نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

تحریر: عاطف ملک

نوٹ:     دو ہزار چوبیس میں حج کے دوران کچھ مُلاؤں کے فرمودات  اس تحریر لکھنے کا موجب بنے۔   

مکہ میں حج کے  دوران  عزیزیہ کے علاقے میں پاکستانی حجاج ٹھہرائے جاتے ہیں ۔  ہمارے حج آپریٹر نے بھی  یہاں ایک عمارت کرائے پر لی تھی جہاں ہم اور دوسرے احباب قیام پذیر ہوئے۔ عمارت کی سب سے نچلی منزل میں صفیں بچھا کر نماز پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس طرح پانچوں نمازیں  باجماعت ادا ہونے لگیں۔

عمارت میں پاکستان سے آئے افراد کے علاوہ دوسرے ممالک مثلاً برطانیہ، کینیڈا، امریکہ  اور آسٹریلیا سے پاکستانی نزاد بھی آئے تھے اور  اسی عمارت میں ٹھہرے تھے۔  قیام کے دوسرے دن صبح اعلان ہوا کہ آج عصر کی نماز کے بعد   حج  کے بارے میں بیان ہو گا۔ لوگ عصر کی نماز کے بعد  صفوں پر بیٹھ کر بیان کا انتظار کرنے لگے۔  ایک  حضرت کہ  قد لمبا، مونچھیں صاف، داڑھی لمبی،  شلوار ٹخنوں سے اوپر ،کھلا کرتہ پہنے کہ نکلی توند  کی پوری دریافت نہ ہو  پائے ، آگے تشریف لائے۔

ہم نے دیکھا تو سوچا کہ کیا یہ مولانا ہیں کہ مُلا؟   

اقبال کی نظم  " مُلا اور بہشت"    مُلا کے اوصاف بتاتی ہے۔

ميں بھی حاضر تھا وہاں ، ضبط سخن کر نہ سکا

حق سے جب حضرت مُلا کو ملا حکم بہشت

عرض کی ميں نے ، الہی! مری تقصير معاف

خوش نہ آئيں گے اسے حور و شراب و لب کشت

نہيں فردوس مقام جدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

ہے بد آموزي اقوام و ملل کام اس کا

اور جنت ميں نہ مسجد ، نہ کليسا ، نہ کنشت!

سو  اقبال کی فہم نے بتایا کہ  مُلا  بدآموز،  جدل  و بحث و تکرار  کا خوگر   ،جلد باز ہے۔  زندگی میں ایسے عالم بھی ملے جو صاحب ِعلم ،صاحبِ عقل  اور  صاحبِ  حکمت تھے سو  انہیں ہم نے مولانا    کی حیثیت  دی کہ ان کی خدمات بہت ہیں۔
جاننے میں کچھ دیر نہ لگی کہ یہ صاحب مولانا ہیں کہ مُلا ہیں۔

حضرت سامنے بیٹھے اور حاضرین کا معائنہ کیا۔  ایک  نوجوان دیوار سے ٹیک لگائے، ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا۔ فوراً  بولے، ادب سے بیٹھیں، یہاں بڑی اونچی باتیں ہونے جارہی ہیں۔ نوجوان   اس  اچانک ادبی بلکہ بے ادبی حملے  کے نتیجے میں ہڑبڑا کر  ٹانگیں لپیٹ کر بیٹھ گیا۔  حاضرین میں ایک صاحب  ہاتھ میں تسبیح  پڑھ رہے تھے۔ اگلا  وار اُن پر ہوا۔  ارشاد فرمایا کہ تسبیح پڑھنا بند کریں، متوجہ ہوں ۔یہاں بڑی اونچی  باتیں ہونے جارہی ہیں، ایک وقت میں ایک گلاب جامن کھائیں۔  تسبیح  کو گلاب جامن سے مشابہت ان کے ذوقِ کھانا  کی آئینہ دار تھی، ویسے ہم نے کبھی کسی کو تسبیح  پڑھنے سے شوگر ہوتے نہ سنی تھی۔
جان لیا کہ حضرت مُلا ہیں، افسوس ہوا کہ ہم تو مولانا کی آس میں آئے تھے۔
لوگ دور دراز کے سفروں سے مکہ پہنچے تھے اور اس کے بعد حسب ہمت عمرے اور طوافِ کعبہ کررہے تھے، کئی کلومیٹر گرمی میں چلتے تھے، ایسے میں تھک جانا قدرتی تھا۔  ہم نے تو حرم ِکعبہ میں لوگوں کی کعبے کی جانب پیر کیے لیٹے اور سوتے دیکھا۔ پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں مساجد میں لوگوں کو ٹانگیں پسارے خطبہ سنتے دیکھا، مگر  اپنے ہاں تو لاعلم علم کے ایسے دعویدار ہیں  کہ کچھ کہنا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔   بے ادبوں نے ادب یوں طاری کیا ہےانسان  اور انسانی جان کی حرمت بے وقعت  ہو گئی ہے۔

حضرت کو کیا سمجھاتے کہ  نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی، دوستی  بری کہ  ان کی سوچ چھوٹی، نظر کوتاہ، خیال حکمت سے عاری اور دشمنی بھی بری کہ منہہ سے کف پھینکتے کوئی بھی توھین کا الزام لگا کر مجمع اکٹھا کرلینے کی صلاحیت  رکھتے ہیں،  کسی کی زندگی لینے سے چنداں گریز نہیں ۔

والد صاحب بسترِ مرگ پر تھے۔ ہسپتال میں داخل تھے، اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ جمعے کا دن تھا اور والد صاحب  کے پاس ہسپتال  میں اکیلا تھا۔ جمعے کی نماز کا وقت آیا  تو نرسنگ سٹاف کو بتا کر نماز کے لیے قریبی مسجد چلا گیا۔ کئی دنوں کی بے آرامی بھی ساتھ تھی، مسجد میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ سننے لگا۔ خیال آیا کہ موبائل کی آواز پوری طرح بند ہے، اگر کوئی ایمرجنسی  کا معاملہ ہوا تو پتہ نہ چلے گا ، سو موبائل فون کو تھرتھراہٹ (وائیبریشن ) پر کر لیا جائے۔ موبائل پتلون کی جیب میں تھا، سو نکالنے کی خاطر بیٹھے بیٹھے ٹانگ لمبی کی۔ ابھی فون نکال نہ پایا تھا کہ منبر پر جمعہ کا خطبہ دیتے مُلا  کی آواز سپیکر پر گونجی، بے ادبی نہ کریں، ٹانگیں موڑ کر بیٹھیں۔  جمعہ، بھری مسجد، منبر سے کی گئی تنبیہ اور سب نمازیوں کی نگاہیں ا یک بے ادب پر مرکوز  تھیں ،  ایک دہشت کی لہر جسم میں پھیل گئی۔  ابا کی زندگی کی فکر کے ساتھ اپنی زندگی کی فکر بھی ایسے اکٹھی ہوئی کہ موبائل فون کو جیب سے نکالنے کی بجائے فوراً   نشست اتحیات پڑھنے والی  کی اور  بن مانگی بلا ٹلنے کی دعا کرنے لگے۔

عزیزیہ  میں ہماری عمارت میں  حج سے متعلقہ خطاب جاری تھا۔ ہم  وہاں حج کے مناسک کے بارے میں سننے کے انتظار میں تھے، جبکہ حضرت اور جانب کو نکل گئے تھے۔ عورت ان کے ذہن پر سوار تھی۔  ایک دفعہ، دو دفعہ، اب تیسری دفعہ یہی فرما رہے تھے کہ خواتین کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں کوئی خیال آئے، یہ کیجئے، وہ کیجئے، توبہ کیجئے۔ ایسا محسوس ہوا کہ ان کے اپنے ذہن کے خیال وہ  دوسروں پر لادے جارہے تھے۔ مزید اندازہ ہوا کہ  ان کے لیے  یہ حکم کہ حج کے دوران خواتین چہرہ نہیں ڈھانپیں گی، عجب ہے۔ کچھ کر نہیں سکتے مگر  اپنے تعصب سے مانتے بھی نہیں۔عورت مرد کی برابری حج   میں سامنے آتی ہے۔ حج کی مشقت میں برابری ہے، کھُلے میں سب ایک ہے، ساتھ ساتھ چلنا ہے، ہجوم ہے ، عورت مرد اپنے رب کو یاد کرتے چل رہے ہوتے ہیں،  دعائیں مانگتے ہیں، آنکھیں پرنم ہیں ۔   ہم سفر ساتھ تھی، کسی قسم  کی پریشانی ہم دونوں کو نہ تھی۔ یہ مقام الگ ہے،  لو اور طرف لگی ہے،  ایسے میں اورکیا خیال آئے۔  

ان کے بعد ایک اور صاحب بیان کرنے آگے آئے۔ عجب بے سروپا باتیں بیان کر رہے تھے۔ عقیدت میں بیان کو قصہ گوئی میں بدل دیا تھا، ایسا قصہ جو عقل   کے پیمانے پر نہ آئے، جھوٹ محسوس ہو۔  مگر اختلاف کی گنجائش نہیں ، پوچھ نہیں سکتے،  پوچھنا  توھین کے زمرے میں آئے گا، جان بھی جا سکتی ہے۔ اسلام ایک منطقی مذہب ہے، عقلی دلیل پر چلتا ہے۔ سورج ہمیشہ مشرق سے نکلتا ہے،  جد اعلی نے بھی یہی دلیل تھی کہ  اے خدائی کے دعویدار اگر تو خدا ہے تو کسی دوسری سمت سے سورج کو نکال کر دکھا۔

  اُدھر  اب دوسرے حضرت ایک من گھڑت کہانی سنا رہے تھے کہ ایک نوجوان جسمانی معذور تھا ، سخت گرمی کے دنوں میں حج کے سفر کو زمین پر لوٹتا جاتا تھا۔ کسی نے سواری کی پیشکش کی  مگر اس نے ٹھکرا دی کہ ایمان کے اعلی درجے پر تھا، کہنے لگا ایسے ہی  زمین پر گھسٹتا  اور لوٹتا حرم کو جاؤں گا۔ سوچا، یہ کیا   لغو بات ہے۔  سخت گرمی میں تو   صحت مند  بھی ہیٹ سٹروک کا شکار ہو کر زندگی سے جائے، یہ اپنے پاس  سے ایک فسانہِ    فضول کو   مذہبی رنگ دے کر بیان کررہے ہیں۔   اسلام اپنی جان بچانے اور احتیاط کا حکم دیتا ہے، جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی اور اِدھر ایک غیر حقیقی قصہ   جو کسی کی جان کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے مذہبی رنگ دے کر بیان کیا جارہا تھا۔    چپ رہنا ہی مناسب تھا کہ توھین کا الزام لگنا بہت آسان اور اس کا نتیجہ  خطرناک ہوسکتا ہے، اوراگر  اپنی بھی جان بچالی تو جانیے پوری انسانیت کی جان بچا لی۔

حج  مکمل ہوا تو علم ہوا کہ تقریبا ً دو ہزار کے قریب عازمینِ حج گرمی کی شدت کی وجہ سے   خالق حقیقی سے جاملے  ہیں ۔  گرمی حاجیوں اور غیر حاجیوں میں کوئی تفریق نہیں کرتی، یہ اسلام بھی جانتا ہے، نہیں جانتا تو عزیزیہ میں بیان دیتا وہ لاعلم  تھا۔

عزیزیہ  کی عمارت میں ایک ہال کھانے کے لیے مختص تھا۔ دوسرے دن ہدایت آئی ، "کھانے والی جگہ  پر مرد خواتین کا  ساتھ بیٹھنا سختی سے منع ہے۔ اس عمل سے وہ مرد و  خواتین جو پردے کا اہتمام کرتے ہیں ان  کو شدید شکایت ہے۔ برائے مہربانی دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں"۔

اپنی تکلیف کا بتایا ہے  مگر دوسروں کی تکلیف کے بارے میں بھی کچھ سوچ لیتے۔ دلچسپ بات ہے کہ یہی افراد  عزیزیہ آنے سے پہلے  حرم کے قریب  ہوٹل کے قیام میں مخلوط  ہال میں کھانا   کھاتے تھے۔  اب کھانے والی جگہ پر  مختلف مرد خواتین نہیں بلکہ ایک خاندان کے لوگ ساتھ بیٹھ رہے تھے۔ یہ اس لحاظ سے زیادہ اہم تھا کہ مرد اور خواتین کے لیےعمارت میں  کمرے علیحدہ  علیحدہ تھے کہ  ایک کمرے میں مختلف خاندانوں کی خواتین رہ رہی تھیں اور ان کے مرد دوسرے کمروں میں تھے۔  انہیں کھانے کے وقت ہی ایک دوسرے سے ملنے اور بات چیت کا مناسب موقع مل رہا تھا۔  کسی نے اس ہدایت پر اعتراض نہ کیا، اس کی وجہ بھی توھین کا ڈر تھا۔    دوسرے دن عمارت کی چھت پر دھلے کپڑے سوکھنے ڈالنے گیا تو دیکھا کہ ایک میاں بیوی کونے میں سائے میں بیٹھے تھے۔ ان کے لیے یہی جگہ تھی جہاں وہ کوئی بات چیت کر پائیں۔   

مکے میں زیارات کا گائیڈ بھی ایک مُلا ملا۔ غار ِ ثور  دور سے دکھایا تو بتایا کہ ہجرت کے وقت آنحضور ؐکو حضرت ابوبکر اپنے کندھوں پر بٹھا کر اس غار میں لے کر گئے تھے۔ اب ساڑھے سات سو میٹر اونچے پہاڑ پر کوئی کسی اور کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر لے کر جائے گا تو خود بھی گرے گا اور دوسرے کو بھی زخمی کرے گا۔ گروپ میں امریکہ سے آئے ایک نوجوان نے  اپنے بزرگ سے پوچھا کہ کیا  پیغمبرؐ بیمار تھے کہ انہیں کندھوں پر اٹھا کر لے کر جانا پڑا ؟ کسی کے احسان نہ لینے والا، غزوہ خندق میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے کے غیور کے  بارے میں بے عقلی  بات بیان ہورہی تھی۔ پورا گروپ چپ رہا کہ سوال پر توھین کا الزام لگنے کا ڈر ساتھ رہتا ہے۔   

حج سے قبل ایک صاحب نے پوچھا کہ کیا میں حج کے دوران  دھوپ کا چشمہ لگا سکتا ہوں؟

ایک حضرت نے جواب دیا، بہتر ہے نہ لگائیں۔

صاحب نے مزید پوچھا، کیوں چشمہ نہ پہنیں؟

بس نہ پہنیں۔

مگر مجھے تو میرے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ چشمہ پہنیں۔

جواب آیا کہ پھر پہن لیں۔

حج کے سفر سے قبل ہمیں ایک صاحب نے    کہا  تھا کہ وہاں  دھوپ کا چشمہ ضرور لگایئے گا کہ دھوپ سخت ہے۔ اس کے علاوہ سورج کی شعاعیں  سفید فرش اور دوسری سطحوں سے منعکس ہو کر آتی ہیں سو آنکھوں کے بچاؤ کے لیے دھوپ کا چشمہ ضرور پہنیے گا ورنہ آنکھوں میں ورم ہو جائے گا۔یہ ایک غلط خیال ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں تو زیادہ ثواب کے حقدار ہوں گے۔ اگر تکلیف میں ہوں گے تو لازمی بات ہے  کہ عبادت میں  وہ توجہ  اور انہماک نہ ہوگا۔ یہ  ایک عام سمجھ اور عقل کی بات ہے، مگر اسلام کی تعلیمات کو بے سمجھ عقل سے دور جانتے ہیں،صرف خود ہی دور نہیں جانتے بلکہ شدت  سے اس کی پرچار بھی کرتے ہیں اور پھر یہی شدت تشدد کو جنم دیتی ہے۔

سورہ انعام کی بارہوں آیت میں اللہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر دیا ہے۔  صحیح بخاری، کتاب التوحید میں حدیث 34 کہتی کہ اللہ اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہے1۔   مگر ملا اپنے  غیر عقلی اور بے سروپا  خیالات کی پرچار  اور  اس کی شدت و تشدد  سے عمل درآمد پر  ڈھٹائی سے ڈٹا ہے۔  پاکستان اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے دوران کئی مسلمان نوجوانوں سے واسطہ پڑا جو انہیں وجوہات کی بنا پر مذہب سے برگشتہ ہوگئے ۔ اس کے علاوہ کئی نومسلم بھی اسلام قبول کرنے کے  کچھ عرصے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ اس کی  سب سے بڑی وجہ ان نومسلموں کے  حالات اور مسائل کو سمجھے بغیر   غیر عقلی  رہنمائی و احکامات   پر اصرا رہے ۔ یقیناً سورہ بقرہ کی آیت 269     میں بڑی فیض کی بات  بتائی گئی ہے کہ جسے حکمت عطا ہوجائے ، اُسے خیرِ کثیر عطا ہوا۔

دین ِ فطرت کو غیر فطرتی بنانے میں ملاؤں کا بڑا ہاتھ ہے، اور بقیہ  اس سوچ کا کہ  مذہبی معاملات میں عقل کا کُلی کوئی عمل دخل   نہیں۔    

ایک نوجوان  نے عزیزیہ کی عمارت میں نماز کے بعد امام  سے پوچھا کہ کل صبح سے حج شروع ہوگا اور  ہم احرام باندھ لیں گے۔ کیا میں آج اپنے ناخن کاٹ سکتا ہوں؟ جواب آیا ، نہیں، پہلی ذی الہج سے قبل کاٹنے تھے۔ اُس نے کہا ، بالکل میں نے کاٹے تھے مگر میرے ناخنوں کی  بڑھوتی تیز ہے۔ اپنے ہاتھ دکھاتے اس نے کہا ، یہ دیکھیئے، یہ بڑھ گئے ہیں۔ مجھے کوفت ہورہی ہے، اور آگے حج کی دوران تکلیف بھی دے سکتے ہیں۔

جواب، آیا نہیں، آپ نہیں کاٹ سکتے۔

نوجوان نے کہا یہ تو مجھے اسلام کی تعلیمات سے متصادم بات لگتی ہے۔ اسلام صفائی پر اتنا زور دیتا ہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ناخن  نہ کاٹیے۔ احرام باندھنے کے بعد تو یہ  پابندی سمجھ آتی ہے، مگر اس سے قبل یہ بندش عجیب لگتی ہے۔ ایک اور صاحب بھی  اس گفتگو میں شریک ہو گئے۔ وہ کہنے لگے میں نے اس پر تحقیق کی ہے کہ احرام باندھنے سے قبل ناخن کاٹے جاسکتے ہیں۔ اس پر امام   آمادہ ہوئے کہ وہ اس بارے میں بڑوں سے  استفسار کرکے  بتائیں گے۔ اگلی نماز پر بتایا کہ پتہ کیا ہے اور ناخن کاٹے جاسکتے ہیں۔  اب شروع میں ہی انکار سے بہتر تھا کہ کہہ دیتے کہ علم نہیں ہے اور پوچھ کر بتاؤں گا۔ بہرحال اس لحاظ سے بہتر تھے کہ پوچھ کر بتانے پر راضی ہو گئے تھے۔
حج میں  وقوفِ عرفات کے دن سخت گرمی تھی۔ درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تھا۔  غسل خانے کی تلاش تھی کہ  نہانے سے  گرمی کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکے، مگر جس کیمپ میں ٹھہرے تھے ، وہاں کوئی غسل خانہ نہ تھا۔ وہیں ایک باریش صاحب  ورکر کی جیکٹ پہنے نظر آئے    ، ہم نے سوچا کہ یہ یہاں کام کرتے ہیں سو جانتے ہوں گے۔ پوچھا کیا یہاں کہیں غسل خانہ ہے؟

جواب آیا، احرام پہنا ہو تو غسل کی اجازت نہیں۔

یہ اب ایک نادر فرمان تھا۔ پچھلے دن جب منی ٰمیں تو سخت گرمی کے باعث دن میں پانچ دفعہ نہایا تھا۔  ان سے کوئی بحث نہ کی کہ حج  میں  حاصل کرنے کو بے پناہ ہے اور  بلاوجہ  نقصان سے بچنا چاہیئے، مزید یہ  بھی غلطی تھی کہ ہر  باریش کو صاحبِ علم  جانا۔

عرفات کے دن ہم دو سو کے لگ بھگ افراد ایک بڑے خیمے میں تھے۔ خیمے میں اعلان ہوا کہ عصر کے بعد خیمے کے باہر کُھلے میں دعا ہوگی۔    گرمی شدید تھی ، جانیے کہ سورج سوا نیزے پر تھا، پھر بھی لوگ باہر نکل آئے، خواتین کی طرف بھی اعلان ہوا سو وہ بھی باہر آکر ایک جانب کھڑی ہوگئیں۔   لاوڈسپیکر پر دعا شروع ہوئی، رقت تھی، دعا  الفاظ بدل بدل کر  مانگی جارہی تھی۔

 مجھے اُس وقت اپنی کچھ چینی طالب علموں کا خیال آرہا تھا، جن کی انگریزی میں استعداد کم تھی۔ چیٹ جی پی ٹی   جب سے آیا ہے، انہوں نے ایک طریقہ پکڑ لیا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی  میں چینی زبان میں اپنا مدعا  لکھتے ہیں اور  کہتے ہیں کہ اس کی ای میل انگریزی میں بنادو۔ اب ایک لمبی ای میل ان کو دستیاب ہو جاتی ہے۔ ای میل  کئی پیراگراف کی بن جاتی ہے، پہلے آپ کی خیریت پوچھی جاتی ہے، پھر  تمہیدی بیان  آتا ہے، پھر اصل  بات، پھر اختتامیہ کا پیراگراف جس میں آپ کا وقت لینے کی معذرت، آپ کے بہتر دن اور زندگی کی آرزو  شامل ہوتی ہے۔  اس  میں اصل بات ڈھونڈنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ ایک طالب علم کے اس طریقہ ِواردات سے  تنگ آکر میں نے اس کا داؤ  اُسی پر لگادیا کہ چیٹ جی پی ٹی کو اس کی ای میل سے مواد دے کر جواب مانگتا۔ جب اُسےکچھ جوابی چیٹ جی پی ٹی کی بنائی ای میلز  ملیں تو جان گیا کہ کیا ہورہا ہے، سو آئندہ  خود چھوٹی ای میل لکھنے لگا۔

دعا  طویل  ہوگئی تھی۔ 

کسی کا قول یاد آرہا تھا کہ اگر میرے پاس زیادہ وقت ہوتا تو میں مختصر بات لکھتا۔

اقبال  کی نظم " غلاموں کی نماز"  کا سوال سامنے تھا، " طويل سجدہ ہيں کيوں اس قدر تمھارے امام" اور جواب بھی کہ " بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم" اور " ورائے سجدہ غريبوں کو اور کيا ہے کام"۔ 

بیس منٹ اس طرح ہوگئے۔   گرمی سے لوگ تنگ تھے۔لاوڈسپیکر  گونج رہا تھا۔ خیال آیا کہ جو شروع میں لاوڈ سپیکر پر شرعی ممانعت آئی تھی ، وہ ٹھیک تھی۔

بیس منٹ بعد ملا بدل گیا۔ اب  ایک اور صاحب اپنی زبان کے جوہر دکھا رہے تھے۔ بیس منٹ انہوں نے لیے۔ مواد ایک ہی تھا، جملے بدل بدل کر آرہے تھے۔ آگ آسمان سے برس رہی تھی۔

پیغمبر ؐ  کے حجتہ الوداع کے خطبے کا خیا ل آرہا تھا ۔  وہ خطبہ جو  انسانیت کا منشور ہے، صدیوں قبل  اس جگہ کے قریب ہی دیا گیا تھا اور  اُسی وقت دین کی تکمیل کی آیت اتری تھی۔ وہ خطبہ جس کے دینے والے کو خبر تھی کہ وقتِ رخصت قریب ہے۔ وہ خطبہ جس میں مساوات انسانی بیان ہوئی کہ رنگ و نسل نہیں بلکہ اعمال فوقیت کا معیار ٹھہرا۔ دوسروں کے مال  اور  زندگی کی حرمت قرار پائی، سود حرام   ٹھہرا،  مردوں کو بتایا کہ اگر ان کے عورتوں پر حقوق ہیں تو عورتوں کے بھی حقوق ہیں، بیویوں  سے اچھا سلوک کرو، ارکانِ اسلام کا اعادہ کیا، قرآن اور سنت کی اتباع کی تلقین  کی۔
خطبہ جو انسانیت کا منشور ہے، مسائلِ عالم کا حل ہے، اور اس خطبے کا پورا  دورانیہ تین سے چار منٹ تھا۔

دعا جاری تھی، اب تیسرے صاحب کے ہاتھ میں مائیک تھا۔

ایک بزرگ پر نظر پڑی۔  وہ ویل چیئر پر باہر لائے گئے تھے۔ ان کے بیٹے نے  خیمے سے ایک صوفہ کم بیڈ  نکال کر انہیں اس پر بٹھایا تھا۔ گرمی اور لمبی دعا نے انہیں ہلکان کردیا تھا۔ وہ اپنے جسم کو سنبھال نہ پارہے تھے۔ صوفے سے ایک طرف کو لڑھکتے تو بیٹا انہیں سہارا دے کر دوسری طرف کو بٹھاتا، اگلے کچھ منٹ میں وہ دوسری طرف کو  لڑھک جاتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر  ترس آتا تھا۔

  لاوڈسپیکر  پر تیسرے صاحب اپنے تخلیق کردہ غیر مرئی بادل سے حاضرین کو ڈھانپے تھے جبکہ سورج بدستور اپنی آگ برسا رہا تھا، مرد خواتین باہر کھلے میں گرمی میں تھے،دعا جاری تھی، پسینہ بہہ رہا تھا ۔   

 مدینہ میں مقام مقدسہ  کی زیارت کے لیے بس روانہ ہوئی۔ گائیڈ گٹھے جسم کا  درمیانی عمر کا  آدمی تھا،    سر  کی دم پر سندھی ٹوپی ٹکائی تھی۔ بس میں اس کے موبائل پر  فون آگیا، اس کی بات چیت سے اندازہ ہوگیا کہ بد آموز شخص ہے کہ فون پر دوسرے پر چلا رہا تھا۔  زیارتوں کے بارے میں بتاتے اپنے نظریات زیادہ پھیلاتا رہا۔  گائیڈ  کی ذمہ داریوں سے  کلی طور پر ناواقف تھا۔

برائے مہربانی اس کا تکیہ کلام تھا،  برائے مہربانی میری طرف متوجہ ہوں  اور پھر برائے مہربانی کہہ کر آگے فضول بات کرتا تھا ۔ غزوہ احد کے مقام پر پہنچے تو کہنے لگا کہ لوگوں کو علم نہیں کہ یہ کیا مقام ہے۔ یہاں آتے ہیں اور اپنے لیے گناہ اکٹھے کر کے لے جاتے ہیں۔  اُس پہاڑی پر چڑھ جاتے ہیں جس پر جنگ کے دوران تیر انداز تعینات تھے۔ وہاں شہیدوں کو لہو بہا ہے، اُس مقام کی اپنے جوتوں بے حرمتی کرتے ہیں۔حج کرنے آتے ہیں اور گناہ اکٹھے کرکے لے جاتے ہیں۔  حج کرنے لوگ آتے ہیں اور واپس جاکر اپنی چھریاں تیز کرلیتے ہیں۔

 برائے مہربانی، بس سے اتریں تو خواتین علیحدہ چلیں اور مرد علیحدہ چلیں، یہ سنت ہے۔

 اب سنت تو اپنے خاندان کا خیال رکھنا بھی ہے۔  حج کے فواراً بعد کا وقت تھا۔ بسیں بھر بھر کر لوگ زیارت کے لیے آرہے تھے۔ ہجوم میں گم ہونے کا خدشہ بھی تھا۔   بس اتارتی کہیں اور تھی اور رکتی کہیں اور تھی، زیارت کے بعد بس ڈھونڈنا بمعہ   اپنے خاندان کے کسی فرد کو ڈھونڈنا آسان نہ ہوتا۔ہمیں ماضی قریب میں   تجربہ بھی ہوا  تھا کہ  حج کے دوران اہلیہ ہجوم میں گم ہوگئی تھیں، اور ہم   پریشانی میں انہیں   ہجوم میں ڈھونڈتے رہے تھے۔  ایک دوست نے حج کے بعد یہ قصہ سنا تو کہنے لگا، واقعی آپ کی پریشانی  کا  اندازہ ہوتا ہے کہ بجائے شکر کرنے کے ڈھونڈنے لگ گئے تھے۔ سو   اس   علیحدگی کے فرمان  کو ہم نے سیاق و سباق کی بنا پر اُسی  ملا کا  کہا جانا اور زیارت میں علیحدہ نہ ہوئے۔ مگر کچھ کہنے سے بھی پرھیز کیا کہ اس کے اطوار کافی خطرناک تھے۔ وہ کسی پر بھی توھین  کا الزام لگا کر اپنے شور کے زور پر مجمع اکٹھا کرنے اور خود بھی حملہ آور ہونے  کی اہلیت رکھتا تھا۔

حضرت سلیمان فارسی کے باغ کے بارے میں بھی اس گائیڈ کا بیان عقلی پیمانے پر غلط لگا۔ کہتا کہ حضرت سلیمان کو غلامی سے آزادی کے لیے ان کے یہودی مالک نے سونے  کی ایک مقدار کے ساتھ ایک کھجوروں  کا  باغ لگانے کی شرط لگائی کہ جب وہ باغ پھل دے گا تو  غلامی سے آزادی دی جائے گی۔آنحضورؐ نے صحابہ سے پودے منگوائے اور آپ ؐ اپنے ہاتھوں سے لگاتے جاتے تھے۔ آپؐ پودے لگا کر آگے گئے کہ جبرئیل حاضر ہوئے اور کہا کہ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ دیکھا تو پودے تناور درخت بن چکے تھے اور ان پر کھجوریں لگی تھیں۔  اسی طرح سونا کی تھوڑی سے مقدار  آپؐ نے ایک کپڑے کے نیچے رکھی اور جب  کپڑا ہٹایا تو سونا زیادہ ہو چکا تھا۔  یہ من گھڑت قصہ تھا۔

باغ کی زمین بنجر تھی اور پیغمبر ؐ کے ہاتھوں سے لگائے کھجور کے تمام پودوں نے اس بنجر زمین میں جڑیں پکڑیں اور اپنا وقت لے کر    پھلے پھولے۔  بنجر زمین میں اس باغ کا قائم ہونا اپنے طور پر ایک اشارہ ہےمگر پلک جھپکتے پودوں کا تناور درخت بننا اور کھجوروں سے لد جانا  کسی مستند حوالے میں نہیں آتا۔ اسی طرح سونے کی بابت  بھی گائیڈ کے بیان کی بھی کوئی شہادت نہیں ملتی۔  

سب حاضرین چپ چاپ تھے۔ زیارات کا سفر اب ختم ہورہا تھا۔ گائیڈ نے اپنا تھیلا کھولا اور اب وہ  کوئی تیل بیچ رہا تھا، جس کا ماخذ وہ  صحابہ کے دور سے بیان کررہا ہے۔  اگر آپ  کو کوئی اندرونی بیماری ہے تو اس کے دو قطرے صبح شام لیجئے، اگر بواسیر ہے تو اس کے دو قطرے روئی کے ذریعے سے صبح شام لگائیں۔ اگر قوت کی کمزوری ہے تو دودھ میں تین قطرے صبح شام لیں۔ برائے مہربانی طریقہ استعمال کو سمجھیں۔

پھر وہ مارکیٹنگ کی  مہارت کا مظاہرہ کر رہا تھا، " ایک بوتل کی قیمت   پانچ ریال ہے، اگر آپ پانچ بوتلیں خریدیں گے تو بائیس ریال ، اگر دس بوتلیں خریدیں گے تو  چالیس ریال قیمت ہوگی"۔

اب وہ پھر اس تیل کی کرامات بیان کررہا تھا۔ بیچنے والے کو بس میں موجود خواتین ، نوجوانوں اور ان کے والدین کسی کا کوئی خیال نہ تھا۔   تیسری چوتھی دفعہ  بیان ِبرائے مہربانی اور بالواسطہ جنسی قوت کے تیل کے اشتہار کے بیان پر دل چاہتا تھا کہ  اُسے اگر شہر ِ مدینہ کا خیال کرتے چلتی بس سے پھینک نہیں سکتے تو کسی طرح اتار دیں۔  

پتا لگا کہ ہر ایک اپنا مال بیچ رہا ہے۔

حج میں پرائس کنٹرول نہیں ہے ، ٹیکسی کے کرایوں سے سر مونڈتے نائیوں تک سب کا اپنا میزان ہے۔نیز مقر ر  اور ان کے بیان دونوں بے قابو ہیں۔ اس بنا پر عقل کے استعما ل کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔   عقل استعمال کریں ورنہ دین اور دنیا دونوں لُٹ جائیں گے۔

آخر میں  اس مضمون کا مقصد علامہ  کے ایک شعر کی صورت پیشِ خدمت ہے۔

فقیہہ شہر کی تحقیر ! کیا مجال مری

مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

    

    1.     https://sunnah.com/bukhari:7405  

 

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر