چین کا سفر، نویں قسط

 تحریر: عاطف ملک 

اس سے پچھلی قسط، آٹھویں قسط درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2025/09/blog-post_24.html 

کانفرنس کاباضابطہ  آغاز ہفتے کے دن ہوا۔ اب یہ بھی  باقی دنیا سے الگ تھا کہ عموماً کانفرنسیں چھٹی کے دن نہیں ہوتیں بلکہ ہفتے کے درمیان ہوتی ہیں مگر چین میں یہ کانفرنس ہفتہ واری چھٹی کے دن تھی۔ آغاز پارٹی کے ایک عہدیدار کی تقریر سے تھا۔ ایک بڑا ہال تھا جس میں لمبائی رخ میزیں لگائی گئی تھیں۔ سب بندہ ومحتاج و غنی کے لیے ایک سی نشستیں اور میزیں تھی۔ میزیں اور کرسیاں جن پر سفید کپڑا چڑھایا گیا تھا، ایک پانی کی بوتل ہر نشست کے سامنے دھری تھی۔ مملکتِ خدادا د میں جو آگے  خوبصورت صوفے لگائے جاتے ہیں،   وہ وہاں نہ تھے۔ وہ صوفے جن کو لگانے اور اٹھانے کے لیے  بوسیدہ کپڑے پہنے لاغر تن اپنی کمریں دوہری کر رہے ہوتے ہیں وہاں نظر نہ آئے۔  

 پہلی کلیدی تقریر ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر مو  لی  کی تھی۔ وہ انسٹیوٹیٹ آف الیکٹریکل انجینئرنگ کے  فیلو ہیں، یہ رتبہ  انہیں وائرلیس کمیونیکیشن   کے شعبے میں نمایاں تحقیق پر ملا۔ پروفیسر لی نے اپنی تحقیق کے مختلف شعبوں پر بات کی، اس میں سینسرز، نیٹ ورکس، ڈیٹا اور اس سے حاصل کی جانے والی سمجھ اورنتیجتاً  کیے جانے والے افعال پر روشنی ڈالی۔ کم توانائی اور وسیع علاقہ نیٹ ورکس  ( لو پاور وائیڈ ایریا نیٹ ورکسز) پر بات کرتے انہوں نے بتا یا کہ صرف ہانگ کانگ یونیورسٹی میں ان سے متعلقہ ایک سو بتیس گیٹ وے ہیں جن سے پینتیس سو سے زائد اکائیاں منسلک ہوتی ہیں ۔ ہر اکائی بہت سے سینسرز سے آگے جڑی ہوتی ہے، جن میں توانائی، عمارتی ، پانی ، ٹریفک  اور ہوائی سینسرز شامل ہیں۔ ان سے حاصل کردہ معلومات (ڈیٹا ) کی بنیاد پر بہت سےبروقت فیصلے  اور اقدام کیے جاتےہیں۔

پروفیسر لی نے اپنے ا یک  بہت دلچسپ تحقیقی کام  کے متعلق حاضرین کو بتایا۔ یہ چینی کمپنی علی بابا  کے زیر انتظام خوراک  ترسیل (فوڈ ڈلیوری) کی کمپنی ایلی می( جس کا ترجمہ"کیا آپ بھوک محسوس کررہے ہیں؟" ) کے خوراک پہنچانے والے سواروں کے سینسرزکے ذریعے حقیقی مقام، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی رفتار،  سڑکوں پر بھیڑ، موسم اور دوسرے عوامل کو دیکھتے ہوئے بہترین راہ کا فوری تعین تھا۔  یہ بہت بڑا کام ہے کہ یہ کمپنی ایک دن میں نوے لاکھ آرڈر پہنچاتی ہے اور اس کے سوار ہر لمحے اپنے سفر کے ساتھ بہت زیادہ معلومات (ڈیٹا) دے رہے ہوتے  ہیں۔ اس معلومات کو حقیقی وقت میں حاصل کرنا اور پھر اس  کا تیز رفتار تجزیہ کرکے سواروں کو بروقت راہ بتلانا   یقینی طور پر حیرت انگیز کام ہے۔ چین کے سفر میں ٹیکنالوجی  کی ترقی دیکھنے کا جو موقع ملا  ، اس کے بارے میں علامہ اقبال کی مدد لیتےمسافر یہ ہی کہہ سکتا ہے کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوچکی ہے۔ لان زو شہر  میں سڑکوں پر بغیر ڈرائیور کے چلتی گاڑیاں، ہوٹل کے کمرے میں اشیاء پہنچاتے روبوٹ ،  کافی کی مختلف قسمیں بناتے روبوٹ ، ڈرائیور کے بغیر ٹرینیں اس حیرت کی کچھ وجہ ہیں۔  کافی کے کپ کی ایک  تصویر پیش خدمت ہے جس میں کافی بنانے کے بعد روبوٹ نے اُس کی سطح پر دودھ اور کافی کے ملاپ سے بلی کی شکل  بنائی ہے۔  بلی دودھ پی جاتی سنا تھا، اب ہم پریشان ہیں کہ ایسی   کافی کا کیا کریں جس پر اتنی من موہنی بلی کا عکس ہے۔  منیر نیازی نے کہا تھا،
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا

چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا

ادھر بھی ایسا ہی معاملہ تھا، مسافر  روبوٹ دیکھتاتھا، کافی کا کپ دیکھتاتھا جس میں ایک عکس تھا، ایک جمال تھا،  انسانی جنون اور پہنچ کا   ایک  استعارہ تھا اور  مسافر اگلی منزلیں سوچ سے آگے پاتا تھا۔

 

باورچی خانہ اور روبوٹ


روبوٹ کا تیار کردہ کافی کا کپ

باورچی خانہ


 قصہ جاری ہے۔ 


Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#

 





 

 

Comments

Popular posts from this blog

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

چین کا سفر، قسط اول

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ