Posts

Showing posts from April, 2022

سرکاری تحفے

تحریر: عاطف ملک  کراچی کا سفر سرکاری ڈیوٹی  کے طور پر تھا، اور کیونکہ سرکار کو جلدی تھی سو اسلام آباد سے ہوائی جہاز پر کراچی جانا تھا۔ جہاز پر ایک بڑا ڈبہ بھی ہمراہ تھا۔ جی، سرکاری کام اُس ڈبے میں بند تھا، بلکہ کہوں گا کہ سرکار کا کام اُس ڈبے میں دھرا تھا۔ وہ ڈبہ لے کر میں کراچی جا رہا تھا۔ ڈبہ چھوٹا نہ تھا۔ آپ سائز جان کر کیا کریں گے، سمجھیئے کہ آپ کی سمجھ سے بڑا تھا اور لبالب بھرا تھا۔  میری سمجھ کے بارے میں فکر نہ کریں کہ میری سمجھ بالکل ٹھیک ہے۔ میں نوکری پیشہ آدمی ہوں، جانتا ہوں کہ سرکار کو سرکاری سے علیحدہ رکھو۔ جو نیت سرکار کی وہی میری، اللہ اکبر۔ سرکار کی تکبیر عبادت کی نہیں ہوتی، یہ قربان کرنے کی ہوتی ہے۔ میں سٹاف افسر ہوں۔ سرکار کو ہر قسم کی سروس مہیا کرنا میرا کام ہے۔ میں لباس بدلنے میں دیر نہیں لگاتا، جیسی سرکار ویسا میرا روپ، آپ مجھے تبلیغی جماعت کے سہ روزہ میں سامان اٹھائے پائیں گے، شہر کی شبینہ ڈسکو محفل میں بھی زبردست ناچتا ہوں، جامِ شیریں بھی پیتا ہوں اور جام بھی لنڈھاتا ہوں۔ شہر کے آستانوں سے بھی واقف ہوں اور قحبہ خانوں میں بھی آشنائی ہے۔ مزاروں پر چادریں چڑھاتا ہوں ا

ماں جی --- مکمل تحریر

اپنی والدہ مسز کلثوم منصور کی یاد میں    ماں جی کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ ، جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کردیتیں۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اورملائمت میں فرق رکھتے، مگر وہ سلائی سے ایک دھاگے کواُٹھاتیں، اُس کواہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں- اور پھر جب سویٹرتیار ہوجاتا  تواُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی، کہیں بازووں  پرخانہ داراُبھرے ڈیزائن، کہیں ایک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اورکبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے سے بٹن دار، اورجب وہ سویٹرپہنتا تواُن کی خوشبو، محبت، گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔  اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا۔ اُن کے پاس اپنا  کوئی آلہ تھا، نہ نظر آنے والا، بہت حساس، ہمارے تمام احساسات خیالات کو ماپ لینے والا، ہماری موجودگی یاغیرموجودگی سے بالاتر، صحیح پیمائش کرنے والا۔ اگر دفتر سے کسی بنا پ

الحمرا اور مسافر، قسط چہارم

Image
اس سے پچھلی قسط، الحمرا  اور مسافر ، قسط سوم درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ http://aatifmalikk.blogspot.com/2022/01/blog-post_22.html تخت گاہ سے نکل کر تیسرے محل میں داخل ہوا جاتا ہے۔ اسے الریاض السعید کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بادشاہ اور اس کے خاندان کی رہائش گاہ تھی۔ درمیانی صحن کو شیروں کا صحن کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے درمیان میں مشہورِ زمانہ شیروں کی پشت پر دھرا فوارہ ہے۔ صحن کے گرد برآمدے ہیں جن میں ایک سو چوبیس ماربل کے ستون ہیں۔ مشرقی اور مغربی جانب  دو خیمہ دریاں ہیں جو صحن میں آتی ہیں۔ یہ عرب بدوں کے خیموں کی یاد دلاتے ہیں۔ چاروں کونوں سے پانی کے راہ بہتے ہیں جو صحن کے درمیان میں شیروں کے فوارے میں جا کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس صحن کے سات خطِ تشاکل یعنی سمٹری ایکسیز ہیں جو اس زمانے کی تعمیراتی ترقی اور فن کو ظاہر کرتا ہے۔ شیروں کے فوارے میں بارہ شیر ہیں۔ یہ سوال ہے کہ یہ بارہ شیر کیوں ہیں؟ اس کے مختلف خیالات و توجیہات دی گئی ہیں مثلاً یہ سال کے بارہ ماہ دکھاتے ہیں، یا یہ ایک شہزادی کے آنسو ہیں جو جب صحن میں گرے تو انہوں نے بارہ شیروں کی شکل ڈھال لی، یا یہ آسمان کے بارہ برج