قرطبہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

تحریر و تصاویر : عاطف ملک

نوٹ : اس مضمون سے قبل کی قسط " اشبیلیہ، اندلس کا سفر" درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔
 

مصنف کی مسجد قرطبہ میں بنائی گئی ویڈیو درج ذیل یوٹیوب لنک پر دیکھی جاسکتی ہے۔


 سات جولائی 2018 کی سہ پہر کو اشبیلیہ سے قرطبہ کے لیے کار میں روانہ ہوئے۔ دریائے وادی الکبیر کے کنارے سے گذرے، دریا میں کشتی رانی کے مقابلے ہو رہے تھے۔

ایک ہزار سال پہلے قرطبہ مسلم اندلس کا دارلحکومت تھا۔ قرطبہ 711 عیسوی میں اموی دور کے بربر سپہ سالار طارق بن زیاد نے رومن افواج کو شکست دیکر فتح کیا۔ یہ شہر وادی الکبیر میں سے گذرتے دریا قوائد الکبیر کے کنارے پر واقع ہے۔ فتح کے بعد  قرطبہ اموی سلطنت کا ایک حصہ تھا جس کا دارالحکومت دمشق تھا۔ دمشق بازینطینی سلطنت کا ایک اہم ترین شہرتھا۔ دمشق کو 634 عیسوی میں خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور میں حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں اسلامی فوج نے فتح کیا تھا۔ دمشق کی شکست کے بعد بازینطینی بادشاہ ہر کولیس نے ایک بڑی فوج اکٹھی کی اور 636 عیسوی میں یرموک کے مقام پرتاریخ کا ایک بڑا معرکہ ہوا۔ یہ جنگ تاریخ کی بڑی جنگوں میں شمار ہوتی ہے کہ اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔  دریائے یرموک کے کنارےحضرت خالد بن ولید کے چالیس ہزار کے لشکر نے ڈھائی لاکھ کے بازینطینی رومن لشکر کو عبرتناک شکست دی۔ اس فتح کے بعد شام، فلسطین، بیت المقدس پر مسلم حکومت کی بنیاد پڑی۔ اموی دور میں اسلامی حکومت کا دارلخلافہ دمشق منتقل ہوگیا تھا۔

عیسوی سال 750میں عباسیوں نے امویوں کو شکست دے کر اپنی خلافت قائم کی۔ فتح کے بعد پہلےعباسی خلیفہ ابوعباس السفاح نے اموی خاندان کو  کھانے پر بلایا اور وہاں ان تمام کو قتل کردیا، صرف ایک نوجوان عبدالرحمن وہاں سے جان بچا کر بھاگا ۔ سفاح کا نام اسکی سفاکیت کی بنا پر دیا گیا تھا۔ عبدالرحمن نے اندلس کا رخ کیا اور یہاں ایک خودمختار اموی حکومت کی بنیاد رکھی جس کا دارالخلافہ756 عیسوی میں قرطبہ ٹھہرا۔ تاریخ میں وہ عبدالرحمن اول کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وہ دورجب تمام یورپ جہالت کے اندھیرے میں تھا، قرطبہ اپنی تقریباً دس لاکھ کی آبادی کے ساتھ علم و ہنر، تہذیب و تمدن اور مذہبی رواداری کا نمونہ تھا۔ یہودی اس شہر کی آبادی کا ایک اہم جزو تھے۔ آج بھی قرطبہ کا یہودی اورعرب رہائشی علاقہ اپنی گلیوں، سفیدی شدہ مکانوں، پھولوں سے لدی بالکنیوں، صحنوں میں بنے حوضوں اور فواروں سے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ یورپ کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر تھا۔ نیز یہ یورپ کا پہلا شہر تھا جس کی گلیوں میں رات کو روشنی کا بندوبست تھا اور گھروں کے اندر آب رسانی کا باقائدہ انتظام تھا۔  قرطبہ یورپ کی اندھیرے میں ایک تعلیم کا روشن مرکز تھا، 80 سے زیادہ لائبریریاں اور مدرسے طب، فلسفہ، فلکیات، سیاست، نظامِ ریاست پر تعلیم دے رہے تھے۔ کہہ جاتا ہے کہ قرطبہ کی بڑی لائبریری میں چار لاکھ سے زیادہ ہاتھ سے لکھی کتب تھیں۔ یہاں یورپ کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوَئی تھی۔ یورپ کو یونانی فلسفیوں کی تحاریر سے روشناس کرانے میں مسلم اندلس کا ایک بڑا ہاتھ 
ہے۔
مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں نے قرطبہ کی حیثیت کو متاثر کیا۔ 1031 عیسوی میں اموی خلافت کا سپین میں خاتمہ ہوا، اور اب اشبیلیہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی۔

 قرطبہ کےعظیم فرزندوں میں ابن الحزم اورابن رشد کا نام آتا ہے۔ ابن الحزم994 عیسوی میں قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ وہ عالم، فلسفی، ریاضی دان، شاعر اور قانون دان تھے۔ انہیں تقابلِ ادیان کے مضمون کے بانی کے طور پرجانا جاتا ہے۔ انہوں نے 400 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔

تاریخ میں قرطبہ کا ایک اور بھولا بسرا نام ابو القاسم عباس بن فرناس ہے جو کہ ایک موجد، شاعر، حکیم، ماہر فلکیات اور موسیقار تھے۔ وہ بربر النسل تھے اورچاند پر دریافت شدہ ایک دھانہ  انکے نام پر ہے، جبکہ قرطبہ میں دریا قوائد الکبیر کا ایک پل بھی ان کے نام پر ہے۔ ابن فرناس کی ایجادات میں آبی گھڑی، مختلف فلکیاتی آلات جو ستاروں کا مقام اور انکی حرکت بتاتے تھے، بصارت کے عدسے اور معدنی دھاتوں کو کاٹنے کے آلات شامل ہیں۔ 875 عیسوی میں ابن فرناس نے سلک اور لکڑی کے پر بنا کر پرواز کی کوشش کی ۔ اس کے بارے میں دو مختلف واقعات بیان کیے جاتے ہیں؛ ایک کہ انہوں نے مسجد کے مینار سے پرواز کی اور دوسری کہ قرطبہ کے باہر واقع پہاڑ جبل العروس سے انہوں نے پرواز کی اور تقریباً دس منٹ تک ہوا میں گلائیڈ کرتے رہے۔ مگر اترتے ہوئے وہ شدید زخمی ہوئے۔ انکی اس کوشش کے صدیوں بعد ایک ترک مسلمان احمد جلبیی نے1630 یا 1632 میں باسفورس کو گلائیڈ کر کے عبور کیا تھا۔

Ibn Firnas is a lunar impact crater on the far side of the Moon, in honour of Abbas Ibn Firnas, a polymath from Andalucia who, in the 9th century, devised a chain of rings that could be used to simulate the motions of the planets and stars. [Source : Wikipedia]

اشبیلیہ سے نکلتے ہوئے دریائے الکبیر کا پل
دریائے  الکبیر میں کشتیوں کی دوڑ کا اختتامی مقام
 یہ سفر ایک وادی کا سفر تھا، سڑک اوپر نیچے جارہی تھی۔  قرطبہ کے شہر کے قریب اترائی کا سفر تھا۔ راہ میں زیتون کے وسیع و عریض باغات تھے۔ چھوٹا سا جھاڑی کی طرح کا درخت ہے، اور پھل ایسا کہ الہامی کتاب میں ذکر آیا۔ زیتون اسپین کی ایک پہچان ہے اور وہاں سے دنیا بھر کو برآمد ہوتا  ہے۔  وادی میں وسیع میدان تھے، فصل کٹی تھی سو زرد رنگ نمایاں تھا۔ سورج مکھی کے پھولوں کی فصل تیار تھی۔

 خیال کی آنکھ نے صدیوں قبل شاہسواروں کو اس وادی میں گھوڑے دوڑاتے دیکھا، معرکے لڑتے،  بہادروں کو دفناتے، بہتے پانیوں سے وضو کرتے، قبلہ رو سر بسجدہ ہوتے۔ وادی خوبصورت ہے، اس میں بکھری یادیں خوبصورت ترین ہیں۔۔
اشبیلیہ سے قرطبہ کی کھجور کے درختوں سے مزین سڑک
وادی الکبیر۔ قرطبہ کی راہ
وادی الکبیر
قرطبہ کو جاتی پھولوں والی سڑک
سورج مکھی کا باغ -- چلتی گاڑی سے تصویر
وادی میں اتری سڑک ، دائیں جانب زیتون کے باغات ہیں
سڑک کے دائیں جانب سورج مکھی کا باغ اور آگے زیتون کے باغات
زیتون کے نئے باغ کی کاشتکاری
 وادی میں اترتی سڑک اور اس کے ساتھ زیتون کے باغات
بل کھاتی سڑک
وادی کا ایک منظر
سورج مکھی کی فصل
پہاڑوں کو جاتی سڑک
سڑک کے ساتھ زرد رنگ میں فصل کٹنے کے بعد کا کھیت
قرطبہ کو پہنچتی سڑک
قرطبہ میں آمد
قرطبہ کی ایک سڑک
قرطبہ میں ایر۔ بی ۔این بی کی ویب سائیٹ سے ایک اپارٹمنٹ بُک کروایا تھا۔ ڈھونڈتے وہاں پہنچے۔ ساتھ کی گلی کا نام گلی یوسف تھا۔ سو پتا لگا کہ قرطبہ میں مسلمان تو نہ رہے مگر نام اور نشان جابجا باقی ہیں۔ اپارٹمنٹ پہنچے تودیکھا کہ دروازہ کھول کر ایک نشست گاہ ہے جس کے کونے میں ایک کچن ہے، ایک دروازہ وہیں سے ٹوائلٹ میں کُھلتا ہے اور دوسرا دروازہ ایک کمرہ میں جاتا ہے جس میں اوپر نیچے دو بیڈ ہیں۔ دو دن کے قیام کے لیے یہ اپارٹمنٹ ٹھیک تھا۔ علاقہ متوسط طبقے سے نیچے کا لگا۔ زیادہ تر گھر، اپارٹمنٹ یا کھولیاں جو مرضی کہہ لیجیئے ایک منزلہ ہی تھے۔ گلی گو بہت چوڑی نہ تھی مگر دونوں جانب کچھ فاصلے کے بعد درخت لگے تھے۔ شام کو لوگ گلی میں کرسیاں ڈال کر بیٹھے تھے، گپ شپ چل رہی تھی، گرمی سے بھی کچھ بچاو ہو رہا تھا اور سب سے بڑھ کر تنگ گھر سے نکل کر کچھ وسعت کا احساس بھی  ہوپاتا۔ مسافر کے ذہن میں اندرون لاہورکی گلیوں کا منظر تھا یا پرانی انارکلی میں واقع وہ قدیم احاطہ جہاں اُس نے بچپن کا کچھ وقت گذارا تھا۔ چھوٹی چھوٹی کھولیاں اور کمرے احاطے کے اردگرد تھے کہ شام کو سب لوگ نکل کر احاطے میں آجاتے تھے۔ درمیان میں ایک پرانا کنواں تھا جس کا پانی  عرصہ ہوا ختم ہوگیا تھا۔ 

مسافر انارکلی سے واپس قرطبہ آگیا۔ ایک عورت کو دیکھا کہ گھر کی نشست گاہ میں ٹی وی لگا کر باہر گلی میں کرسی پربیٹھی اندر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ جبکہ ہمارے اپارٹمنٹ کے ساتھ کے دروازے کے باہر ہوا بھرے ٹیوب کے چار پانچ فٹ کے گول سوئمنگ پول میں ایک چھوٹی بچی پانی سے کھیل رہی تھی ۔ سوئمنگ پول کے ساتھ ہی اس کی ماں ایک کرسی پربیٹھی تھی۔ ماں کے جسم پر کئی ٹیٹو بنے ہوئے تھے اور وہ سگریٹ کا دھواں لگاتار اُگل رہی تھی۔ 

گلی ِ یوسف جہاں اب کوئی اُس نام کا نہ تھا، دھواں اگلتی ماں، پانی میں کھیلتی بچی کی ہنسی، پرانی انارکلی کا احاطہ، قرطبہ کی فضا میں چھپی اداسی ۔۔۔۔ مسافر کے اندر بہت کچھ گڈمڈ تھا اوراُسکی آنکھوں کے سروں پر نمی تھی۔ نمی ؟ یا شاید، شاید نہیں بلکہ یقیناً یا شاید وہ اُس بچی کا ہنستے ہوئے اچھالا پانی تھا، مسافر کو کچھ علم نہیں۔ قرطبہ کی فضا میں کچھ ہے، کچھ ان کہا، کچھ کہتا ہوا، کچھ بھی نہ کہتا ہوا بس ساتھ چمٹ جاتا۔ بوجھ کیا جسم ہی اٹھاتا ہے؟ بوجھ تو روح بھی اٹھاتی ہے۔ اور روح کا بوجھ اتارا نہیں جاسکتا، چمٹ جاتا ہے ہمیشہ کی لیے، پیوند لگے پیڑ کی مانند، اپنے پھول کِھلاتا، اپنا پھل دیتا۔ 

 قرطبہ  میں ہمارا پڑوسی لڑکا
قرطبہ میں ہمارا ٹھکانہ
گلی میں ایک پڑوسی مکان
گلی یوسف، قرطبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلی کے پہلے مکان پر گلی کا نام لکھا ہے



ہماری گلی
ہمارے سفر کا ساتھی


سامان رکھا اور قرطبہ کے اندرون شہر کو نکل پڑے۔ پرانے   شہر کی تنگ گلیوں میں پھرے۔ ایک گلی اب بھی کسی اعلی  مرتبت کے نام پر المنظور تھی۔ باسی نہ رہے مگر نام کی صورت اپنی باس چھوڑ گئے۔ 
  اندرون قرطبہ میں کھڑکیاں اور چقیں
قرطبہ میں طرز تعمیر
یہودی علاقے قرطبہ میں ایک گلی اور اس کا فرش
یہودی علاقے  قرطبہ میں ایک اور گلی
پرانا قرطبہ
اندرون قرطبہ اور مسافر 
بل کھاتی گلی
اندرون قرطبہ اور سیاح
قرطبہ کی ایک صدیوں پرانی ایک گلی
اندرون قرطبہ میں گلی المنظور
 چلتے چلتے قرطبہ کی یونیورسٹی کا شعبہ فلسفہ آگیا۔ یہ شعبہ قرطبہ کے اندرون شہر میں واقع ہے جبکہ باقی شعبہ جات دوسرے علاقوں میں ہیں۔

مسافر قرطبہ کی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے سامنے

اس شہر کا ایک فرزند ہے کہ فلسفہ میں ایسا نام پیدا کیا کہ  ہمیشہ کے لیے زندہ ہے اور اندرون قرطبہ کی فصیل پر اس کا مجسمہ آج بھی نصب ہر آتے جاتے کو اس کی یاد دلاتا ہے۔ 1126  میں قرطبہ میں ابو الولید محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی پیدا ہوئے۔ مسلم دنیا آج انہیں ابن رشد کے نام سے جانتی ہے، جبکہ مغربی اقوام انہیں
کے نام سے پکارتی ہیں۔ Averroes
قرطبہ میں ابن رشد کے مجسمے کے ساتھ
ابن رشد ایک فلسفی، ماہر فلکیات، ریاضی دان، طبیب، قاضی  زبان دان اور مذہبی سکالر تھے۔ انہوں نے یونانی فلسفی ارسطو کےفلسفے پر بحث کی اور کئی کتابیں لکھیں۔ اسلامی دنیا اور بعد میں یورپ کو ارسطو سے اُن کی تحاریر نے روشناس کرایا۔ اس کے علاوہ افلاطون کی کتاب "ری پبلک" پر بھی انہوں نے تحقیقی کام کیا۔  کتاب ری پبلک 380 قبلِ مسیح  میں لکھی گئی تھی، جس میں افلاطون نے عدل، انتظام، ریاست اور فرد کے کردار پر بات کی ہے۔ یہ فلسفے اور سیاسی نظریے پر تاریخ اورانسانی فہم کا ایک بہت بڑا کام تھا، اور ابن رشد نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ ابن رشد نے فلسفے  اور شریعت میں تعلق پر کام کیا۔ ان کے نزدیک اسلامی احکامات فلسفے کی رو سے قابلِ بحث ہیں، یہ دین کے ماہرین خصوصاً امام غزالی کی تعلیمات سے مختلف تھا۔ نیز ابن رشد  نے وحی اور منطق کے تعلق کی بات کی۔انکی تصنیفات کی   تعداد کا حتمی علم نہیں کیونکہ انکی کتب کو جلادیا گیا تھا۔ فرانسیسی محقق ارنسٹ ریناں کے مطابق انہوں نے 67 کتابیں لکھیں جن میں 28 فلسفے پر، 20 طب پر، 8 علمِ قانون پر ، 5 علمِ مذہب پر اور 4 علمِ زبان پر تھیں۔ گمان ہے کہ انکی تحریر کردہ کتب کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔ یورپ میں پڑھائے جاتے وقت ابن رشد کے تحریروں پر کیتھولک چرچ نے بھی اعتراض کیا۔

اندلس کی سرزمین کا ایک اور بڑا نام ابن عربی ہے۔ ابن عربی ایک صوفی، شاعر اور فلسفی تھے جو 1165 عیسوی میں اندلس میں پیدا ہوئے۔ صوفی طریقت میں وہ شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ محی الدین یعنی جس نے دین کا احیاء کیا۔  انہوں نے 800 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ ان کی کتاب فصوص الحکم تصوف پر ایک اہم ترین کتاب شمار ہوتی ہے۔  

قرطبہ علم و ہنر کایورپ میں سب سے بڑا مرکز تھا ۔1236  عیسوی میں قرطبہ شکست کے بعد عیسائی سپین کا حصہ بن گیا۔ اُس شہرِ بیمثال نے پھر لوٹ اور تباھی کا دردِ بے کراں سہا۔ تاریخی عمارتیں تباہ کر دی گئیں، قیمتی نقش و نگار لوٹ لیے گئے، لائبریریاں جلادی گئیں، مسلم اور یہودی آبادی یا تو  قتل کر دی گئی یا پھر  مذہب کی تبدیلی پر مجبور کردی گئی۔

آج اگر کوئی عمارت باقی ہے تو وہ مسجدِ قرطبہ ہے؛ وہ جس کے ستوں بےشمار، وہ جس کی خونِ جگر سے نمود، وہ جو ہے معجزہ ہائے ہنر، وہ جس کا عشق سے وجود۔  وہ جس کے ایک سو آٹھ فٹ اونچے مینار سے اذان کی آواز بلند ہوتی تھی تو وادی الکبیر کسی اور جہاں کا منظر پیش کرتی تھی، وہ جس کے ہال جتنا بڑا کمرہ  دنیا کی کسی اور مسجد میں نہ تھا،  وہ جہاں عالم علم بانٹتے تھے اور طلبہ علم سمیٹتے تھے۔ آج وہ  اپنے ماضی کا ایک دھندلا عکس پیش کرتی ہے۔ وہ تباہ نہ ہوئی کہ مسلم آبادی کی طرح اسکا بھی مذہب بدل دیا گیا۔ آج وہ علم ہنرکی شناخت ایک چرچ ہے۔ اس میں عیسائیت کے نشاں نصب کر دیے گئے، مجسمے گاڑ دیے گئے، مینار میں گھنٹیاں لگادی گئیں۔ مگر ظاہر بدلنے کے باوجود بھی ایک باطن کا رنگ ہے، کسی عالم کی خوشبو ابھی بھی وہیں ہے، صدیاں گذرنے کے باوجود اذاں کی آواز ابھی بھی وہیں بے آواز گونج رہی ہے، پیاسے طلبہ کا ہجوم اب بھی وہاں بیٹھا ہے، اورایک گرد آلود مسافر بھی اس صف میں کہیں آخر میں دو زانو ہے۔ اپنے روحانی استاد کی مانند دل میں صلوت و درود، لب پہ صلوت و درود۔

قرطبہ پہنچنے کے بعد شام کو پرانے شہر کو نکل پڑے۔ وہاں عرب اور یہودی رہائشی علاقے دیکھنے کے قابل ہیں، تنگ گلیاں، بالکنیاں اور پتھروں سے بنی گلیاں۔ مسجدِ قرطبہ بند تھی سو اس کے پاس سے گذر کر دریا کا پل عبور کیا۔ پل پر مختلف چیزیں بیچنے والے دکاندار اور ایک موسیقاروں کا گروپ تھا۔ ایک خطاط اندلسی رسم الخط میں نام لکھ کر سیاحوں سے پیسے کما رہا تھا۔ پل پرایک عورت کا مجسم بھی ایک جانب بنا ہوا تھا۔ وہ کوئی مذہبی شخصیت تھی۔اس کے مجسمے کے سامنے چراغ جل رہے تھے اور اس کے قدموں میں پھول پڑے تھے۔ ہمارے سامنے سے ایک ادھیڑ عمرہسپانوی عورت پل سے گذرتے گذرتے اُس مجسمے کے  سامنے رکی، سینے پر صلیب کا نشان بنایا اورآشیرباد لے کر  چل پڑی۔ سپین میں جابجا لوگوں کو کھلے عام اپنے عیسائی مذہبی عقائد کا اظہار کرتے دیکھا۔ یورپ کے باقی علاقوں میں یہ نہ دیکھا تھا، شاید اسکی وجہ تاریخی ہے کہ وہ لوگ جن کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا تھا، انہیں اپنے نئے مذہب کا دوسروں کے سامنے اظہار کرنا تھا۔ زندہ رہنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ 
 [ قرطبہ میں دریا پر پل اور اس سے آگے مسجد قرطبہ کا عقب [یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے

پل سے گذر کر ایک ریسٹورنٹ میں کافی پی۔ کچھ مقامی پولیس کے اہلکار بھی وہاں کافی پی رہے تھے۔ اپنے ملک کے لحاظ سے بغور دیکھا کہ انہوں نے قیمت بھی ادا کی۔ فٹ بال ورلڈ کپ کا کواٹر فائنل روس اور کروشیا کے درمیان ہو رہا تھا، سو وہیں ریسٹورنٹ میں بیٹھے میچ دیکھا۔ اس کے بعد واپس اپنے ٹھکانہ کو ہو لیے۔ جلدی سو گئے کہ اگلے دن جلد اٹھ کرمسجد قرطبہ جانا تھا۔ 


قرطبہ کی ایک دکان میں مختلف رنگوں کی ٹائلز
دریا کے کنارے ایک یادگار
Gate of the Bridge مسجد قرطبہ سے دریا کو جاتے
دریائے قواعد الکبیر

مسجد قرطبہ کا عقبی دروازہ
Gate of the Bridge مسجد قرطبہ سے دریا کو جاتے ہوئے

دریا قوائد الکبیر
دریائے قوائد الکبیر کے پل کا ایک ستون
مسجد قرطبہ کے عقب کی دریا کی جانب سے تصویر۔ 
دریا قوائد الکبیر
دریا کے پل پر ایک مذہبی مجسمہ اور اس کے آگے چراغ
کافی ٹائم
روس اور کروشیا کا کواٹر فائنل، قرطبہ کے پل کے ساتھ کے ریسٹورنٹ میں
مسجد قرطبہ کا ایک بند دروازہ اور صدیوں سے بنےنقش
مسجد قرطبہ کے دروازے کی ایک شام کو لی گئی تصویر
مسجد قرطبہ کے دروازے پر گھوڑے کے نعل کی طرح کا ڈیزائن
مسجد قرطبہ کا مینار جہاں اب گرجے کی گھنٹیاں لگی ہیں
شام کو پرانے قرطبہ میں سیاح
پرانے قرطبہ کی ایک گلی
پرانا قرطبہ کے مکانات
قرطبہ میں ہمارے ٹھکانے کی گلی
قرطبہ شہر کا ایک چوک
مسجد قرطبہ اگلے دن جانا تھا۔ عقیدت مند صبح صبح اٹھا، نہایا، باوضو ہوا کہ زندگی کی ایک بڑی خواہش پورا ہو رہی تھی۔ صدی قبل استادِ روحانی اس علاقے سے گذرتے کہہ گئے تھے، "مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں"۔ گہنگار بھی اُس سفر کی تقلید میں حاضر تھا، یوں کہ دل میں صلوۃ و درود لب پہ صلوۃ و درود۔
ٹکٹ انٹرنیٹ سے کئی دن پہلے ہی خرید لی تھی، کیونکہ پتہ لگا تھا کہ ٹکٹ عین وقت پر نہیں ملتی اور ہم تومسجد  دیکھنےکی خواہش سے ہی اندلس آئے تھے۔ مسجد کے باہر کے دروازے سے داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک وسیع صحن ہے جس میں مختلف درخت لگے تھے، صحن کے درمیان میں  ایک فوارہ تھا۔ صحن کے ایک طرف سے مسجد میں جانے کا راستہ تھا جبکہ دوسری جانب بلند مینار تھا جو کبھی موذن اذان  کے لیے استعمال کرتا تھا۔ مینار کے اردگرد ابابیلیں بےچین چکر پر چکر لگاتی اڑ رہی تھیں، ساتھ ساتھ انکی تیز آوازیں فضا میں گونجتی تھیں۔  

مسجد کے اندر پہنچے تو مسجد کی ہیئت بدل چکی تھی، صلیب و مجسمے پیوست تھے۔ گھنٹیاں بج رہی تھیں، چرچ کی عبادت  شروع ہونے کوتھی۔ سیکورٹی کے افراد مسجد میں ہرجگہ کھڑے ہیں، ہر ایک پر نظر رکھے۔ مسافر محراب کی تلاش میں تھا۔ وہ جہاں قبلہ رو ہوکر امام کھڑا ہوتا تھا اور مقتدی ایک جہاں تھا، عالموں، فلسفیوں، ہنرمندوں، بہادروں، عقیدتمندوں، عاشقوں کا جہاں کہ مسافر کا استاد و مریدِ رومی کہہ گیا تھا کہ "اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود" ۔ عاشق اب محراب کی تلاش میں تھا۔
مسجد قرطبہ
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار 
مسجد قرطبہ
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار
مسجد میں مجسمے لگائے گئے ہیں
کوئی نشاں نہ تھا، کوئی رہنما نہ تھا، قبلہ رو مسجد یوں تبدیل کی گئی تھی کہ سمت کا نہ پتہ لگے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر محراب تک جاپہنچے۔ آگے راستہ بند کیا گیا تھا کہ سیاحوں میں شامل کوئی عاشق ہوش سے نہ بیگانہ ہو جائے۔ محراب صدیوں سے ویران تھی۔ جہاں بیٹھ کرعلم کا فیض بہتا تھا، وہ دھارے خشک تھے۔ کیا کیا نہ جبینیں یہاں سجدہ ریز ہوئیں، آنسووں سے دھلا فرش صدیوں سے پیاسا تھا۔ مسافر کے پاس نذر کرنے کو کچھ بھی نہ تھا سوائے دلِ مضطرب اور آنکھوں کے آنسو کے۔ محراب کے سامنے جنگلے کے ساتھ لگ کر مسافر نے دو نفل نیت کر لیے، قبلہ رو، دل گداز، آنکھ پُرنم۔ کھڑے کھڑے دو رکعتیں ادا کیں۔ خیال کسی اور جہاں میں لے جاتا تھا، ایسا جدھر ہمراہی وہ تھے جنہوں نے تربیتِ شرق و غرب کی۔ آنکھ کھلتی تھی تو حقیقت سامنے تھی۔ حقیقت جو تلخ تھی،جرمِ ضعیفی کی سزا، نسلوں کو اجاڑتی، سزا دیتی، روح کو تار تار کرتی۔
قرطبہ مسجد کا نقشہ، لکھا ہوا ہے مسجد کھتیڈرل یعنی چرچ
مسجد قرطبہ کی بیرونی  دیوار
قرطبہ کی مسجد کا ایک بند دروازہ
مسجد قرطبہ کے ایک دروازے پر نعل کی شکل کا ڈیزائن
دروازے پر نعل کا ڈیزائن  اور اوپر محرابیں
مسجد قرطبہ کا صحن
مسجد قرطبہ کے صحن کے ساتھ کا برامدہ
مسجد قرطبہ کا صحن اور اس کے درمیان میں فوارہ
مسجد قرطبہ کا صحن
مسجد قرطبہ کا صحن
مسجد قرطبہ کے صحن میں حوض اور فوارہ
مسجد قرطبہ کا مینار جو اب چرچ کا گھنٹہ گھر ہے
مسجد قرطبہ کے مینار کی ایک اور تصویر
مسجد قرطبہ کے مینار میں جانے کا راستہ
مینارِ مسجد، گھنٹیاں اور کھجور کے درخت

مینار کے اردگرد اڑتی ابابیلیں
مسجد قرطبہ
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار 
مسجد قرطبہ
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار
مسجد قرطبہ میں محراب-- یہ جگہ بند ہے کہ وہاں نہیں جاسکتے
مسجد قرطبہ میں محراب کے اوپر قرانی خطاطی

محراپ کی قریب سے تصویر، قرانی آیات کی نقش کاری
محراب کے ساتھ کے ڈیزائن
محراب کے ساتھ چھت پر نقش و نگار
محراب کی ایک اور تصویر
مسجد کے تعمیری نقش

مسجد قرطبہ میں دیوار اور چھت
چھت کا ایک حصہ
ایک راہ پر نعل کی شکل کی قوس
ایک دروازے کے اوپر جالی میں کلمہ طیبہ لکھا ہے
چھت کے نقش و نگار
چھت کے نقش و نگار
محراب کی ایک اور تصویر
محراب کےساتھ کا ڈیزائن
محراپ اور اس کے ساتھ کے ستون اور ڈیزائن
اگلی تصویر مسجد قرطبہ میں محراب کے بالکل سامنے کی ہے۔ محراب پر سنہرے رنگ میں قرانی آیات لکھی ہیں۔ سیاہ اور سنہرے رنگ کے فرق سے الفاظ ابھرے ہیں۔ محراب کے اوپر گھوڑے کی نعل کی شکل کی قوس ہے۔ سامنے کے ستونوں پرقواسین کو جوڑ کر خوبصورت ڈیزائن بنایا گیا ہے۔
ستونوں سے عبارات مٹ چکی ہیں مگر پھر بھی کچھ ستونوں پر کلمہ لکھا نظرآیا۔ ایک ستون پر شاید عزت اللہ سے ملتا جلتا مضون بھی لکھا نظر آیا۔ 

محراب کے سامنے کی تصویر
محراب کی دائیں طرف سے تصویر
محراب کی ایک اور تصویر
محراپ کی راہ بند یے
مسجد کا ایک منظر
مسجد قرطبہ کی چرچ میں تبدیلی 
مسجد قرطبہ میں عیسائیت کے مجسمے
 مسجد قرطبہ کی چرچ میں تبدیلی
مسجد قرطبہ میں صلیب 
مسجد میں چرچ کا علاقہ
مسجد میں اوپر کی منزل، گمان ہے کہ یہ بعد میں شامل ہوئی
مسجد میں اوپر کی منزل، گمان ہے کہ یہ بعد میں شامل ہوئی
مسجد میں تبدیل شدہ حصہ جہاں عیسائیت کے مجسمے اور تصاویر لگائی گئیں
پادری کے بیٹھنے کی جگہ
دائیں جانب مذہبی شبیہات 
مسجد کی ایک اور تصویر
دیوار پر مذہبی شبیہہ
ستون اور قوسیں
ستون پر کلمہ طیبہ لکھا ہے
  لا الہ اللہ محمد رسول اللہ ستون پر کنداں ہے
مسجد کا ایک اور منظر
مسجد کے کونے کونے میں سیکورٹی کے لوگ پھرتے تھے۔ مسافر کو سجدے کی شدید خواہش تھی سو ایک کونے کی جگہ پرجاکراوٹ لی اورقبلہ رو ہوکر سجدہ ریز ہوا، سبحان ربی الاعلی، سبحان ربی الاعلی۔
تصویر کھینچنے والے کے ہاتھ بھی لرز رہے تھے۔ 


سجدہ عقیدت کہ سب دھندلا ہے

مسجدِ قرطبہ میں سجدہِ عقیدت
مسجد قرطبہ اور چرچ کا امتزاج

مسجد قرطبہ کے ستون
مسجد قرطبہ کے ستون

مسجد قرطبہ 

مسجد قرطبہ
مسجد قرطبہ

مسجد قرطبہ
مسجد قرطبہ میں چرچ کی علامات
یہ چھت چرچ کے حصے میں  ہے 
مسجد میں عیسائیت کے نشانات
مسجد قرطبے کی ایک راہ
مسجد قرطبہ
مسجد کے ایک حصے کے ستون
مسجد کا عقبی حصہ
مسجد کا عقبی حصہ
مسجد کا عقبی حصہ
مسجد کا عقبی حصہ
مسجد قرطبہ کی محراب، یہ حصہ کی رسائی بند کردی گئی ہے
مسجد قرطبہ کا تعمیری حسن
مسجد قرطبہ میں چرچ
مسجد میں صلیب



 مسجد قرطبہ میں منبر کے حصے کی تلاش تھی۔ کافی ڈھونڈنے کے بعد  ملی۔ اس حصے کی رسائی بند تھی سو مسافر نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر تصور میں دو نفل ادا کیے۔ رکوع، سجود، قیام سب تصور میں تھا، حقیقت تھی تو سامنے مسجد قرطبہ کا منبر۔

کیا لمحہ تھا، کیا رسائی تھی، کیا بے چارگی تھی۔

مسجد سے نکلے اور قرطبہ شہر کے نواح میں واقع مدینہ الازھرہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔  مدینہ الازہرہ قرطبہ شہر کے باہر خلیفہ کا بسایا شہر تھا، پہاڑوں کے دامن میں، خلیفہ کی رہائش گاہ اور شاہی دفاتر تھے۔  وہاں کی تفصیل درجِ ذیل لنک پر ہے۔ 


کچھ مزید اب تک کی تصویریں پیش ہیں۔


مسجد قرطبہ کا عقبی حصہ
مسجد قرطبہ کا عقبی دروازہ

مسجد قرطبہ کا عقبی حصہ

مسجد قرطبہ کا عقبی منظر
مسجد قرطبہ کا داخلی باغ
باغ اور مسجد قرط کا مینار جو اب گرجے کی گھنٹیاں رکھے 


مسجد قرطبہ سے دریا کو جاتے تاریخی دروازہ

دریا ئے الکبیر پر پل
مسجد قرطبہ کے ساتھ بہتا دریا

مسافر
دریا اور مسجد کا عقبی  منظر
پل
ایک گلی
دریا اور مسجد کا عقبی منظر
دریا
دریا اور اس کے درمیان ایک قدیمی عمارت
پل کے ساتھ بیٹھے موسیقار



عربی نام اب بھی نظر آجاتے ہیں مثلاً یہ  اظہار نام کی دکان
پل کے پاس ایک گرجا

ایک گلی
راستہ
راہ
ایک یادگار
پانی کا فوارہ
گلی اور مسافر
پرانی گلی اور نئی گاڑی

مدینہ الازہرہ ، قرطبہ کا لنک درجِ ذیل ہے۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com



















Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر