانا پسند کرتے ہیں۔ ہم سب خود کہانیاں ہیں، کہانیاں ہمارے پاس بکھری ہیں۔ بچپن میں دادا دادی، نانا نانی سب سے ہم کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا ہو، علی بابا اور چالیس چور ہوں یا شہرزاد جو اپنی زندگی بچانے کے لیے ہزار داستان سنائے ۔۔۔ ہم کہانیاں سننا چاہتے ہیں۔ پہلے کہانیاں سننا اور پھر کہانیاں پڑھنا۔ جو لوگ میری عمر کے ہیں انہوں نے آنہ لائبریری کی مدد سے کئی کہانیاں پڑھی ہوں گئی۔   کہانیاں پھیل کر ناول بن جاتی ہیں۔ اشتیاق احمد کے انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق، فرزانہ ہو یا ابن صفی کی عمران سیریز، نسیم حجازی اور عنایت اللہ اپنے رنگ سے کہانیاں سنائیں یا رحیم گل جنت کی تلاش میں انگلی پکڑ کر سفر پر لے چلیں۔ کہانیاں ہمارے ساتھ رہی ہیں۔ کہانیاں رنگ نسل اور زبان سے بالاتر ہیں۔ دوسری زبانوں کی کہانیاں ہمارے پاس آتی رہی ہیں، سنڈریلا کی کہانی جو بہت پرانی ہے مگر سب سے پہلے اٹال

عید کی تصویر

 تحریر: عاطف ملک عید الفطر دو ہزار بائیس کو لکھا عید کے موقع پر احباب اپنی تصاویر شیئر کرتے ہیں، سو اس عید پر ایک لفظی تصویر پیش ہے۔ اس دفعہ عید کی نماز انڈونیشیوں کے زیرانتظام مسجد میں پڑھی۔ کچھ عرصہ قبل اس مسجد سے متعارف ہوا تھا۔ انڈونیشیا تبلیغ سے مسلمان ہوا تھا، وہ جو تاجر آئے انہوں نے اپنے معاملات سے دین کی تبلیغ کی۔ مذہب کے بارے میں انڈونیشین کے ہاں بڑی برداشت پائی جاتی ہے۔ ایسی برداشت کہ دوسری قومیتوں میں ناپید ہے۔اس کا پہلا تجربہ تب ہوا جب اس مسجد میں باجماعت نماز پڑھ رہا تھا کہ دیکھا کہ ایک موٹی تازی بلی آکر صفوں میں نمازیوں کے ساتھ جڑ گئی۔ التحیات میں بیٹھے تو گود میں چڑھ آئی۔ سلام پھیرا تو ایک صاحب اٹھے، مسکرائے اور بلی اٹھا کر باہر چھوڑ آئے۔ تھوڑی دیر بعد کوئی اور نمازی کمرہِ مسجد میں داخل ہوا تو دروازہ کھلنے کے ساتھ بلی دوبارہ اندر تھی۔ لوگوں نماز پر توجہ دیتے رہے اور پیچھے کچھ بچے بلی سے خوش ہوگئے۔ رب کی مسجد میں اس دن دو مخلوق صفوں پر خوش تھی۔ ا س سال بھی ہمیشہ کی طرح دو دن عید کا اعلان تھا، ایک وہ جو کیلنڈر کے مطابق عید منا رہے تھے، دوسرے جنہوں نے چاند کے مطابق عید من

سرکاری تحفے

تحریر: عاطف ملک  کراچی کا سفر سرکاری ڈیوٹی  کے طور پر تھا، اور کیونکہ سرکار کو جلدی تھی سو اسلام آباد سے ہوائی جہاز پر کراچی جانا تھا۔ جہاز پر ایک بڑا ڈبہ بھی ہمراہ تھا۔ جی، سرکاری کام اُس ڈبے میں بند تھا، بلکہ کہوں گا کہ سرکار کا کام اُس ڈبے میں دھرا تھا۔ وہ ڈبہ لے کر میں کراچی جا رہا تھا۔ ڈبہ چھوٹا نہ تھا۔ آپ سائز جان کر کیا کریں گے، سمجھیئے کہ آپ کی سمجھ سے بڑا تھا اور لبالب بھرا تھا۔  میری سمجھ کے بارے میں فکر نہ کریں کہ میری سمجھ بالکل ٹھیک ہے۔ میں نوکری پیشہ آدمی ہوں، جانتا ہوں کہ سرکار کو سرکاری سے علیحدہ رکھو۔ جو نیت سرکار کی وہی میری، اللہ اکبر۔ سرکار کی تکبیر عبادت کی نہیں ہوتی، یہ قربان کرنے کی ہوتی ہے۔ میں سٹاف افسر ہوں۔ سرکار کو ہر قسم کی سروس مہیا کرنا میرا کام ہے۔ میں لباس بدلنے میں دیر نہیں لگاتا، جیسی سرکار ویسا میرا روپ، آپ مجھے تبلیغی جماعت کے سہ روزہ میں سامان اٹھائے پائیں گے، شہر کی شبینہ ڈسکو محفل میں بھی زبردست ناچتا ہوں، جامِ شیریں بھی پیتا ہوں اور جام بھی لنڈھاتا ہوں۔ شہر کے آستانوں سے بھی واقف ہوں اور قحبہ خانوں میں بھی آشنائی ہے۔ مزاروں پر چادریں چڑھاتا ہوں ا

ماں جی --- مکمل تحریر

اپنی والدہ مسز کلثوم منصور کی یاد میں    ماں جی کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ ، جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کردیتیں۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اورملائمت میں فرق رکھتے، مگر وہ سلائی سے ایک دھاگے کواُٹھاتیں، اُس کواہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں- اور پھر جب سویٹرتیار ہوجاتا  تواُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی، کہیں بازووں  پرخانہ داراُبھرے ڈیزائن، کہیں ایک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اورکبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے سے بٹن دار، اورجب وہ سویٹرپہنتا تواُن کی خوشبو، محبت، گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔  اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا۔ اُن کے پاس اپنا  کوئی آلہ تھا، نہ نظر آنے والا، بہت حساس، ہمارے تمام احساسات خیالات کو ماپ لینے والا، ہماری موجودگی یاغیرموجودگی سے بالاتر، صحیح پیمائش کرنے والا۔ اگر دفتر سے کسی بنا پ