دفتر باو

دفتر باو
تحریر : عاطف ملک
 ستمبر2019،16
کہیں پڑھا تھا کہ مضمون کو لکھ کر گھڑے میں ڈال دینا چاہیئے اور عرصے بعد نکالنا چاہیئے۔ اس کا اثر بڑھ چکا ہوگا، پھر اسے پڑھیے اور دوبارہ نوک پلک درست کریں، سو یہ تجربہ اس دفعہ کیا ہے کہ ایک مضمون پرانا نکالا ہے , کچھ اضافہ کیا ہے، کچھ چھانٹا اور جھاڑا ہے۔ خیال ہے کہ شاید چمک گیا ہو۔ 
*******************************************************************
دفتر باو
تحریر : عاطف ملک

ہماری ابتدائی نوکری ہوئی  تو ٹریننگ کے لیے بھیجے گئے، بعد میں نوکری  کی تو  محکمے میں جس سےبھی ملے پتا لگا کہ  اپنے اپنے وقت میں  اِس بھٹی سے گذرے تھے۔ تربیتی ادارہ ایسا تھا کہ مثلِ پلِ صراط کہ جس سے گذر کر ہی منزل پانا تھی ۔ یہ بھٹی جلاتی تھی کبھی ہلکی آنچ پر، کبھی  بھرپور حرارت  پر، کبھی  چہرہ  دمک اٹھتا تو کبھی سیاہی پھیل جاتی تھی ، کبھی سوختہ چنوں کی مانند بھن بھن  کر اٹھتے ۔  ریت بھری کڑاہی میں سب چنے اکٹھے تھے، ایک ہاتھ تھا جو وقتاً فوقتاً  اٹھاتا اور ٹپک دیتا ۔ کچھ  چنے اس حرارت کو برداشت نہ کر پائے،  ٹوٹے اور بکھر گئے مگر اپنا رنگ دے گئے۔ آ نسو کی مانند یوں پھیلے کہ ریتلی کڑاہی کو نمکدار کر گئے۔ کسی اور سفر پر جا نکلے،  سخت وقت کے ساتھی تھے سو یاد میں آج بھی سخت جان آباد ہیں۔   

حرارت  سے سب اندر باہر سامنے آ گیا ، ملمع  اتر گئے،  پردے جل گئے،  سب سامنے تھا ، کورا ، کسی لیپا پوتی کے بغیر، خباثتوں اورمحبتوں کے ساتھ۔ انسانی رنگ ، خالص ، بغیر کسی آمیزش کے سامنے دھرا تھا۔  کسی نیوڈ  بیچ کے منظر کی مانند، بیک وقت اپنی طرف کھینچتا اور کراہت دلاتا ۔ اس خالص دور میں بےسمجھوں  نے لوگوں کی شخصیت کے مطابق  نام رکھ دیے؛ کوئی ٹوکہ تھا تو کوئی بیبا، کوئی ڈوگی تو کوئی اینجل۔ عجب  بات ہے کہ وقت کے  سا لہا سال کے بہاو کے  باوجود ، ترقی  کے زینوں پرچڑھ کربھی ،اپنے اوپر رنگا رنگ کے ملمع تان کر بھی ڈوگی  ڈوگی رہا  اوربیبا بیبا۔

 بے سمجھ کچھ ایسے بھی بے سمجھ نہ تھے۔ 

سو باو کے نام سے تو باخبر تھے، مگر جانتے نہ تھے کہ موصوف باو کیوں کہلاتے ہیں ۔ بعد میں دفتری واسطہ پڑا تو یہ جانا کہ  باو ٹرین کہ  جو  ہر صبح لاہو ر کے نواحی علاقوں سے نوکر پیشہ کو  لاہور لے کر آتی ہے کہ نام پر باو کہلاتے ہیں۔ بلا کے نوکر پیشہ تھے، چہرے پر افسردگی جسے وہ تمانت سمجھتے تھے۔ ذہنی طور پر غائب دماغ، آپ سے بات کرتے کرتے فون کی طرف ہاتھ بڑھاتے ، ہاتھ  واپس  لاتے ، پھر  بڑھاتے ۔ غرض کہ ہر چند کہیں کہ وہ آپ کے سامنے ہیں، مگر نہیں ہیں۔ آ نکھیں چوکھٹے میں  ہروقت  گھومتی رہتیں کہ کسی عالم اضطراب میں محسوس ہوتے ۔ دفتری قواعد و انشاء سے انکی آگاہی اپنے  ذاتی خاندان سے زیادہ تھی ۔ کئی کاغذی جنگوں میں انہوں نے کشتوں کے پشتے قومہ اور فل سٹاپ کے تبدیلیِ مقامات سے لگائے ۔ اپنی انگریزی کا زعم  حضرت بہت رکھتے تھے ۔ محدود  انگریزی کے باوجود الفاظ کے چناو میں ضیاعِ وقت جسے وہ  ضیاء وقت  سمجھتے تھے، قابلِ سزا ہونا  چاہیئے تھا۔  اکثر اس کا نتیجہ  "گاڑی نکل گئی تھی، پٹری چمک رہی تھی " کی صورت میں نکلتا تھا ۔ حقائق کی دنیا  سے جیسے بھی ناواقف  ہوں مگر انکی خوش فہمی کی داد دیجیئے کہ سالارِ قواعد وانشا ء کو سپہ سالارِجنگ پر  فوقیت دیتے تھے۔ ایک عام سے دفتری انگریزی خط کو لکھتے ہوئے بھی ایک ایک لفظ کو ناپتے اور تولتے تھے کہ ایسا  گھما کر پھینکوں گا کہ اگلے کی ناک زخمی اور دانت باہرآن پڑیں گے۔ ایسی ضربِ کاریِ الفاظ  ہوگی کہ اگلے کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے گا۔ ایک لفظِ بھاری کو اٹھاتے، واپس رکھتے،  اگلے  کی جانب جھپٹتے،  ہاتھ میں لیا ، وزن کیا ، واپس رکھا ، ایک اور کی طرف لپکے، نظر میں نہ جچا ، سوچا  پہلا  ہی کارگر تھا ، واپسی  کو لوٹے۔ غرض  میدانِ الفاظ کے سنگریزوں کو اٹھاتے، جانچتے ،  پلٹتے،  ہاتھ اور دامنِ خیال دونوں ہی تار تار ہوئے ۔  اور آخر میں تھکن سے چور جو کہا  اور لکھا ایسا  کہ  کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی ۔  اکثرفرماتے کہ خط  ایسا  لکھو کہ جاہل سے جاہل پڑھے تو سمجھ جائے ، غرض اسلوبِ جاہلانہ کے شیدائی تھے کہ عالم اورجاہل کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے یعنی جاہلانہ  ۔ 

انجمنِ سوداگرانِ سرکاری کے ممبر تھے،  سواسی لیے پلاٹوں کی خبر، خریدنے اور بیچنے  میں لگے رہتے۔  نیزانجمنِ دانشوارانِ سرکاری کے بھی ممبر تھے۔ اس انجمن کے رکن ہونے کی شر ط تھی کہ پہلےانجمنِ تحفظِ ذاتی مفاد کے ممبر  ہوں ۔ ان انجمنوں کے اجلاس تواتر سےمختلف دفتروں میں چلتے، ایک نشست سے دوسری نشست، مختلف افراد پررائے زن ہوتے، چائے اور بسکٹ کے دور پر اکثر  حرام و حلال  کی بات ہوتی ۔ آپ خوب حلال و حرام پر تقریرفرماتے، اِسی بنا پراپنے زیرِانتظام سرکاری املاک ، ملازمین اور سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کلی طور پر حلال یعنی ذبح کرنے کےطور پر کرتے، گو تکبیر  پڑھتے ہم نے کبھی نہ دیکھا گمان ہے کہ دل میں پڑھتے ہوں گے۔
   
ان کے جوہر دیکھ کرایک دن ہم نے پوچھا کہ اس مختصر  فانی زندگی میں ایسی قابلیت کیسے حاصل کی؟  مسکرا ئے اور کہنے لگے کہ آج کل کی بات نہیں پیشہ آباء کئی پشت سے سرکاری ہے، بلکہ یوں کہیئے کہ پیڑھی بہ پیڑھی سرکاری پشت پر سوار پھرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد قسمت کی خوبی دیکھیئے کہ کچھ استاد بھی ایسے ملے کہ کندن کر گئے ۔ فرمانے لگے سرکاری نوکری انسانی نہیں حیوانی وصف مانگتی ہے۔ سیکھنا  چاہو تو انسان کے وفادار جانور سے سیکھو۔ میری بات کو نہیں مانتے تو اپنے آس پاس دیکھو کئی ترقی کے خواہش مند رالیں ٹپکاتے ، ندیدہ کھڑے نظرآئیں گے۔ آ نکھوں میں چمک ، خیالی دم متواتر  ہلتی ہوئی، صاحب گوشت کے اردگرد متواتر چکر لگاتے ہوئے، کبھی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ، کبھی کمر کے بل لیٹ کراوپرٹانگیں ہلاتےغرض اپنے تعیں  ہرکوشش کہ صاحب کو محظوظ  کریں۔ ٹکڑا حاصل کر کے اگلے کرتب کی جانب مرکوزہو جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا یہ سگِ آستاں نہیں بلکہ سگِ روزگار ہیں جب جان جاتے ہیں کہ صاحبِ اقتدار اب بے مصرف ہوا تو ایسا اغراض برتے ہیں کہ کتوں کو بھی رونا  آتا کہ  ناحق ہماری نسل کو بدنام کیا۔

ایک دن اپنا قصہ سناتے کہنے لگے کہ کسی زمانے کی بات ہے کہ میں سطح مرتفع پوٹھوہارکے ایک قصبے میں رہتا  تھا ۔ ایک صبح  تقاضائے قدرتی سے نکلا اورایک پتھر کو رگڑا تو ایک جن حاضر  ہوا ۔ میں نے جن کو سرکاری نوکری میں بدل لیا کہ سب فائدے وہیں سے اٹھاونگا ۔ نوکری نے بہت انہیں بتلایا کہ وہ لاغرتن ہے کیونکہ وہ تنہا ہے اور اُس کے کئی مالک ہیں، اورعام لوگ جن کی خدمت کے لیےسرکار نے بنایا ہے وہ بےچارے ترستے ہی رہتے ہیں۔ مگرانہوں نے کچھ نہ سنا، نوکری کو پہلے اپنے فائدے  کے اصول پر دوڑانا شروع  کرا دیا۔ ایک ماتحت انکے کاروں کی خرید فروخت کے کاروبار میں مصروف ملتا، دوسرا کبھی بحریہ ٹاون کے پلاٹوں کے فارم کی قطار میں کھڑا پایا جاتا، کبھی فرنیچربنوانے پر معمور ہوتا، غرض ماتحت دفتر کے باہر صورتِ خورشید جیتے تھے کہ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔ دفتر ڈوبتا رہا، مگر اُن کی ناو پار ہوتی رہی۔ آخر کار جب ریٹائر ہوئے تو تب ہی کمزور جانوں کی جان چھٹی۔

 دفترباو سے وفاتِ جن یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملاقات  ہوئی  تو زمانے کے شاکی تھے کہ لوگوں کی آنکھیں بدل گئی ہیں کہ پرانے ماتحت دعا سلام سے بھی گئے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کی بھی آںکھیں کھلی ہیں ؟ کہنے لگے کہ وقت بس اب یادِ ماضی میں ہی  کٹتا  ہے۔ یہ تو بھلا ہو  فیس بک کا کہ احادیث اور اقوالِ زریں شیئر کر کے ثوابِ مفت لوٹ رہا ہوں۔ ہم نے کہا کہ شیخ سعدی شیرازی نے کہا تھا کہ "وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار"۔  مسکرا پڑے کہنے لگے ایسا بھی نہیں، چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہیں۔ ابھی بھی کوشش ہے کہ کسی فیس بکی چہرے کو لوٹ لیں۔


ہم نے سوچا کہ وہ دور گذر گیا کہ کتاب چہرے چلمن سے چھپ کر جھانکتے تھے، اب فیس بکی چہرے ہیں کہ کہ آشکار ہیں اور کہتے ہیں کہ ہے کوئی کہ شکار کرے۔ کئی مواقع پر شکاری آپ شکار ہوا بلکہ ویڈیو بھی بن گئی کہ وقتِ پیری بھی گرگِ ظالم پرہیزگار نہ بن سکا۔ دفتر بابووں کے لیے اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔


****************************************
پرانا مضمون 
دفتر باو
 تحریر : عاطف ملک

یہ مضمون ۷ اکتوبر  ۲۰۱۲ بروز  اتوار ،  لاہور سے پنڈی کےسفرِٹرین میں لکھا۔

ہماری ابتدائی نوکری ہوئی  تو ٹریننگ کے لیے بھیجے گئے، بعد میں نوکری  کی تو  محکمے میں جس سےبھی ملے پتا لگا کہ  اپنے اپنے وقت میں  اِس بھٹی سے گذرے تھے۔ ایک پلِ صراط تھا کہ جس سے گذر کر ہی منزل پانا تھی ۔ لوگ اسے اکیڈمی بھی کہتے.  یہ بھٹی جلاتی تھی کبھی ہلکی آنچ پر، کبھی  بھرپور حرارت  پر، کبھی  چہرہ  دمک اٹھتا تو کبھی سیاہی پھیل جاتی تھی ، کبھی سوختہ چنوں کی مانند بھن بھن  کر  اٹھتے ۔  سب چنے اکٹھے تھے،  ریت بھری کڑ اہی میں۔ ایک ہاتھ تھا جو وقتاً فوقتاً  اٹھاتا اور ٹپک دیتا ۔ کچھ  چنے ٹوٹے اور بکھر گئے  مگر  اپنا  رنگ دے گئے ، اس ریتلی کڑاہی  کے ذائقے کو نمکدار کر گئے کہ طبیعیت میں آ نسو سے پھیل گئے۔ 

حرارت  سے سب اندر باہر سامنے آ گیا  ،  ملمع  اتر گئے،  کور جل گئے،  سب سامنے تھا ، کورا ، کسی لیپا پوتی کے بغیر، خباثتوں اورمحبتوں کے ساتھ۔ انسانی رنگ ، خالص ، بغیر کسی آمیزش کے۔  کسی نیوڈ  بیچ کے منظر کی مانند ، اپنی طرف کھینچتا اور بیک وقت  کراہت لاتا ۔ اس خالص دور میں بےسمجھوں  نے لوگوں کی شخصیت کے مطابق  نام رکھ دیے، کوئی  ٹوکہ   تھا  تو  کوئی  ڈوگی،   کوئی بیبا  تو   کوئی اینجل۔ عجب  بات ہے کہ وقت کے  سا لہا سال کے بہاو کے  باوجود ، ترقی  کے زینوں پرچڑھ کربھی ،  رنگا رنگ کے ملمع اوپرتان کر بھی ڈوگی  ڈوگی رہا  اور اینجل  اینجل۔

 بے سمجھ کچھ ایسے بھی بے سمجھ نہ تھے۔ 

سو باو کے نام سے تو باخبر تھے، مگر جانتے نہ تھے کہ موصوف باو کیوں کہلاتے ہیں ۔ بعد میں ملے تو یہ جانا صنم کہ  باو ٹرین کہ  جو  ہر صبح لاہو ر کے نواحی علاقوں سے کلرکوں کو  لے کر لاہور آتی ہے کہ نام پر باو کہلاتے ہیں۔ غرض کہ افسر کی کھا ل میں کلرک تھے۔ چہرے پر افسردگی جسے وہ تمانت سمجھتے تھے۔ ذہنی طور پر غائب دماغ، آپ سے بات کرتے کرتے فون کی طرف ہاتھ بڑھاتے ، ہاتھ  واپس  لاتے ، پھر  بڑھاتے ۔ غرض کہ ہر چند کہیں کہ وہ آپ کے سامنے ہیں مگر نہیں ہیں۔ آ نکھیں چوکھٹے میں  ہروقت  گھومتی رہتیں کہ کسی عالم اضطراب میں ہیں ۔ دفتری قواعد و انشاء سے آگاہی انکی اپنے خاندان سے زیادہ تھی ۔ کئی کاغذی جنگوں میں انہوں نے کشتوں کے پشتے قومہ اور فل سٹاپ کے تبدیلی مقامات سے لگائے ۔ اپنی انگریزی کا زعم  حضرت بہت رکھتے تھے ۔ اپنی محدود  انگریزی کے باوجود الفاظ کے چناو میں ضیاعِ وقت جسے وہ  ضیاء وقت   سمجھتے تھے، قابلِ سزا ہونا  چاہیئے تھا۔  اکثر اس کا نتیجہ  "گاڑی نکل گئی تھی، پٹری چمک رہی تھی " کی صورت میں نکلتا تھا ۔ حقائق کی دنیا  سے جیسے بھی ناواقف  ہوں مگر انکی خوش فہمی کی داد دیجیئے کہ سالارِ قواعد وانشا ء کو سپہ سالارِجنگ پر  فوقیت دیتے تھے۔ ایک عام سے دفتری انگریزی خط کو لکھتے ہوئے بھی ایک ایک لفظ کو ناپتے اور تولتے تھے کہ ایسا  گھما کر پھینکوں گا کہ اگلے کی ناک زخمی اور دانت باہرآن پڑیں گے۔ ایسی ضربِ کاری الفاظ  ہوگی کہ اگلے کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے گا۔ ایک لفظِ بھاری کو اٹھاتے، واپس رکھتے،  اگلے  کی جانب بڑھتے،  ہاتھ میں لیا ، وزن کیا ، واپس رکھا ، ایک اور کی طرف لپکے، نظر میں نہ جچا ، سوچا  پہلا  ہی کارگر تھا ، واپسی  کو لوٹے۔ غرض  میدانِ الفاظ کے سنگریزوں کو اٹھاتے، جانچتے ،  پلٹتے،  ہاتھ اور دامنِ خیال دونوں ہی تار تار ہوئے ۔  اور آخر میں تھکن سے چور جو کہا  اور لکھا ایسا  کہ  "کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی" ۔  اکثرفرماتے کہ خط  ایسا  لکھو کہ جاہل سے جاہل پڑھے تو سمجھ جائے ، غرض جاہلانہ اسلوب کے شیدائی تھے کہ عالم اورجاہل کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے یعنی جاہلانہ  ۔ 

انجمنِ سوداگرانِ سرکاری کے ممبر تھے،  سواسی لیے پلاٹوں کی خبر، خریدنے اور بیچنے  میں لگے رہتے۔  نیزانجمنِ دانشوارانِ سرکاری کے بھی ممبر تھے۔ اس انجمن کے رکن ہونے کی شر ط تھی کہ پہلےانجمنِ تحفظِ ذاتی مفاد کے ممبر  ہوں ۔ ان انجمنوں کے اجلاس تواتر سےمختلف دفتروں میں چلتے، ایک نشست سے دوسری نشست، مختلف افراد پررائے زن ہوتے، چائے اور بسکٹ کے دور پر اکثر  حرام و حلال  کی بات ہوتی ۔ آپ خوب حلال و حرام پر تقریرفرماتے، اِسی بنا پراپنے زیرِانتظام سرکاری املاک ، ملازمین اور سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کلی طور پر حلال یعنی ذبح کرنے کےطور پر کرتے، گو تکبیر  پڑھتے ہم نے کبھی نہ دیکھا گمان ہے کہ دل میں پڑھتے ہوں گے۔
   
ان کے جوہر دیکھ کرایک دن ہم نے پوچھا کہ اس مختصر  فانی زندگی میں ایسی قابلیت کیسے حاصل کی؟  مسکرا ئے اور کہنے لگے کہ آج کل کی بات نہیں کئی پشت سے سرکاری نوکری سے چمٹے ہیں اور پھر کچھ استاد بھی ایسے ملے کہ کندن کر گئے ۔ پھر اپنے ایک استاد کے متعلق ہم سے پوچھا  "ڈوگی کو جانتے ہو؟ " ۔ ہم نے عرض کی ہمارے ہاں تو  اسے کتا  کہا جاتا ہےعام زبان میں اور خاص  عزت میں سگ ۔   کتے سا منہ  بنا  کر  کہنے لگے، سیکھنا  چاہو تو اُس سے سیکھو، مگر اس  کے لیے جو ہمت و صلاحیت چاہیئے وہ  تم میں نہیں پاتا  ۔ سو ہم نے ڈوگی کے کمالات دیکھنا شروع  کر دیے۔ ترقی کی خواہش میں بل ڈاگ سا منہ بنائے، رالیں ٹپکاتے کھڑے دکھائی دیتے۔ جب گوشت کا ٹکڑا  دیکھتے،آ نکھوں میں چمک ، خیالی دم متواتر  ہلتی ہوئی، صاحب گوشت کے اردگرد متواتر چکر لگاتے ہوئے، کبھی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ، کبھی کمر کے بل لیٹ کراوپرٹانگیں ہلاتےغرض ہرکوشش ہوتی کہ صاحب کو محظوظ  کریں۔ ٹکڑا حاصل کر کے اگلے کرتب کی جانب مرکوزہو جاتے۔  سگِ روزگار تھے جب جان جاتے کہ صاحبِ اقتدار اب بے مصرف ہوا تو ایسے اغراض برتے اور روکھے اندازمیں بات کرتے کہ کتوں کو بھی رونا  آتا کہ ہماری نسل بدنام کی۔

ایک دن باواپنا قصہ سناتے کہنے لگے کہ کسی زمانے کی بات ہے کہ میں سطح مرتفع پوٹھوہارکے ایک قصبے میں رہتا  تھا ۔ ایک صبح  تقاضائے قدرتی سے نکلا  اورایک پتھر کو رگڑا تو ایک جن حاضر  ہوا ۔ میں نے جن کو سرکاری نوکری میں بدل لیا کہ سب فائدے وہیں سے اٹھاونگا ۔ نوکری نے باو  کو  بتلایا کہ وہ لاغرتن ہے کیونکہ وہ تنہا ہے اور اُس کے کئی مالک ہیں ۔ مگر  باو نے اُسے پہلے اپنے فائدے  کے اصول پر دوڑانا شروع  کر دیا۔ کاروں کے کاروبار پر کبھی معمور کیا  ،  کبھی بحریہ ٹاون کے پلاٹوں کے فارم کی قطار میں کھڑا  کردیا ، کبھی فرنیچربنانے پر کھڑا کر دیا ۔ غرض جب ریٹائر  ہوئے تو تب ہی جان چھوڑی ۔ دفترباو سے وفاتِ جن کے بعد ملاقات  ہوئی  تو  کہنے لگے، "صحیح کام کی عادت نہ پہلے تھی نہ بعد میں ہوئی سو آج کل وقت  ہے کہ یادِ ماضی میں ہی  کٹتا  ہے"۔ معذرت کے ساتھ 
" حق مغفرت کرے عجب کلرک مرد تھا"



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر