بلاعنوان

ایک یونیورسٹی میں پڑھانے کو معمور ہوئے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ایک پرانا ہم جماعت بھی ہم سے پہلے استاد کے مرتبے پر تھا۔ ہم جماعت بڑا بیبا تھا؛ ایسا  بیبا کہ نیک بیبیاں بھی مات کھا جائیں۔ وہ جو ہم نے ایک دفعہ دیکھا کہ وہ کلاس پڑھا رہا ہے اورکمرے کی تمام لائیٹیں بند ہیں۔ پتہ لگا کہ کچھ طالبعلم تھکے تھے، انہوں نے درخواست کی کہ آپ لیکچر ضرور دیں مگر روشنیاں نہ جلائیں کہ سونے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ اور استادِ نرم دل مان گیا۔ 

جتنا ہمارا ہم جماعت بیبا تھا ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ اتنا ہی گھاگ تھا۔ اہل زبان تھے بلکہ چرب زبان تھے۔ موقع کی مناسبت سے کبھی چربی لگانے لگ جاتا تھے، اور کبھی آنکھوں میں چربی لے آتے تھے کہ پہچاننے سے بھی انکاری ہوں۔ پاکی داماں کی حکایتیں بہت بیان کرتے تھے۔ 

ایک دن ایک ہاوسنگ سکیم کا اشتہار اخبار میں آیا  کہ قسطوں میں رہائشی پلاٹ کی قرعہ اندازی ہوگی جس کے فارم ایک مشہور بنک کی شاخوں سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک اچھی ہاوسنگ سکیم تھی اور ڈیپارٹمنٹ کے کئی اساتذہ اس میں اپلائی کرنا چاہ رہے تھے۔ اب چونکہ ہمارے شہر میں اس بنک کی برانچ نہ تھی سو ان فارموں کے لیے ایک قریبی بڑے شہر میں اُس بنک کی برانچ میں جانے کی ضرورت تھی۔ ہمارا بیبا دوست ہیڈ کے پاس گیا کہ اُسے دو گھنٹے کی چھٹی چاہیئے کہ وہ فارم لے آئے کیونکہ اُس دن مزید اس کی کوئی کلاس نہ تھی۔ چرب زبان کی آنکھوں میں چربی آگئی اور کہنے لگے کیوں، آپ کو کیا جلدی  ہے۔ ابھی تو آخری تاریخ میں تین دن پڑے ہیں۔ جائیے اپنا کام کریں۔ بیبا چپ چاپ واپس ہوگیا۔

ایک سے دو گھنٹے بعد بیبا کسی اور کام سے ہیڈ کو ڈھونڈ رہا تھا، اور وہ نہیں مل رہے تھے۔ انکے پی اے سے پوچھا کہ صاحب کہاں ہیں۔ تو جواب ملا کہ دوسرے شہر گئے ہیں، کسی ہاوسنگ سکیم کے فارم بنک سے لینے تھے۔ 

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر