ایرپورٹ کا منظر

تحریر : عاطف ملک
نوٹ : اپنے ایک سفری بیگ سے سامان نکال رہا تھا تو ایک پرانی تحریر کے کچھ صفحات سامنے آگئے۔ یہ کسی ایرپورٹ پر انتظار کی کیفیت میں کاغز پر لکھے گئے ہیں۔ کچھ صفحے گم ہوگئے ہیں مگر سوچا کہ جو لکھا ہوا ہے اُسے ٹائپ کرتا ہوں اور دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں کہ کیا کوئی منظر سامنے آتا ہے؟ یہ علم نہیں کہ یہ کونسا ایرپورٹ ہے، مگر اس کا جاننا ضروری بھی نہیں کہ یہ منظر ہر ایرپورٹ کا ہے۔
پچھلے صفحے گم ہوچکےہیں، اگلے صفحے کا بے ترتیب آغاز کچھ یوں ہے۔ 

مشروب کے قطرے اچھلتے دکھائی دے رہے تھے۔
جہاز اڑنے میں ابھی دیر تھی۔ لوگ آآ کر آرام دہ چمڑے کی سیٹوں پر بیٹھ رہے تھے، جبکہ وہ زمین پر ٹانگیں لمبی کیے بیٹھا، کچھ سوتا، جاگتا فلائیٹ کے اعلان کا انتظار کررہا تھا۔ اُس کے بائیں جانب ایک جوان لڑکا بیٹھا تھا، وہ کانوں پر ایر فون لگائے اپنے جہان میں گم تھا۔ لڑکے کے بال سائیڈ سے تراشیدہ تھے، جبکہ سر کے درمیان میں بالوں کی پونی تھی۔ اُس نے ہلکے رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس پر دو مغربی ممالک کے جھنڈے بنے تھے۔ لڑکے کے بازووں پر ایک لڑکی کی تصویر کا ٹیٹو تھا، لڑکی کے ہونٹ سخت سرخ رنگ کے بنے تھے۔ وہ سوچنے لگا، کیا کوئی ہونٹ اپنی سرخی یہاں چھوڑ گئے ہیں؟ یا ہونٹ ہی یہاں رہ گئے ہیں؟ یہ سونے جاگنے کی حالت کے درمیان کیا اوٹ پٹانگ خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ اس نے سر کو جھٹکا دیا۔ 

اگر یہ نوجوان اپنے آپ کو جھٹکا دے تو کیا یہ سرخ ہونٹ گر جائیں گے؟ نہ گریں، بالکل نہ گریں۔  ورنہ یہ تیزی سے اپنا بیگ گھسیٹتی چھوٹی سے چھوئی موئی ایر ہوسٹس اُن کو کچلتی چلی جائے گی۔ ایر ہوسسٹس،  کیا وہ اس حادثے کے بعد رکے گئی؟ یا اُسے اپنی فلائیٹ پر فوراً پہنچنا ہے۔ اگر وہ بھاگ بھی جائے تو کیا ہے۔ اُسے جانے دو، ہر دن اُسے کتنے خبیثوں سے پالا پڑتا ہے، مسکرانا پڑتا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانا پڑتا ہے۔ اگر اس ایر ہوسٹس کا بس چلے تو شاید وہ اپنے ہونٹوں کو بھی جھٹک کر پھینک دے۔ اُس نے اپنے سر کو جھٹکا۔ یہ سونے جاگنے کی حالت کے درمیان کیا اوٹ پٹانگ خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ 

اُس نے ادھ کھلی آنکھوں سے دوبارہ اُس لڑکے کو دیکھا۔ لڑکے کے بازو پر لڑکی سے اوپر ایک خوبرو مرد کا ٹیٹو تھا، مرد جس کے ہونٹوں پر ایک سگریٹ لگا تھا جس کے سرے سے دھواں اوپر کو جارہا تھا۔ وہ سوچنے لگا، کیا ایک ہی بازو پر کھدے دو مختلف ہونٹوں کا آپس میں تعلق ہے؟ سرخ رنگے اور سگریٹ کی راکھ پھینکتے۔ آہ، یہ نوجوان اپنے آپ کو جھٹکا نہ دے ورنہ سگریٹ کی راکھ ایرپورٹ کے شفاف فرش پر گر جائے گی۔ پھر صفائی کون کرے گا؟ یہاں تو کوئی صفائی والا نظر نہیں آرہا، مگر کوئی صفائی کرنے والا ضرور ہوگا۔ کون ؟ شاید میں ہی تو نہیں ہوں؟  اُس نے اپنے سر کو جھٹکا۔ یہ سونے جاگنے کی حالت کے درمیان بھی کیا اوٹ پٹانگ خیالات ذہن میں آتے ہیں۔

اُس کے سامنے ٹریک سوٹ کا اوپر والا حصہ پہنے ایک لڑکی چمڑے کی آرام دہ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس کے قدموں میں اُس کا سامان پڑا تھا؛ ایک رنگ برنگا بڑا بیگ، اس کےساتھ جڑا ایک چھوٹا سیاہ بیگ اور اس پر خواتین والا ہینڈ بیگ دھرا تھا۔ اس کے بے ترتیب بالوں کو یقیناً کنگھی کی ضرورت تھی۔ لڑکی کی آنکھیں اپنے موبائل پر مرکوز تھیں۔ وہ ایک ہاتھ سے اپنے موبائل فون پر ہاتھ کے انگوٹھے سے مختلف سلیکشن کررہی تھی جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ایک ڈونٹ کھارہی تھی، وقتاً فوقتاً اپنے ہونٹوں کو نفاست سے کھولتی اور اس ڈونٹ کو کھاتی تھی۔ اس نے دیکھا کہ اُس کے بائیں جانب ایک پختہ عمر چینی عورت بیٹھی تھی۔ اس کے پاس ہی ایک سخت کور کی ہتھ گاڑی والا چھوٹا سوٹ کیس تھا۔ اس سوٹ کیس کی سطح بہت سخت تھی، مگر سوٹ کیس کا رنگ عجیب سخت مالٹا رنگ تھا۔  پھر اُس نے دیکھا کہ اُس عورت کے جوتے بھی بہت چمکدار تھے، ان پر ستارے اور موتی لگے تھے۔ چینی عورت کسی سے فون پر بات کررہی تھی، دائیں ہاتھ  سے پکڑا فون اس کے کان سے لگا تھا، خوشی اُس کے چہرے سے ظاہر تھی۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے اُس نے ٹانگ موڑ کو دوسری ٹانگ کے نیچے رکھ لی تھی اور پیر کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر وہ بار بار آگے پیچھے حرکت دے رہی تھی۔ جب وہ اپنے جوتے ہلاتی تھی تو روشنی اُن جوتوں پر پڑتی تھی اور اس پر لگے ستارے عجب چمکتے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر ابھی اس سوٹ کیس کی سطح ٹوٹے اور اس سے گول گول مالٹے بن کر ایرپورٹ کی سطح پر بکھر جائیں اور لوگ ان کے پیچھے بھاگنے لگیں اور یہ ڈونٹ کھانے والی اگر یہ مالٹا کھانے لگے تو اُس کے ہونٹ کیسے حرکت کریں گے۔ اُس نے اپنے سر کو جھٹکا۔ یہ سونے جاگنے کی حالت کے درمیان کیا اوٹ پٹانگ خیالات ذہن میں آتے ہیں۔

اس نے شیشے کی دیوار سے سامنے دیکھا۔ دور ایک جہازوں کا ہینگر تھا جس پر سفید رنگ کی ایک تکون بنی تھی جس کے بیچ میں ایک سرخ رنگ کا کینگرو چھلانگ لگاتا نظر آرہا تھا۔ وہ اُس کینگرو کو دیکھنے لگا۔ اُسے لگا کہ  اُس کے آس پاس سب کینگرو ہیں، لمبی چھلانگ لگاتے، اپنی پچھلی ٹانگوں پر زور ڈالتے، سپرنگ کی مانند آگے کو کودتے۔ اُسی وقت اس کے قریب سے ایک ہلکا سائرن بجاتی گاڑی گذر رہی تھی جس پر لائیٹ گھوم رہی تھی۔ اُس پر عمر رسیدہ لوگ بیٹھے تھے، ایک ہاتھ سے اپنی چھڑیاں سنبھالتے اور دوسرے سے گاڑی کی کسی حصے کو پکڑ کر خود کو سنبھالتے۔ وہ سوچنے لگا کیسا اچھا ہو کہ یہ دوسرے ہاتھ سے ڈونٹ کھا رہے ہوں، اور اُس وقت چھلانگ لگا کر کنگرو پہنچ جائیں اور ڈونٹ اُچک لیں۔ کیا ان بوڑھوں کی چھڑیاں انکے ڈونٹ بچا سکیں گی؟ یہ بچاو کی جنگ آخر وقت تک جاری رہے گی۔ اُسے سخت نیند آرہی تھی؛ چھڑیاں، کنگرو، چھلانگ، بوڑھے، نفاست زدہ ہونٹ سب گڈ مڈ تھے۔ یہ سونے جاگنے کی حالت کے درمیان کیا اوٹ پٹانگ خیالات ذہن میں آتے ہیں۔

لوگ اپنا سامان دھکیلتے تیزی سے ادھر اُدھر جارہے تھے۔ سامنے سے لمبی ہیل پہنے منی سکرٹ میں عریاں ٹانگوں والی لڑکی تیز قدم اٹھاتے چلی آرہی تھی۔ اپنے ہونٹوں پر لگی بےترتیب سرخ لپ سٹک کی طرح وہ ایک کنفیوز روح تھی؛ تیز قدم اٹھاتی، اِدھر اُدھر چہرہ گھماتی، تیز تیز پلکیں جھپکاتی۔ اُس نے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ سونا چاہتا تھا، وہ سو نہیں سکتا تھا۔  یہ زمین پر لیٹنا بھی کیا سکون آمیز ہے۔ ٹھنڈی زمین، ٹانگیں لمبی کیے، سر کے نیچے سامان کا بیگ رکھے، کسی رکھ رکھاو کے بغیر لاپرواہ زمین پر پڑے ہونا بھی کیا نعمت ہے۔ زمین ماں کی مانند ہوتی ہے، اس کا آغوش کتنا کھلا ہے۔ اُس نے سوچا کچھ دیر میں میں آسمان پر ہونگا، کیا میں ستارہ بن سکتا ہوں، مگر کیا فائدہ ؟ آخر کار تو مجھے پھر زمین پر ہی آنا ہے۔

مجھے سو جانا چاہیئے، یہ سونے جاگنے کی حالت کے درمیان کیا اوٹ پٹانگ خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ 




Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:


aatif.malikk@gmail.com



Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر