لیر و لیر
تحریر: عاطف ملک
فاروق کا تعلق گجرات سے تھا۔ قد درمیانہ ، رنگ گندمی، عمر چالیس سال کے لگ بھگ اور سر کے بال گرنا شروع تھے۔ گجرات سے غیر قانونی طور پر یورپ آیا تھا اور یہ سفر اُس نےصرف ایک دفعہ نہیں کیا تھا۔ اُسے دو مرتبہ یورپ سے نکالا گیا تھا مگر وہ پھر کسی ایجنٹ کے ذریعے نیا راہ ڈھونڈ کر یورپ پہنچ جاتا تھا۔ نئے نام سے پاسپورٹ بنواتا، نیا راہ ڈھونڈتا۔ پہلے راستہ ایران، ترکی ، یونان سے گھومتا آیا تھا۔ دوسری دفعہ پیسے زیادہ لگے تھے مگر سفر آرام دہ رہا تھا۔ ایمسٹرڈیم تک ہوائی جہاز پر آیا تھا۔ جہاز اترنے سے دو گھنٹہ قبل اُس نے پاسپورٹ پھاڑ کر جہاز کےٹوائلٹ میں بہا دیا تھا۔ اسے علم تھا کہ بے شناخت آدمی کی شناخت ہونے میں بڑا عرصہ لگتا ہے۔
ہر
آمد پر اُس نے پانچ سال کھینچ کھانچ کر
نکال لیے تھے۔ پہلی دفعہ اس کی سیاسی پناہ کی درخواست پیپلز پارٹی کے جیالے کے طور
پر تھی، دوسری دفعہ وہ ایم کیو ایم کا کارکن تھا، اب تیسری دفعہ وہ مذہبی کارڈ
استعمال کر رہا تھا، ہر دفعہ اُس کا نام فرق تھا۔ کہنے لگا اپنا ملک چھوڑ دیا جا ئے تو پھر نام بھی آسانی سے چھوڑا جاسکتا ہے۔ مزید کہنے
لگا، باؤ،
ہم جیسوں کے لیے پاکستان اللہ کی رحمت ہے، ہمیں ملک پڑھا نہ سکا مگر کوئی نہ کوئی
قتل و غارت کا لانجھا کھلا رہتا ہے، ہماری پناہ کی درخواستوں کی بنیاد بنی رہتی
ہیں، کبھی مارشل لاء کا دور اور ٹکٹکی پر لگتے کوڑے، کبھی لسانی فساد اور ڈرل زدہ
لاشیں، کبھی مذہبی فرقہ واریت کے کافر اور ٹارگٹ کلنگ، اپنے ملک پر بڑی رحمت ہے کوئی نہ کوئی لانجھا
کھلا رہتا ہے۔ یورپ میں بے شناخت داخل ہوں اور ہمت ہو تو لوگ شناخت بنا
لیتے ہیں، ہمارے ہاں شناخت ہوجائے تو
بے شناخت لاشیں ملتی ہیں۔ کو ئی بات نہیں ، تیسری دفعہ نکالا گیا تو کوئی نیا
لانجھا کھل چکا ہوگا، پھر چوتھی دفعہ آجاؤنگا۔ باؤ، اس
ملکِ خداداد کی بنا پر ہم پر بڑی
رحمت ہے ۔پوچھا یہ ُملک ِخداداد کا اُسے
کیسے پتہ چلا۔ کہنے لگا ہمارے علاقے کا بڑا زمیندار ہے، تین دفعہ سے ایم این اے بھی ہے،اس سے قبل اس کا باپ
اور دادا اسمبلی میں رہے تھے۔ نام ملک خداداد خان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے دادے نے میرا نام خداداد خان اسی لیے رکھا
تھا کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہم یہاں کے مالک
ہیں، ُملکِ خداداد۔
میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ
وہ یہاں آجاتا ہے اور پھر نکالا جاتا ہے؟ لوگ تو ایک دفعہ یورپ پہنچ جائیں
تو کچھ چکر چلا ہی لیتے ہیں۔ سیاسی پناہ ، کسی گوری سے کاغذی شادی ، کسی نشئی شرابی عورت سے شادی، کسی بے حجم کی عورت
کو محبت کا جھانسا، غرض مند ڈھونڈنے پر منزل پا ہی لیتا ہے لیتا ہے، چاہے اس میں جسم
اور روح پر ناقابل بیان گھاؤ اپنے نشان چھوڑ
جاتے ہوں۔
اس کا جواب عجیب تھا۔ کچھ سلیم کوثر کے اعتباری اور بے اعتباری کے درمیاں کے شعر کے مترادف تھا۔
ویسے وہ مجھے ملا بھی عجیب طریقے سے تھا۔ شہر کے مین ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک چھوٹی عمارت میں پاکستانی مسجد تھی۔ مسجد، وہ مسجد بھی بے شناخت تھی۔ اگر آپ کو علم نہ ہو تو کبھی اُسے نہ ڈھونڈ پائیں۔ پوری گلی ڈبہ زدہ چار منزلہ مستطیل عمارتوں پر مشتمل تھی۔ سردیوں میں خوب برف باری ہوتی تھی، سو عمارتوں کی تمام کھڑکیاں بغیر کواڑوں کے تھیں۔ کھڑکی کے دو خانے ہوتے، نچلا ایک فٹ کا ڈبل شیشہ جو چار سے پانچ فٹ چوڑی کھڑکی کے نیچے پوری طرح نصب ہوتا، اس کے اوپر کے خانے میں اُسی چوڑائی کا چار سے پانچ فٹ اونچائی کا ڈبل شیشہ اوپر کی جانب ایسا کواڑ رکھتا کہ کھڑکی بمشکل کچھ انچ نچلی جانب سے باہر کی جانب کھل پاتی۔ برفباری میں اگر کھڑکی کھلی بھی ہو تو بہتا پانی اندر نہ آپاتا، باہر ہی گر جاتا۔ انسان کے اند ر کی کھڑکی ایسی ہو تو باہر جیسا بھی طوفان ہو ، کوئی اثر نہیں ہوتا، انسان بے مروت رہتا ہے۔احساس کی کھڑکی بنیا دی سی ہونی چاہیئے، لکڑی کے کواڑ وں کی بنی، بند بھی ہو تو درزوں سے کچھ ہوا اندر آجاتی ہے، کچھ خیال، کچھ تراوت، کچھ ہریالی ذات میں نمو پا تی رہے۔
مسجد کا راستہ ریڈ لائیٹ ایریا سے جاتا تھا۔ نماز کو پیدل جائیں تو مرضی تھی کہ نگاہ نیچی رکھیں یا اُس دنیا کے بھیددیکھ لیں جو متوازی موجود ہے، کہیں چھپی کہیں کھلی۔ اُس راہ میں مگر وہ آشکار تھی، علانیہ ظاہر ، کھُلے گلوں ، ننگی ٹانگوں اور انتظار کرتی نگاہوں کے ساتھ پوری فاش تھی۔ مسجد کی عمارت کے سامنے پہنچیں تو سامنے ایک تھڑا تھا جس پر بائیں جانب سے تین سے چار فٹ چوڑائی کی چار سیڑھیاں اوپر چڑھتی تھیں۔ سیڑھیاں جن پر لگی سرمئی ٹائلوں کے کونے ٹوٹ چکے تھے، جگہ جگہ سے ٹکڑےاتر چکے تھے ۔ لمبی ٹوٹی لکیریں ایک کونے سے دوسرے تک بے ترتیب جاتی نظر آتی تھیں، لیر و لیر زندگی کا عکس اُن سیڑھیوں پر اتر آیا تھا۔ وہ لکیریں جن میں وقت نے مٹی بھر دی تھی، ایسی مٹی جو سیمنٹ کی مانند جم چکی تھی، جتنا بھی کھرچنا چاہو نہ اترے۔ ان سیڑھیوں کے ساتھ لگے رلنگ کا سیاہ رنگ جگہ جگہ سے اتر چکا تھا۔وہ رنگ جس پر کئی ہاتھوں نے اپنی قسمت کی لکیروں کو مس کیا تھا، نیکوکاروں کے ہاتھ، گہنگاروں کے ہاتھ، نرم بچوں کے ہاتھ، لرزتے کانپتے ہاتھ، ہاتھ جن کی لکیروں پر ایک لمبا سفر لکھا تھا، نامکمل، کبھی نہ مکمل ہونے والا سفر، داءرے کا سفر۔
رلنگ کا رنگ اتر گیا تھا۔ کیا
ہاتھ کندن ہوگئے تھے؟ معلوم نہیں مگر رلنگ کا ملمع اتر گیا تھا۔ موسم اپنا زور ڈالے گا اور یہ رلنگ بھی اپنا وقت آنے پر مٹی ہو جائے گی۔
تھڑے کے درمیان میں ایک دروازہ تھا جو ایک بڑے کمرے کا داخلہ تھا۔ یہ وسیع کمرہ کبھی گودام تھا، کبھی دفتر، کبھی دکان، کبھی کچھ بھی نہیں اور کبھی بہت کچھ ،بلکہ ایک وقت میں کسی کے لیے سب کچھ، یہ ساکت کمرہ حرکت کا استعارہ تھا۔ تھڑے کےبائیں
جانب ایک پٹ کا دروازہ تھا جس سے تنگ سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں اور ساتھ ہی اتنی ہی تنگ اور کہیں زیادہ تاریک سیڑھیاں نیچے تہہ خانے میں اترتی تھیں۔اسی تہہ خانے میں فاروق اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ رہتا تھا، وہ مسجد کے کرایہ دار تھے، تینوں غیر قانونی طور پر یورپ داخل ہوئے تھے۔ وہ اس تہہ خانے کو ضرورت مندوں کے لیے کرائے پر بھی چلاتے تھے۔ کئی دیسی خریدار مدعا بیان کرنے اور سودا طے کرنے جیسی مشکلات کو ان کے ذریعے سے حل کر والیتے تھے۔ویسے بھی فاروق اور اس کے ساتھیوں کی علاقے کی طوائفوں سے آشنائی تھی۔ خدمات کی فراہمی، گاہک اور مکان کے انتظام کرنے کی بنا پر وہ دونوں فریقوں کو بتائے بغیر اپنا حصہ نکال لیتے تھے۔
پہلی منزل کے دا ئیں جانب دروازہ ایک لمبے کمرے میں کھلتا تھا جو نماز کمرہ تھا۔ کمرے کے باہر جوتیاں رکھنے کے لیے لکڑی کا ایک ریک تھا۔ کچھ جوتے لکڑی کے خانوں میں دھرے نظر آتے، اور کچھ زمین پر دروازے کے باہر گڈمڈ پڑے ہوتے، ایک دوسرے سے مختلف رخ پر، الگ الگ قبلے کی جانب منہہ کیے بے ترتیب پڑے۔لمبوترے کمرے میں فرش سے چسپاں نیلے قالین کا رنگ اُڑ چکا تھا مگر اس پر اب سرخ رنگ کے لمبے قالین صف بہ صف متوازی رکھے تھے جن پر نماز پڑھی جاتی تھی۔ کمرے کے درمیان میں دو ستون چپ چاپ کھڑے تھے۔ ان چوکور ستونوں کو زمین کی جانب سے چار چار فٹ اونچائی تک لکڑی کے تختے لگا کر ڈھانپ دیا گیا تھا۔شاید وہاں سے ان ستونوں کا رنگ اڑ چکا ہو، ان کا سیمنٹ گر چکا ہویا ان کی اینٹوں کے کونے ٹوٹ چکے ہوں۔ لکڑی نے ان کی بے ما ئیگی کو ڈھانپ دیا تھا، ویسے ہی جیسے مدرسے کا مدرس اپنی گنج چھپانے کے لیے ہمیشہ ٹوپی اوڑھے رکھتا۔ وہ ٹوپی جس کے کونے میلے تھےاور اس پر سرسوں کے تیل کے نشان سمندر میں ڈوبتےآئیل ٹینکر سے گرے تیل کی مانند مختلف رخ پر اپنا بہاو بنا چکے تھے۔
ایک ستون پر لکڑی کے تختے پر سات وقت دکھاتے سوئیوں والے گھڑیال لگے تھے۔ سب سے اوپر وسط میں بڑا گھڑیال موجودہ وقت دکھا رہا تھا مگر اس کے علاوہ سارے گھڑیالوں کی سوئیاں اپنے اوقات پر ساقط تھیں۔ ویسے بھی مسجدیں اپنے فرقے کے مطابق ساقط رہتی ہیں، خیال ساقط ، رائےساقط ، وقت ساقط۔
جہاں بے سمجھ ماضی پوجا جاتا ہو، وہاں حال بے حال رہتا ہے۔ جہاں سوچ کو آزاد پروان چڑھنے کی بجائے کسی خاص بیانیے کا تابع کردیا بائے ، وہاں صحت مند معاشرہ پروان نہیں چڑھتا، بلکہ ایک جانب لنگ کھاتا ہے۔ سوچ کا ایسا استحصال معذور ، لنگڑے اوریک چشمی معاشرے کو جنم دیتاہے۔ یک چشمی پورے منظر کو نہیں دیکھ پاتے ، نہ سوچ پاتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ، جب کہ بینا عذاب بسر کرتے ہیں ۔ جہاں مکالمہ بند ہو وہاں لہو بہتا ہے اور موت خامشی رہتی ہے۔ جہاں اظہار پر پابندی ہو وہاں ایک ہی موسم رہتا ہے ، حبس کا موسم ، ایسے میں تھوہر کانٹے نمو پاتے ہیں، پھلدار درخت سوکھ جاتے ہیں۔ پھر پرندوں کی ہجرت کا موسم آجاتا ہے ۔
میں ،سات سمندر پار اُس شہر کی یونیورسٹی میں پڑھتا طالب علم ، فاروق کو ڈھونڈنےوہاں آیا تھا۔پتہ لگا تھا کہ وہ جعلی ٹیلیفون کارڈ کرائے پر دیتا ہے۔مجھے کارڈ چاہیے تھا۔ گھر فون کرنا بہت مہنگا پڑتا تھا ۔ غریب ملکوں سے آ ئے طالب علموں کی زندگی ویسے بھی رقم کے گرد گھومتی ہے۔ ا ن کے پیش ِ نظر بچت رہتی ہے، بازار سے چیزیں خریدتے قیمت ہی سب سے اہم اکا ئی ہے۔ کب سیل لگتی ہے، کس سٹور میں کونسی ڈبل روٹی سستی ہے، کس جیم کی قیمت کم ہے، انڈے کب سستے ہوتے ہیں، سستے کپڑوں کی کونسی دوکان ہے، ایک جینزکی پتلون اور گندے کپڑے دھونے میں کتنی دیر کی جاسکتی ہے کہ کمرشل لانڈری مشین کو کم سے کم کرایہ دیا جاسکے۔ طالب علم ایک دوسرے کے الٹے سیدھے بال کاٹ دیتےتھے۔ وہ عمر جس میں بالوں کے سٹا ئیل کی اہمیت ہوتی ہے ، دیار غیر میں وہ عمر لاپتہ ہوجاتی ہے ۔
شہر میں کارڈ فون کے بوتھ مختلف جگہوں پر لگے تھے۔ الیکٹرونکس چِپ لگے فون کارڈز مختلف دکانوں سے خریدے جاسکتے تھے ۔ فون بوتھ میں کارڈ ڈالیں تو جس قیمت کا کارڈ خریدا گیا تھا، اتنی رقم فون بوتھ کی سکرین پر ظاہر ہو جاتی ۔ جیسے ہی فون کال شروع ہوتی تو کال کرنے کی جگہ اور بات کے دورانیہ کے مطابق رقم بتدریج کم ہوتی جاتی۔ پاکستان کال کریں تو رقم کم ہوتی نہیں بلکہ دھڑام سے گرتی نظر آتی۔ طالب علم کو حواس خمسہ کی اہمیت کا ایسے موقع پر علم ہوتا۔ زبان سے الفاظ نکل رہے ہوتے اور نظر گرتی رقم پر ہوتی ، ذہن تیزی سے حساب کررہا ہوتامگر سرمایہ دارانہ نظام غریب طالب علموں کی ذہنی استطاعت یا مالی استطاعت سے کہیں تیز اپنی آمدنی کی گنتی اور بڑھوتی میں مصروف ہوتا۔ ایسے میں بات ختم ہونے سے قبل رقم ختم ہوجاتی۔ بات پوری نہ ہو تو تشنگی رہ جاتی ہے، اور بات ختم نہ ہو اور رقم ختم ہو جائے توتشنگی کے ساتھ ساتھ کچھ الگ احساس بھی آ ن پہنچتا ؛ بے چارگی ، بے بسی کا احساس، مگر شکایت کے اس اندھیر میں اُمید کا تارہ بھی ٹمٹماتا ہے ۔ امید کا ستارہ کبھی خود ہی چمکتا ہے اور کبھی اسے کھینچ کر لانا پڑتا مگر اُس کی روشنی دور اور کم ہوتی ہے۔ روشن مستقبل کی آس کہیں ہوتی ضرورہے۔
ایسے میں کسی ساتھی طالب علم سے علم ہوا کہ فاروق کے پاس کھل جا سم سم کی مانند کا ایک کارڈ ہے۔ بات کرو تو گرتے پیسوں پر نگاہ نہیں رکھنی پڑتی۔ فون بوتھ پیسہ ہضم کرکے بات ختم کرتا ہے مگر کھیل ختم نہیں ہوتا۔ بات ختم ہوئی ، کارڈ باہر کھینچیں، دوبارہ ڈالیے، کارڈ میں رقم کسی جادو ئی اثر سے پھر پوری ہوگی، بات اور کہانی وہیں سے شروع کریں جہاں سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔
دیار غیر میں لگتے پودے اپنی آب و ہوا کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں، سو میں فاروق کو ڈھونڈتا آشکار گلے والی گلیوں سے ہوتا مسجد تک آن پہنچا تھا۔
کسی نے بتایا تھا کہ وہ مسجد کے تہہ خانے میں رہتا ہے۔ تہہ خانہ جس میں عمارت کو گرم رکھنے کے لیے پانی گرم کرنے کا سسٹم نصب تھا۔ پانی گرم ہونے کے بعد مختلف منزلوں میں پائیپ کے ذریعے سے گھومتا اور واپس اپنے اصل پر پہنچ جاتا۔ سفر، دن رات کا سفر، ایک دائرے کا سفر، کولہو کا دائرے کاسفر ، فاروق کا گجرات سےیورپ آنے، نکالے جانے اور پھر آنے کا سفر، نیکی اور بدی کی متضاد جانب کھینچتی قوتیں، دائرے کے مرکز کی جانب کھینچتی ایک قوت ادر دائرہ چھوڑ کو بے لگام آزاد ہوجانے کی باہر کو زور مارتی خواہش ، مسجد میں بچھا قالین اور ان پر لگی سیدھی لکیریں ، مسجد سے نزدیکی گلی میں کھڑے اجسام اور دائرے ، کائنات میں گھومتے اجسامِ فلکی جو کچھ کے بقول انسانی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
وہ تہہ خانے میں نہ تھا۔ میں مسجد میں ساکت زدہ اُس کے انتظار میں بیٹھا رہا۔ سورج غروب ہورہا تھا، باہر برف کے گالے گر رہے تھے۔ دھندلکا، خاموشی، برف سے ڈھکی زمین اور انتظار۔ وہ رات گئے واپس آیا۔
میں ایک مسافر تھا، فاروق بھی ایک مسافر تھا، ہم دونوں مسافر تھے۔ میں قانونی طریقے سے اور وہ غیر قانونی طریقے سے آیا تھا۔ میں اس سے عمر میں کہیں کم تھا، مگر اس نے مجھے عزت سے پکاراکہ علم اس کی نظر میں اہمیت رکھتا تھااور میں قانونی طریقے سے آیا تھا ۔غیر قانونی کارڈ کا سودا طے ہوا کہ اگلے اتوار کو فاروق سے کارڈ لینا ہوگا۔ اس دوران مجھے ساتھی طالب علموں کو بھی اس میں شریک کرنا تھا کہ مل کر کارڈ کے کرائے کے پیسے اکٹھے کر سکیں۔ متوسط محلوں میں ڈالی جانے والی کمیٹیاں سات سمندر پار بھی کسی شکل میں آن ظاہر ہوتی ہیں۔ استعمال سے قطعِ نظرکرایہ پیشگی ادا کرنا تھا۔ احتیاط کرنا ہوگی، ٹیلیفون بوتھ بدلنے ہوں گے کہ اگر ایک ہی فون بوتھ سے لمبی بات ہوتی رہے تو پکڑے جانے کا خطرہ رہتا، سو علاقے کے فون بوتھو ں کو بدل بدل کر استعمال کرنا ہوگا۔ سائیکلیں تیار رکھنا ہوں گی کہ اگر پولیس آن پہنچے تو سائیکلوں پر گلیوںمیں سے ہو کر بھاگنا پڑ سکتا ہے۔
جب دو تین دفعہ فاروق سے کرائے پر کارڈ لیا تو اس سے گپ شپ لگنے لگی۔
میں نے کہاکہ کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں آجاتا ہے اور پھر نکالا جاتا ہے؟ لوگ تو ایک دفعہ یورپ پہنچ جائیں تو کچھ چکر چلا ہی لیتے ہیں۔
کہنے لگا، باؤ ، یہ جگہ اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان ہے۔ یہ جگہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ کمانے کے لیے ہے، یہاں کمانا ہے یہاں رہنا نہیں ہے۔ میں یہاں کمانے کے لیے آیا ہوں، پیسہ جمع کررہا ہوں، واپس چلا جاؤں گا، جلد واپس چلا جاؤں گا۔کوشش ہو گی کہ زندہ ہی واپس جاؤں ورنہ مرنے کے بعد میری لاش واپس جائے گی۔عمر یورپ میں گذاردی، دفن اپنے ہی گاؤں ہوں گا۔باؤ، یہ یہاں کی کہانی ہے۔
اس کی اردو میں پنجابی کی ملاوٹ تھی ۔کہنے لگا، یہ عام دنیا نہیں، یہاں ہمارے لوگ دور سے دیکھنے پر بڑے نظر آتے ہیں، کسی کے قریب پہنچ کر دیکھیں تو سب لیر و لیر ہیں۔ ان کی باتوں پر نہ جائیں ،ان کی کہانیاں جانے گا تو پریشان ہو جائے گا۔ یہ کولہو میں جتے بیل ہیں، ان کی آنکھوں پر کھوپے چڑھے ہیں۔ ان کے کھوپے اتارنے کی کوشش نہیں کرنی، ورنہ یہ خون آشام ہو جائیں گے۔ان سے دور سے ہی ملیں۔ ان کی اپنی کہانیاں اور ان کی اگلی کہانیاں سب عجب ہیں۔ یہ اوپر اندر سے ایک نہیں ہیں۔
وہ داڑھی والا جو کل مغرب کے بعد وعظ دے رہا تھا ، اس نے ایک گوری سے شادی کرکے اپنے کاغذ سیدھے کیے۔ پھر اُس گوری کو کاغذوں میں طلاق دے کر اپنے بھائی سے شادی کرواکر بھائی کو یہاں لے آیا۔ اب وہ یہاں ہفتہ وار وعظ دیتا ہے۔ اس کا وعظ ضرور سنیں مگر اس کے قریب نہ جائیں ۔ یہ اوپر سے کچھ اندر سے کچھ ہے۔ اگر تو اس کے قریب گیا تو وہ تجھے بھی لیر و لیر کر دےگا۔ یہاں ایسی ہی کہانیاں بکھری ہیں۔ باؤ، بندہ لاعلم رہے تو مطمن رہتا ہے، دور رہیں، قریب نہ جائیں یہ خود بھی لیر و لیر ہیں اور تجھے بھی لیر و لیر کردیں گے۔
طالب علم کا یورپ میں سردیوں کا پہلا تجربہ تھا، باہر برف کے سفید گالے گر رہے تھے۔ سردی اپنے زوروں پر تھی اور دوسری جانب جمعے کے خطبے میں بیان دیتے مولانا اپنے زوروں پر تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ باپ اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے صرف لڑکے کے نیک اوصاف دیکھے، کوئی دوسرا وصف جیسے لڑکے کا پڑھا لکھا ہونا، خوش شکل ہونا، برسرروزگار ہونا یا قانونی طور پر یورپ آیا ہونا، ان چیزوں کو دیکھنا مولانا کے نزدیک مذہبی لحاظ سے غلط تھا۔ ان کے نزدیک ولی اپنی لڑکی کو کہیں بھی ہانک سکتا ہے۔ مزید اپنے بیان میں زور ڈالنے کے لیے انہوں نے کسی صاحب کا ذکر شروع کردیا کہ مجھے ایک صاحب نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے مسلمان سے کریں گے جو قانونی طور پر یورپ میں ہو اور ہم زبان ہو۔مولانا کہہ رہے تھے کہ قرب قیامت ہے، لوگوں کی سوچ دیکھیں، انہیں اپنی مذہب کا علم نہیں کہ ان پر ولی کے لحاظ سے کیا ذمہ داریاں ہیں۔
طالب علم سوچ رہا تھا کہ شاید ابھی وہ لڑکی کی مرضی کی بات کریں گے، مگر اپنے پورے خطبے میں انہوں نے لڑکی سے رضامندی حاصل کرنے کو کسی قابل نہ جانا تھا۔ طالب علم نے سوچا اکیسویں صدی، عورتوں کے حقوق، بالغ لڑکی کی رضامندی، یورپی ممالک کے قوانین مولانا کی اپنی مذہبی سوچ کے سامنے بے معنی تھے۔ سب سے بڑھ کی مولانا یورپی معاشرے میں پلے بڑھے لڑکے لڑکیوں کے انداز، خود مختاری اور آزادی سب سے لاعلم لگتے ہیں۔ طالب علم کو جمعے کے خطبے کے دوران اپنے یونیورسٹی ہوسٹل کے مشترکہ کچن کا منظر سامنے آگیا جہاں ہم کھانے پکارہے ہوتے تھے اور ایک مسلمان لڑکی اپنے دوست سے ہم آغوش رہتی تھی۔
اگلے دن ہفتہ وارانہ چھٹی تھی، برف کے سفید گالے گر رہے تھے۔ میں فاروق کے ساتھ شہر کے وسط میں کپڑوں کے تین منزلہ سٹور میں جیکٹ خریدنے داخل ہوا۔ دیکھا کہ سامنے سے کل خطبہ دینے والے مولانا آرہے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک ٹین ایجر لڑکی تھی جس نے اُس سرد موسم میں بھی مختصر کپڑے پہن رکھے تھے ۔ اُس کی چھوٹی نیکر کے نیچے سے ٹانگوں پر بنا رنگدار ٹیٹو جھلک رہا تھا۔
فاروق نے میری طرف دیکھا اور بتانے لگا کہ یہ مولانا کے ساتھ ان کی بیٹی ہے۔
کہنے لگا، ادھر سب لیر و لیر ہیں۔ ان کی کہنے پر نہ جائیں یہ سب لیر و لیر ہیں۔
Comments
Post a Comment