وائرس سکونا – ایک مختصر کہانی

تحریر : عاطف ملک


عجب وبا پھیلی تھی۔  کچھ علاقے بالکل متاثر نہ ہوئے تھے، مگر بعض علاقوں میں ناقابلِ بیان دہشت کا عالم تھا۔ ایسا وائرس پھیلا تھا کہ لوگ بات کرتے تھے اور بونے ہوجاتے تھے۔ مگر ایک عجب بات تھی کہ یہ وائرس ایسا تھا کہ سب چھوٹے نہیں ہوتے تھے۔ کئی لوگ باتیں کرتے رہتے تھے مگر انکا قد چھوٹا نہیں ہوتا تھا۔ خوانچہ فروش، مزدور، نانبائی، کوڑا اکٹھا کرنا والے سب اپنی جسامت میں رہ رہے تھے۔ گپیں لگا رہے تھے اور خوش تھے بلکہ گمان ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ بول رہے تھے۔   

عجب معاملہ تھا کہ کچھ شعبوں کے لوگ بری طرح متاثر ہوئے تھے؛ ٹی وی پر بےلگام چرب زبانی سے اپنا قد بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اینکر پرسن، جھوٹ کے پلندوں سے اپنی لیاقت کا اظہار کرتے کالم نگار، نوکری کے قصوں کی بیساکھیوں سے اپنی قامت کو اونچا کرتے ریٹائرڈ بیوروکریٹ، دوسروں کی بات کو بار بار کاٹ کر اپنی بہادری کی طومار لگاتے ریٹائرڈ جرنیل، اپنی مخفی کرامات کو آشکار کرتے مزاروں کے سجادہ نشین، چاپلوسوں اور سرکاری فنڈ سے اپنے نام کو مشہور کرتے سیاست دان ؛ سب بری طرح اس وائرس کی لپیٹ میں تھے۔  ان میں سے کوئی قصہ شروع ہی کرتا تھا کہ اسکا قد ٹھگنا ہوجاتا تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ٹھگنے نہیں بلکہ وہ اپنی اصل قامت کے ہوجاتے تھے۔

انہوں نے منہہ پر ماسک لگائے کہ وہ بات نہ کریں مگر پھر بھی عادت سے مجبور کوئی نہ کوئی بات ماسک کے پیچھے سے کر دیتے اور یک دم پستہ قد ہوجاتے۔ سرکاری ریسرچ سنٹروں کو ارجنٹ گرانٹ دی گئی کہ چٹکیوں والے ماسک تیار کریں۔ ان ماسکوں کی ساخت ایسی تھی کہ سامنے ماسک تھا اور پیچھے چٹکیاں تھیں جو ہونٹوں کو پکڑے رکھتی تھیں کہ بے ضرورت بلکہ ضرورتاً بھی آواز نہ نکل سکے۔ 

کچھ دنوں پر ایک ریسرچ سامنے آئی۔ دفتروں میں کام کرنے والوں کی کارکردگی بہتر ہوگئی تھی، ذہنی امراض میں کمی آگئی تھی، مذہبی رواداری بڑھ گئی تھی، عام آدمی کی زندگی میں سکون بڑھ گیا تھا اور معاشرے میں شور کی آلودگی کم ہوگئی تھی۔

لوگوں نے اس وائرس کا نام سکونا رکھ دیا۔




Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:


aatif.malikk@gmail.com


Comments

  1. Very nice
    عام آدمی کی زندگی میں سکون بڑھنے اور معاشرے میں شور کی آلودگی کم ہونے کی وجہ سے وائرس کا نام سکونا رکھ دیا

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ