علامہ اقبال کو پتلا کردو

نوٹ: یہ ایک پرانا مضمون ہے جس کو علامہ اقبال کی یوم  پیدائش کے لحاظ سے کچھ تبدیل کیا گیا ہے۔
تحریر : عاطف ملک



عاصم ایک بدتمیزآدمی تھا اورمیں اُس کا سٹاف افسر۔ دفاتر میں ایسے لوگ آپ کو ملتے ہیں جو اپنے آپ کو عقلِ کلُ سمجھتے ہیں۔ آپ اِن سے معقول بات کرنے  سے بھی اجتناب کرتے ہیں کہ نہ جانے مزاج پر کیا گراں گذرے اور بے نقط سننے کو مل جائے- معقولیت و نامعقولیت کے فرق سے عاری، عہدے کا نشہ اُن کے سر پر چڑھا ہوتا ہے۔ ماتحت کیا کرے، اگر ان سے بچ کر دن گذار سکے تو بہت اچھا، ورنہ دعائِیں پڑھتے ہی دن گذرتا ہے۔

اُسکی بدتمیزی سے لوگ پناہ مانگتے  تھے۔ می٘ں بھی بعض اوقات زیرعتاب آجاتا تھا، مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ باس کی حرکات تین افراد سے نہیں چھپ سکتیں، ایک اُسکی بیوی، ایک اُسکا ڈرائیور اور ایک اُسکا سٹاف افسر۔ سو اس بنا پر میری کچھ بچت ہو جاتی تھی۔

دفتر کے قریب ہی آفیسرز میس تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا تھا، سامنے پہاڑی سلسلہ تھا، رات کو پورا شہر جگ مگ  نظر آتا تو بڑا خوبصورت منظر ہوتا- یہ خاص الخاٰص جگہ تھی، عام افراد کی پہنچ سے دور۔ جب بھی کوئی غیر ملکی یا اہم سرکاری عہدیدار آ تا تو اس کا بنیادی ڈائنگ ہال  کھلتا- سفید ماربل کی بنی سیڑھیاں جن پر مہنگے پودے گملوں میں بہار دکھاتے، آگے ایک خوبصورت ہال، جس کے وسط میں ایک دودھیا بڑا فانوس چھت سے لٹکتا اور اس کے نیچے فوارہ جس کا پانی فانوس کی روشنی میں عجب منظر پیش کرتا۔ سنگ مرمر کی طرز کی دیواریں جن پر مختلف مناظر کی پینٹنگ لگی تھیں ۔

یہ علم نہیں کہ یہ خیال کس کا تھا، مگر عاصم نے اس کی ذمہ داری اٹھالی کہ جیسے ہی ڈ ائنگ ہال میں داخل ہوں، سامنے قائد ِاعظم، علامہ اقبال اور مینارِ قراردادِ پاکستان کی قدآور تصاویریعنی میورل ہوں۔ جناب، اب ایک ڈھنڈور مچ گیا، آرٹسٹ ڈھونڈو۔ مجھے علم نہیں کون جاوید بھائی کو اس داستان میں لے آیا،  مگر میں نے جب پہلی بار اُنہیں دیکھا تو سمجھ نہ آیا کہ یہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ بمشکل پانچ فٹ قد، دانت پان کی کثرت سےسرخ اور ٹوٹے ہوئے، خستہ حال کپڑے و جوتے، پختہ عمر، بال برسوں سے کنگھی کی آسائش سے محروم ۔ پتہ لگا کہ خود سکھائے آرٹسٹ ہیں، عاصم کو ملنے آئے ہیں۔ عاصم نے جب اُنہیں دیکھا تو برا سا منہ بنایا مگر بولےکچھ نہیں۔

آگے کا پھر علم نہیں کہ جاوید بھائی کو کام کیونکر مل گیا۔ وہ ایک تجربہ کار مصور تھے، استاد اللہ بخش کی طرح خود سکھائے۔ کئی میورل بنا چکے تھے۔ کوئی  تصویر دکھادیں، وہ اس کی چابکدستی سے پینٹنگ بنادیتے تھے۔ کمال کاریگرتھے مگرغربت کے مارے تھے- نہ کوئی ڈپلومہ دکھا پاتے، نہ انگریجی کی مار دے پاتے، نہ کوئی خوبرو خاتون تھے کہ قدردان پاتے۔ رہے نام اللہ کا، صرف فن ہی پاس تھا- میس کی اوپری منزل پرایک کمرہ جاو ید بھائی کا سٹوڈیو ٹھہرا اور انہوں نے وہاں پر کام شروع کر دیا۔ عاصم نے میری ڈیوٹی لگا دی کہ میں اُن کے کام کی رپورٹ دوںگا، سو میں وقتا " فوقتا "چکر لگا کر جاوید بھائی کا کام دیکھتا تھا۔ وہ دن میں بارہ سے چودہ گھنٹے لگاتار کام کرتے۔ بال بکھرے، کپڑے رنگوں سے اٹے، ہاتھ میں برش لیے بڑے کینوس سے نبرد آزما۔ ان کو پیسے اتنے ہی دیے جارہے تھے کہ اُن کا دال دلیا چل سکے۔ جب میرے اُن سے راہ و رسم بڑھے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کے  معاشی  حالات سخت ہیں۔ 

بلاآخر کئی ہفتوں کی محنت کے بعد علامہ اقبال کی پورٹریٹ تیار ہوگئی۔ یہ ایک قدآورمیورل تھا، کوئی بارہ فٹ سے  بھی اونچا۔ میں جاو ید بھائی کے کام سے بہت متاثر ہوا، اقبال کی قدآور شخصیت کے شایانِ شان کام تھا۔ عاصم کو خبر دی تو وہ بھی دیکھنے کے لیے آیا۔ میں اُس کے ہمراہ ایک قدم پیچھے تھا۔ اُس نے تصویر کو دیکھا اور جاوید بھائی کو کہا، "کام ٹھیک نہیں ہے"۔ جاوید نے کہا "سر، بتا دیجیے کیا کمی ہے؟"۔

"دیکھو ، ہمارا ادارہ سمارٹ اور چست لوگوں کا ادارہ ہے، اقبال کو پتلا ہونا چاہیے"۔ "مگر سر، اقبال کی کوئی تصویر اُٹھا کر دیکھ لیں، وہ تو بھاری جسم تھے"، جاوید بھائی کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔ "دیکھو، پیسے ہم دے رہے ہیں اور تصویر ہمارے مطابق بنے گی۔ ویسے بھی میرے باس کا حکم ہے کہ اِس محکمے میں سب سِلم سمارٹ ہوں۔ تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے، علامہ اقبال کو پتلا کر دو"۔ عاصم کا حکمِ نادر شاہی جاری ہوا۔  جاوید بھائی کے چہرے پر غصہ اور مجبوری دونوں عیاں تھے۔

ایک ہفتے بعد میں اورعاصم دوبارہ گئے، تو علامہ صاحب پتلے ہوگئےتھے۔ عاصم نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالی، مگر میں کسی اندرونی اضطراب کا شکار تھا۔  عاصم نے دوبارہ میورل پر نگاہ ڈالی اور چونک کر بولا، جاوید، تم نے پینٹنگ کے نیچے دستخط نہیں کیے"۔ جاوید نے آرام سے جواب دیا، " صاحب، یہ پینٹنگ میں نے نہیں بنائی آپ نے بنوائی ہے، آپ کا نام لکھ دوں؟۔ ویسے بھی مجھے پیسے پینٹنگ کےملے  ہیں، سائن کرنے کے نہیں" ۔ نہ جانے کیوں میرے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی ۔

 اور بعد میں اک سوچ آئی کہ علامہ کو عاصم نے ہی نہیں بلکہ ہر ایک نے اپنی خواہش کے مطابق پتلا کیا ہے۔ ڈکٹیٹر آئے تو  افراد کی گنتی کو ایک طرف کر کے اپنے پسند کی تول کی مجلس لے آئے، سلطانی جمہور نے  نقشِ کہن کو مٹانے کا عندیہ دیا، نعرے لگاتے مولویوں نے علامہ کے اشعار سے توانائی لیکر خوشہ گندم سے کہیں آگے بڑھ کر سرکاری اور انفرادی املاک جلانے کا کام لیا۔ دانشوروں نے وقت آنے پر علامہ کے پورےشعر کو پتلا کرکے دوسرے مصرعے پر عمل کرتے ناداں بننے کو فوقیت دی کہ اُس لمحے  قیام کی بجائے سجدہ زیادہ باعث ثواب تھا۔ کچھ ہی خستہ حال جاوید بھائی کی طرح ہونگے جنہوں نے اقبال کے خودی کے پیغام کو سامنے رکھا، زیادہ تر نےعلامہ کے پیغام کو اپنے مفاد کی نظر کے دائرے میں ہی رکھا۔ اقبال کے پیغام کی بلندی تک  اٹھنے کی بجائے اقبال کی کتربیونت کرکے اسے اپنے کوتاہ قد تک لے آئے۔ 

آج بھی آپ میس کے ہال میں جائیں تو آپ کو علامہ اقبال گہری سوچ میں دکھائی دیں گے، شاید فلسفہ خودی پر سوچ رہے ہونگے۔ ایک قدآورپینٹگ ، بغیر کسی نام کے جوایک چھوٹے آدمی نے بنائی تھی۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر