Posts

Showing posts from September, 2018

مامی کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے

 تحریر : عاطف ملک آج مامی فرحت پھر رو رہی ہے۔ اب تو یہ معمول ہی بن گیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اس کا نام ماں باپ نے فرحت رکھا تھا۔ نام بعض اوقات الٹ اثر رکھتے ہیں۔ مگر کیا نام میں کچھ ہوتا ہے، یا نصیب ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ مامی کا نام کچھ بھی ہوتا، اب اس نے رونا ہی تھا۔ اس کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے۔ پکے اسٹامپ پیپر پر، انمٹ سیاھی سے۔ اور سیاھی ایسی کہ خشک ہی نہیں ہوتی، مامی کے آنسووں کی مانند برس ہا برس سےگیلی۔     مامی کو پچھلے پانچ سال سے میں نے مسلسل روتے ہی دیکھا۔ پانچ سال سے پہلے بھی وہ روتی تھی مگر   سب کے سامنے نہیں۔ اس کی آنکھیں بتاتی تھیں کہ وہ روتی ہے۔ آنکھیں بھی بچوں کی طرح ہوتی ہیں، کچھ چھپا نہیں سکتیں، سب بتا دیتی ہیں، بنا پوچھے، بغیر کسی سوال کے، کسی معصوم کی مانند۔ زبان جھوٹ بھی بولے تو آنکھیں سچ بول رہی ہوتی ہیں۔ اور مامی کی آ نکھیں؛ مامی کی آنکھیں تو ویسے بھی الگ تھیں، بڑی بڑی، اپنی طرف کھینچتی۔ جب میں نے اُسے پہلی دفعہ دیکھا تھا تو دیکھتا رہ گیا تھا۔ اور ویسے بھی یہ اُس کی شادی کا دن تھا، اورمیں شادی کا سربالہ۔ جب دولہا دلہن کو ساتھ بٹھایا گیاتھا   تو سربالہ م

اور کان ہیں کہ پرندوں کی چہچہاہٹ کو ترس گئے ہیں

Image
تحریر: عاطف ملک آج صبح پودوں کو پانی لگاتے ایک مینڈک کو دیکھا کہ اونچے مقام پر جاپہنچا تھا۔ اُسے دیکھا تو کئی اور منظر نگاہ میں اورخیال سوچ میں آگئے۔ سب سے پہلا خیال یہ تھا کہ کیا یہ مینڈک ہے کہ مینڈکی۔ آج کے فیمینزم کے دور میں مردانہ صیغہ کا واحد استعمال خصوصاً ترقی کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں۔ مینڈک کی اس ترقی کو دیکھ کرکچھ پرانے تجربے یاد آگئے۔ ایک نوکری تھی جس میں ٹرٹرانے کی خصوصی اہمیت تھی۔   کارکردگی ناپنے کے پیمانے اہداف یعنی ٹارگٹ  Target based  کی بجائے گمانی یعنی  Subjective  ہوں تو یار لوگوں نے جان لیا کہ ٹرٹرانے کی اہمیت دوچند ہے۔ ایسے میں نیچے والوں سے بدتمیزی کو بھی کارکردگی کا معیار جان لیا گیا، سو وہ مینڈکوں کا شور تھا کہ چمن میں جو چند پرندے چہچہاتے تھے، وہ باعثِ الزام ٹھہرے۔ جوپرند اڑ سکے اڑ گئے، باقیوں کی آواز ٹرٹراہٹ میں گم تھی۔ مگر ایسے پرندوں کی اہمیت دوچند تھی کہ کثیف ہوا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا بھی زندگی بخش ہوتا ہے۔ مینڈک نوکری کی شاخوں پراوپرچڑھتے گئے، جب وہاں سے گرے تو پریشاں حال تھے کہ محنت کی استعداد تو کھو بیٹھے تھے۔ ٹانگی

لٹل انڈیا سنگاپور میں آوارگردی

Image
دسمبر 2017 میں سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا۔ اس موقع پر سنگاپورکے علاقے لٹل انڈیا بھی گیا، جہاں ایک مندر بھی ہے۔ اس بلاک  پوسٹ میں لٹل انڈیا کی کچھ تصاویر ہیں۔   لٹل انڈیا  ٹرین سٹیشن لٹل انڈیا میں مندر کے ساتھ پھولوں کے ہار چڑھاوے کے لیے سبزی ہوٹل انڈین ہوٹل آئی بی ایم آرٹ اشتہار سنگاپورمیں مندرکا بیرونی منظر مندر کا دروازہ مندر کے دروازے پر پھولوں کو ہاتھ لگا کر لوگ اندر جاتے ایک مندر آنیوالا مندر دیوی  کردار پرادھنا کی قطار پروھت پروھت اور پجاری چڑھاوے جو بتوں کی بجائے پروھتوں کے کام آتے ہیں چڑھاوے جو بتوں کی بجائے پروھتوں کے کام آتے ہیں Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

حلال ذہن میں ہوتا ہے

Image
تحریر : عاطف ملک وہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم سے ماسٹرز کورس کے تین منتخب شرکاء کی تقریریں سن کر ساتھ والے ہال میں داخل ہورہے تھے۔ ارشد کو پہلی تقریر پسند آئی  تھی، لیسی کی تقریر۔ اس کورس میں اس کو ویسے بھی لیسی سے گپ شپ کا مزہ رہا تھا۔ اچھی ملنسار سی لڑکی تھی، قدرے بھاری جسم کی، بال کٹے ہوئے، نیلی آنکھیں چمکتی ہوئیں، ہر وقت مسکراتی۔  یہ وقت بہت سخت رہا تھا۔ یہ بزنس سکول والے بھی آدمی کی مت مار دیتے ہیں۔ لیکچرز، کیس سٹڈیز، گروپ ڈسکشن، پریزینٹیشن، انفرادی سوال جواب؛ ایک کے بعد ایک ۔ وہ صبح یونیورسٹی آتا تھا اور رات گئے فارغ  ہوتا تھا۔ دوپہر کا کھانا سب بزنس سکول کی کینٹین میں کھاتے تھے۔ وہ کورس کے کافی ساتھیوں کوجان گیا تھا۔ شام ہو چلی تھی، کورس کا اختتام تھا، آخری تقریریں، سرٹیفکیٹس کی تقسیم اور الوداعی ڈنر۔ سب لوگ کوٹ پینٹ ٹائی اورفارمل لباس میں تھے۔ آخری تقریر کورس کے ڈائریکٹر نے کی، وہی عمومی باتیں جو ایسے موقعوں پرکہی جاتی ہیں۔ یہ مشکل کورس تھا مگرآپ کی محنت نے اسے ممکن بنایا، یہ کورس کا سیکھا آپ کی زندگی کے ساتھ جائے گا، آپ کے اساتذہ کی محنت قابل ِتعریف ہے،  طا لبع