ایک ورق

اوراق منتشر
قسط 3
تحریر : عاطف ملک

عرصہ پہلے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئج میں جرمن زبان سیکھنے پہنچے۔ قومی سطح پر مقابلے کے امتحان کو پاس کیا تھا، دو سال اس امتحان کی تیاری میں لگے تھے۔ امتحان امریکی بورڈ نے لیا تھا، نام تھا جی۔ آر۔ای انجینئرنگ۔ ہم نے امتحان دیا تھا، انہوں نے ڈالر لیے تھے۔ نوکری کی تو   بعد میں پتہ لگا کہ ایسے بھی ہیں جو ڈالردینے کی بجائے لینے کے اوصاف رکھتے ہیں مگر دیر یا سویر کسی کڑے امتحان کا ضرور سامنا ہوتا ہے۔

 اس امتحان میں اندازاً  بیس پچیس کے قریب انجینئرنگ کے مضامین میں سے پرچہ آتا تھا، وقت کم ہوتا اور جواب کثیر  انتخابی یعنی ملٹیپل چوائس ہوتا سو ہر جواب درست لگتا۔ ایک آوارہ ریڈار یونٹ میں نوکری تھی سو اندرون سندھ  پھرتے رہتے تھے۔ ایک فوجی ٹرنک ہمیشہ ساتھ ہوتا تھا۔ کپڑے بیگ میں ہوتے تھے، ٹرنک انجینئرنگ کی کتابوں سے بھرا تھا۔ کتابیں نیوی انجینئرنگ کالج کی لائبریری سے بھائی کے نام پر نکلوائی تھیں۔ صحرا تھا، ویرانہ تھا، ْقصبہ تھا، آستانہ تھا، خیمہ لگتا تھا، وقت نکلتا تھا، ٹرنک کھلتا تھا اور کتاب کھلتی تھی۔ پہلے سال امتحان دیا، پاس کر لیا، مگر درخواست سرکار نے آگے نہ جانے دی کہ ابھی  نوکری میں عمر کم تھی۔ ملکی سطح پراس مقابلے کا نتیجہ اخبار میں آیا تو اپنے سے بھی ایک کم عمر کا نام فہرست میں پایا۔ پتہ لگا کہ نوکری کے ترازو  میں عمر کی کمی  کسی بڑے عہدے کے وزن کو جوڑ کر زیادہ کر لی جاتی ہے۔ کتابی نے ساری عمر انجینئرنگ کے ساتھ ادب  پڑھا تھا، اب  بے ادبی اور زندگی پڑھنے کو ملنے لگی۔

ماں کی صورت ایک عورت تھی جس نے مثال سے سمجھایا تھا کہ ہمت نہیں ہارنی، گر کر پھر کھڑے ہونا ہے۔ اگلا سال مزید ٹرنک کے ساتھ گذرا۔ دوبارہ امتحان کے لیے امریکی ڈالر ادا کیے۔ نتیجہ پچھلے سال سے کہیں بہتر آیا۔ عمر بھی ایک سال بڑھ گئی تھی، سو  درخواست منسڑی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پاس بالآخر پہنچی کہ قومی سطح کا چناو تھا اور وظیفہ انہوں نے ہی دینا تھا۔

سو اس ٹرنک ریزی بوزن عرق ریزی کی بدولت جرمن زبان سیکھنے پہنچے۔ محکمے نے حسبِ سابق اعتراض لگا دیے تھے کہ کبھی عمر کم کبھی زیادہ ہے، کبھی کہا آپ ہی تو وہ گوہرِ نایاب ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ بھائی، امتحان سے پہلے ہمیں کہتے کہ تو محبوب ہے۔ اب جب تیشے سے دودھ کی نہر نکال دی تو کہتے کہ تو مزدور نہیں۔شیریں اور لیلی کو چھوڑ، ہم نے لیلے خریدے ہیں، انہیں گن۔ ہم نہ مانتے تھے، سو اسی تو تو میں میں  میں جرمن زبان کے کورس کے چار ہفتے نکل گئے، اور ہم درخواست اٹھائے ایک دفتر سے دوسرے دفتر،  ایک لیلے سے دوسرے لیلے کے در پر تھے۔ چار ہفتوں بعد کورس پر جانے کی اجازت ملی۔
  
 جرمن سخت زبان تھی، اخ اخ کرتی۔ فرنچ ڈیپارٹمنٹ کے پاس سے گذرتے تو خوشبووں کے لپٹے آرہے ہوتے۔ کئی استانیاں ایسی کہ پتہ لگا کہ فرانسیسی سننے کی ہی نہیں دیکھنے کی بھی زبان ہے۔ ایک دوست کے مطابق فرانسیسی حواس خمسہ کی پانچوں حسیات یعنی سننے، دیکھنے، سونگھنے، چکھنے اور لمس  کے استعمال سے ہی درست سیکھی جاسکتی ہے۔ 

جرمن زبان سیکھنے پہنچے تو  پورے ملک سے منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چنےمختلف علاقوں اور مختلف یونیورسٹیوں سے پڑھے لڑکے تھے؛ عینکیں لگی، پتلے دبلے، پڑھائی کی مار مارے۔ زبان کی پڑھائی شروع ہوئی تو جیسے وہ دوسری کتابیں چاٹ کر آئے  تھے، وہ جرمن زبان کو جا پڑے۔ باقی کلاس کہیں پیچھے رہ گئی۔

جرمن زبان سیکھنے فوج سے کچھ ہم عمر کپتان بھی تھے، اورایک فضائیہ کا ہواباز سینے پر چڑی لگائے تھا۔ کپتان کلف شدہ یونیفارم میں آتے، مونچھوں کے بل اوپر کو اٹھے، ٹخنوں تک پہنے کالے پالش سے چمکتے چمڑے کے جوتے۔ پیدل فوج کے شاہسوار تھے، جرمن زبان کے ڈیپارٹمنٹ میں طمطراق سے چلتے ۔ عموماً نگاہ اونچی رکھتے تھے، سوائے جب کوئی لڑکی آس پاس سے گذرتی۔

بچپن سے شلوار قمیض پسند تھی، سو سفید  شلوار قمیص میں ڈیپارٹمنٹ جاتا۔ کیونکہ دیر سے کورس شروع کیا تھا سو  دوسرے دن ساتھ بیٹھے بانکے سے پوچھا کہ یہ منسڑی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سکالرز کونسے ہیں۔ رعونت سے کہنے لگا کہ یہ تمام چار آنکھوں والے عینکو جو بیٹھے ہیں وہ سکالرز ہیں۔ برا لگا، غرور کیسا جب خدمت کا جذبہ ہو۔ پہلے سے ہی احساس تھا کہ غرور و بدتمیزی کسی طرح تربیت میں شامل ہے۔ ہمارے ساتھ بھی محکمے کے عہدے کا دم چھلا لگا تھا، اتارکرایک طرف رکھ دیا۔ ابا کو شوق تھا کہ لڑکا افسر ہے، گھر کے باہر بورڈ لکھوا کر لگوادیا تھا۔ مڈل کلاس ویسے ہی ڈرے لوگ ہوتے ہیں، سرکاری محکمے نہ تنگ کریں، پولیس کا کھٹکا نہ ہو، محلے میں عزت قائم رہے۔ ہمیں یہ چسپاں ہمیشہ تنگ کرتا رہا، جوانی میں ہی اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ لوگ اسے اونچا ہونے کا ذریعہ جانتے، ہم نے جانا کہ یہ تو بیساکھیاں ہیں، بلند کیا کریں گی بلکہ معذوری ہی ظاہر کریں گی۔ ایک سابقہ پڑھائی کے سبب نام کے ساتھ بعد میں لگا، اُسے بھی اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ سادہ، کسی نومولود کی طرح سادہ ہوگئے۔ اور دنیا کو کسی بچے کے تحیر سے دیکھنا شروع کردیا۔ جہاں دل چاہا ہنس پڑے، جہاں دل غمزدہ ہوا رو دیے، جی چاہا تو تھڑے پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگ گئے، غرض کئی قیدوں سے آزاد ہو گئے، بوجھ اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔

وہ جو صاحب چڑی لگائے تھے، کچھ عرصے میں انہوں نے اپنے سے آدھی عمر کی ایک چڑیا کو چڑی سے شکار کیا۔ چڑیا کے ماں باپ کو کہیں سے خبر ہوگئی۔ بھاگے بھاگے ڈیپارٹمنٹ پہنچے اور چڑیا کے پر کتر کر لے گئے۔ آہ، کم عمر چڑیا  پرواز سے قبل ہی شاید  کسی پنجرے میں قید ہوگئی۔

 اور ہم عینکو کتابوں سے جڑے تھے، اور بچوں کے تحیر سے سب دیکھ رہے تھے۔ 

محکمہ پڑھنے نہ جانے دینا چاہتا تھا۔ گاوں کے چودھریوں کو ڈر تھا کہ غریبوں کے بچے پڑھ گئے تو آنکھیں دکھائیں گے۔ تین ہفتے گذرے تھے کہ حکم ہوا کہ واپس آجاو۔ کتابیں چھوڑی اور نوکر پیشہ واپس ہوا۔

نوٹ: اگلی قسط  آیندہ

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر