چین کا سفر، دسویں قسط
تحریر: عاطف ملک
نویں قسط درج ذیل لنک پر ہے:
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/10/blog-post.html
دوسری کلیدی تقریرمیں اوساکا یونیورسٹی جاپان کے پروفیسر می کاوا نے جانوروں پر لگائے گئے آلات (سینسرز) اور اس کے نتیجے میں حاصل کردہ معلومات کے نتیجے میں جانوروں کے رویوں پر بات کی۔ انہوں نے اپنے کام سے متعلقہ کچھ بہت دلچسپ ویڈیوز دکھائیں۔ ایک ویڈیو ایک سمندری شکاری پرندے کی تھی جس پر ویڈیو کیمرہ اور جگہ کا تعین کرنے والا سینسر ( جی پی ایس) لگایا گیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پرندہ مچھلی کے شکار کے لیے گہراغوطہ لگانے سے قبل پانچ سے چھ مرتبہ چھوٹے غوطے لگاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ مشق کررہا ہو ۔ اس کے بعد ایک لمبا غوطہ لگاتا ہے مگر اس میں بھی مچھلی پر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی شاید لہوگرم کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ اس کے بعدآخرکار پرندہ ایک لمبا غوطہ لگاتا ہے جس میں وہ مچھلی کو اپنی چونچ میں شکارکر لاتا ہے۔ اسی پرندے کے سفر کی بھی آلات سے نگرانی کی گئی ۔ پرندے نے کچھ ماہ میں چار سو کلومیٹر کا سمندر پر سفر کیا اور واپس اپنے نقطہ آغاز پر پہنچا۔ سائنسدان تحقیق میں مصروف ہیں کہ پتہ لگائیں کہ پرندہ کیسے اپنے مقام اور راہ کا تعین اتنی درستگی سے کر پاتا ہے۔ پرندوں کے علاوہ پروفیسر می کاوا نے ریچھوں پر لگے آلات سے حاصل کردہ معلومات پر بھی گفتگو کی۔ موسمیاتی تبدیلی اور انسانی آبادیوں کی بڑھوتی سے جانوروں اور پرندوں پر پڑنے والےاثرات بھی موضوعِ گفتگو تھے۔ پتہ لگا کہ حیوانات کے رویوں پر بھی حیوان ناطق اثرانداز ہے۔
سنگاپور سے آئےپروفیسر بالن نے یونیورسٹی تحقیق کو آگے لے کر کمپنیوں اور عام لوگوں کے استعمال کے لیے ایپلیکیشن اور اشیاء بنانے کے سفر میں درپیش مشکلات اور ان کی پیش بندی پر بات کی۔ یہ ایک دلچسپ گفتگو تھی کیونکہ اس میں انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی مختلف مثالیں شامل کر کے حاضرین کو موضوع پر سیر حاصل معلومات اور نتائج فراہم کیے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میرے چینی طالب علم نے ہماری تحقیق پیش کی۔ یہ تحقیق ان سن رسیدہ افراد کے متعلق تھی جو اکیلے رہتے ہیں اور کسی وجہ سے اپنے گھر یا باتھ روم میں گر جاتے ہیں۔ کسی کو بھی ان سے پیش آنے والے حادثے کا علم نہیں ہوتا اور نتیجتاً ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ لاش کی بو پھیلنے کے بعد ہی ان کی وفات کا علم ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں ہم نے کچھ سینسرز (آلات) لگا کر ان کے گرنے کا تعین کیا تھا۔ یہ آلات کیمرے نہیں تھے کہ ان کی پردہ داری رہے ۔ یہ حرکت کا تعین کرنے والے سینسزر تھے۔ گرنے کی صورت میں فورا ً ان کے عزیز و اقارب اور پڑوس میں اطلاع بذریعہ ایس ایم ایس جاتی تھی ۔ ہم نے اپنی تحقیق اور اس کے نتائج حاضرین کو پیش کیے۔ دنیا بھر میں عمر رسیدہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اس موضوع اور متعلقہ تحقیق میں بہت دلچسپی لی جارہی ہے، اور ہماری تحقیق کے متعلق بھی کئی سوالات کیے گئے۔
شام کو کانفرنس کا عشائیہ تھا۔ تجربہ ہوا کہ چین میں گول میزوں پر کھانا کھایا جاتا ہے، جس کے وسط میں گھومتا شیشے یا لکڑی کا دائرہ ہوتا ہے جس پر کھانے کی ڈشیں رکھی جاتی ہیں۔ میز کی اطراف میں بیٹھے افراد کے سامنے سے وہ دائرہ جسے ہم ایک تھال بھی کہہ سکتے ہیں، گھومتا ہے اور وہ اپنی مرضی کا کھانا ڈشوں سے اٹھا لیتے ہیں۔ کھانا اور زندگی سب ایک دائرے میں رقصاں ہے۔ مسافر نے سوچا کہ زندگی کے دائرے میں اول اور آخر کا علم نہیں ہوتا، اگلی ساعت کیا سامنے آن پڑے کچھ پتہ نہیں مگر سامنے پڑے کو اٹھانا پڑتا ہے۔
![]() |
میز پر گھومتا شیشہ اور انفرادی قہوہ |
چین میں عموماً تمام ڈشیں ایک وقت میں نہیں رکھی جاتیں بلکہ باری باری آتی اور اٹھائی جاتی ہیں، ہمیں یہ سمجھنے میں وقت لگا۔ عشائیے میں انواع و اقسام کے کھانے تھے۔ ڈمپ لنگ، مختلف انواع کی مچھلیاں اور سمندری خوراک ( اس میں سمندر سے حاصل کیے جانے والے پودے ، جھینگے، کیکڑے، آکٹوپس وغیرہ) شامل تھے۔ چاپ سٹکس کے ساتھ کھاناڈشوں سے اٹھایا جاتا ۔ پانی کی بجائے لان زو میں کھانے کے ساتھ قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔ پیالے یا کپ میں انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں ڈال دی جاتی ہیں اور ایک ساقی بار بار گرم پانی ڈال کر اُسے بھردیتا ہے۔ ابھی کچھ چسکیاں لیں اور ساتھ ہی ساقی بلکہ ساقیہ نے پیالہ گرم پانی سے بھر دیا۔ عشائیہ میں شراب بالکل نہ تھی۔ اگلے دنوں میں کچھ اور جگہوں پر رات کے کھانے کا اتفاق ہوا، وہاں دیکھا کہ چینی کھاتے بھی بہت ہیں اورشراب بھی بہت پیتے ہیں۔ ان کی اپنی چاولوں سے بنی شراب ہے جس میں الکوحل کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک جگہ تو پینے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ایک کے بعد ایک جرعہ چڑھاتے تھے ۔ دیکھا کہ شراب کے ساتھ پانی کی بوتلیں دھری ہیں اور پانی کو شراب کا اثر کم کرنے کے لیے ساتھ ساتھ پیا جاتا تھا۔
![]() |
مچھلی اور چاپ سٹکس |
چین میں ٹیکنالوجی کی ترقی بہت تیز رفتار ہے۔ چین دنیا بھر سے ماہرین کو بھاری تنخواہوں پر اپنے ملک لے کر آرہا ہے۔ ہماری میز پر ایک گورا تھا جو کچھ عرصہ قبل تک مائیکروسوفٹ کمپنی میں کام کررہا تھا، مگراب چین کی ایک یونیورسٹی میں بطور استاد تعینات ہوا تھا۔ اُس سے تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ مسافر کی مانند وہ بھی گھومتے تھال کی ڈشوں سے چاپ اسٹک سے کھانا اٹھانے میں ناکامی کے بعد کانٹوں اور چمچوں کی مدد لے رہا تھا۔
مسافر کھانے کی میز سے کہیں اور جا پہنچا، اور کھانے سے الگ زندگی میں کانٹو ں اور چمچوں کے کردار پر سوچنے لگا۔ زندگی میں کانٹے تکلیف دیتے ہیں ، مقابلہ اور برداشت دیتے ہیں، آیندہ کے لیے پہلے سے تیار ہونے کا سبق دے جاتے ہیں ۔ مگر یہ چمچے کیا ہیں؟ اصل میں تو چمچہ کھانا منہ تک پہچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زبان کی خوبصورتی دیکھیں کہ ایک عام سی چیز کو چاپلوسی کے گہرے معنی کے ساتھ جوڑ دیا۔ چاپلوس لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، اپنے مالک کی کسی معذوری کے بغیر اس کے منہ میں چمچے سے کھانا ڈالنا ، یہ استعارہ ہے کہ مالک کی منظوری کے لیےکسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ چاپلوسی حدوں سے آگے نکل جاتی ہے کہ اس کے ہاں رازق اور جانا جاتا ۔ پستی کا حد سے گزرنا دیکھنا ہو تو چاپلوسوں کے پینترے دیکھ لیں، عجب دور نگی دھند پھیلتی ہے، چاپلوس سمجھتا ہے کہ دوسروں کو اس کی پستی کا علم نہیں اور دوسروں پر سب روشن و عیاں ہوتا ہے۔ اگر نظر نہیں آرہا ہوتا تو مالک کو نظر نہیں آرہا ہوتا کہ چاپلوسی کی چکاچوند سے اس کی آنکھیں روشنی اور ذہن سمجھ کھو پایا ہوتاہے۔ چاپلوس اپنے معمولی فائدے کے لیے دوسروں کے بڑے نقصان سے نہیں ہچکچاتا۔ مالک کا بھی نقصان ہوتا ہے کہ اُس کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی جاتی ہے کہ وہ بینائی رکھتے بھی اندھا ہوجاتا ہے۔ ایسااندھیر مچتا ہے کہ سب ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔
مسافر کئی دہائیاں قبل ایسے ہی ایک میز پر بیٹھا تھا اور اس کے آس پاس افسوس پھیلا تھا۔
یہ ایک ہال کمرہ تھا جس کے بیچ میں ایک درخت اپنے پھلوں کے ساتھ سر جھکائے کھڑا تھا، مگر یہ کہانی اُس دن کی نہ تھی بلکہ پرانی تھی، شاید ایک ماہ بلکہ یقین ہے کہ اس کہانی کے ایک کردار کے لیے کہیں پرانی تھی۔ یہ ایک آفیسرز میس تھا اور جس شہر میں واقع تھا وہ کینو کی پیداوار کے لیے ملک میں مشہور تھا۔ ایک ماہ قبل افسران کا ایک کھانا ہوا جس میں ایک جانب میز پر چمکدار تازہ کینو اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ لوگ کھانے کے بعد ان کو چھیلتے اور کینو کی قاشوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایسے میں کمانڈر نے کہا کہ اصل مزہ تو کینو کو درخت سے خود توڑ کر کھانے میں آتا ہے۔ اس کے ایک ماہ بعد یہ ایک اور کھانا ہو رہا تھا۔ لوگ میس میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک کینو کا درخت پھلوں سے لدا ہال کی بیچ میں تھا۔ اُسے زمین سے اکھاڑ لیا گیا تھا اور ایک عارضی بڑے گملے میں ٹکا کر وہاں رکھا گیا تھا۔ پودے پر موت طاری تھی، اس کے پتے نیچے کولٹک رہے تھے اوراس کی زندگی، پھل دینے کی زندگی ، ایک چاپلوس کی چاپلوسی کے نذر ہوگئی تھی۔ کمانڈر صاحب ہال میں داخل ہوئے تو حیران تھے اور چاپلوس لپک کر ان کے پاس تھا، حضور، آپ نے پچھلی دفعہ ایک خواہش کا اظہار کیا تھا اور بندہ ِ ناچیز اُسی دن سے آپ کی خوشی کے لیے سرگرداں تھے۔ آئیے، اس پودے سے کینو اپنے مبارک ہاتھوں سے اتاریں۔ مسافر نے سوچا کہ یہ تو واقعی ناچیز ہے۔ کمانڈر بڑا خوش تھا، اس کی کہی ایک بات پوری ہوئی تھی، کنواں پیاسے کے پاس لایا گیا تھا، گوکنواں اب ہمیشہ کے لیے خالی ہوگا، کوئی زمین اس سے سیراب نہ ہوگی۔
یہ موت کی کہانی انفرادی نہیں اجتماعی تھی۔ ہال میں چاپلوسوں کا ایک گروہ سوچ رہا تھا کہ مقابلے کی سطح اونچی ہوگئی ہے، اب کیا اگلا شعبدہ لائیں کہ اسے کو مات دے پائیں۔ دوسری جانب ایک افسردہ گروہ تھا جوسر جھکائے پستی کا حد سے گزرنا دیکھ رہے تھا، اور ہال کے وسط میں موت کو دیکھتا درخت سر جھکائے کھڑا تھااور اسی ہال میں ایک چاپلوس مسقبل کی ترقی دیکھ رہا تھا۔ اُس دن باہر مطلع صاف تھا مگر اُس ہال کے اندر عجب دو رنگی دھند پھیلی تھی۔
سفر ابھی جاری ہے۔
Comments
Post a Comment