کفارہ

تحریر:    عاطف ملک

منیٰ خیموں کا جنگل تھا۔ وادیِ منیٰ جہاں   حج کے دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی خیمہ بستی  بستی ہے۔ سفید رنگ خیمے جن کی اوپری سطح مٹی سے گرد آلود ہے۔ چاروں جانب سے سطحیں درمیان میں ابھرتیں اور مل کر ایک چوکور خانہ خالی چھوڑتی ، جن پر ایک ٹوپی کی مانند  سفید سطح رکھی گئی ہے، وہاں خالی جگہ ہے کہ ہوا اندر جاسکے ۔سطح اور  ٹوپی کے سفید رنگوں میں فرق ہے، فرق کہ دونوں نے مختلف حالات دیکھے ہیں، عمر فرق ہے، دھول کی مقدارفرق ہے، دھوپ کے دن مختلف  ہیں، جھریاں فرق ہیں، بہتے پانی کی لکیریں فرق ہیں۔

ہر خیمے کے اوپر ایک جانب ایرکنڈیشنر کا باہری حصہ نصب تھا۔ اس پر بھاری ذمہ داری عاید تھی، جون کی سخت گرمی میں کہ درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈسے اوپر پہنچتا تھا، اس پر بھاری ذمہ داری عاید تھی کہ خیمے میں درجہ حرارت کم رکھے۔  خیمے میں اندر سفید احرام پہنے پینتیس سے چالیس افراد تھے۔ ان کے رنگ مختلف تھے، ان کی عمریں فرق تھیں، ان کی دھول کی مقدار فرق تھی، دھوپ میں گذرے دن فرق تھے، جھریاں فرق تھیں، ان کے چہروں پر  بہتے پانی کی لکیریں فرق تھیں، ان کے بوجھ فرق تھے،ان کی آگ فرق تھی۔

 ایر کنڈیشنر پر بھاری ذمہ داری عاید تھی، اس نے خیمے میں درجہ حرارت  کم رکھنا تھا، اپنا کردار ادا کرنا تھا  کہ  ان افراد کے آنکھوں سے بہتے آنسو  ان کے دامن پر لگی گرد صاف کر جائیں۔

  ا ن میں نوجوان تھے، تعلیم مکمل کر کے زندگی کے عملی دور پر قدم دھرتے، وہ   رہنمائی کے خواہاں ہیں، رب سے ایک سمت کے متمنی ہیں   ۔ان میں ادھیڑ عمر تھے جن کے پلوں کے نیچے سے کافی پانی گذر چکا  مگر وہ  الجھن کے شکار ہیں، زندگی کے تجربات اُن کے لیے  وضاحت اور توجیح دینے کی بجائے مزیدتذبذب ڈال گئے ہیں، وہ کنفیوز ہیں، وہ  وضاحت چاہتے ہیں، کسی راہ کے متمنی ہیں، راہ، جوڈھارس بندھا دے، جو سیدھی ہو، جو طبیعیت کے انتشار پر بھاری ہو، وہ سمت کے متمنی ہیں  ۔  ان میں ضعیف تھے، وہ جانتے تھے کہ وہ چراغِ سحری ہیں، بجھا جاتے ہیں۔ وہ اس گرم آلود خیمے میں خداحافظ کہنے آئے تھے۔میں حاضر ہوں، یہ کرم ہوا ہے کہ میں حاضر ہوا، حاضری قبول کرلیں  ۔ سخت گرمی ہے، علم نہیں کہ راہ کدھر کو لے جائے،  ابھی یا کچھ عرصہ بعد، بس قبول کرلیں۔ لبیک اللھم لبیک، میں حاضر ہوں، رجسٹر پر میری حاضری لگالیں۔ حاضری لگالیں، کام  کر پایا کہ نہیں، کر پاوں گا یا نہیں، یہ نہ پوچھیں، حاضری لگالیں۔ وقتِ رخصت قریب ہے، حاضری لگالیں، لبیک اللھم لبیک۔

گرمی بلا کی تھی، ایر کنڈیشنر  درجہ حرارت کم کرنے سے قاصر تھا۔خیمے میں تین مختلف حج آپریٹر کے گاہگ تھے۔ ایک حج آپریٹر نے اپنے افراد کی تصاویر دیوار پر ساتھ ساتھ لگائی تھیں اور آگے سبز رنگ کے صوفہ کم بیڈ رکھے تھے۔  اس طرح دس افراد کے جگہ متعین ہو گئی تھی۔ اس سے  آگے دوسرے حج آپریٹرز کے ذریعے آئے لوگوں نے دیواروں کے ساتھ اپنے بیگ رکھ کر جگہ لے لی تھی۔

گرمی بلا کی تھی اور خیمے میں موجود افراد کے ہمراہ صوفہ کم بیڈ  کے گدوں نے گرمی میں اضافہ کیا تھا۔ باہمی فیصلہ کیا گیا کہ  ان صوفہ کم بیڈ کو ہٹا دیا جائے، سو سب کو کمرے کی ایک جانب سیدھا کر کے ایک دوسرے پر رکھ دیا گیا۔ جگہ کم پڑ رہی تھی سو کچھ گدوں کو کمرے سے باہر رکھ دیا گیا۔

میں خیمے میں دیر سے پہنچا تھا، سو دیواروں کے ساتھ کی تما م جگہیں لے لی گئی تھیں۔ میں کمرے کی درمیانی جگہ میں قالین پر  بیٹھ گیا، میرا چہرہ  دور دروازے کی جانب تھا۔ دن گذارنا تھا، گرمی شدید تھی اور واحد ایر کنڈیشنر ناکافی تھا، لوگ  خدائے واحد کے سہارے وقت کاٹ رہے تھے۔ حج آپریٹر خیمے میں شاید زیادہ ایر کنڈیشنر لگوا سکتا تھا ، مگر اس میں لاگت زیادہ  لگتی ہے۔

مگر وہ شخص اس صورتحال کو مشقت نہیں بلکہ خدمت کی صورت دیکھ رہا تھا۔ میں نے بہت جلد اُس کا مشاہدہ کر لیا تھا۔ وہ درمیانے قد کا  ادھیڑ عمر آدمی تھا، کلین شیو،  عمرے کی وجہ سے سر کے بال مونڈےتھے، مگر  پھر بھی اندازہ ہوتا تھا کہ سر کے بال کم ہیں۔وہ میرے دائیں جانب تھا، اُس کا باپ اور بیٹا ساتھ تھے۔ اس کا  باپ ستر کے پیٹے میں اور بیٹا  ابھی بیس سال کی عمر کوپہنچ رہا  ہوگا۔  کبھی وہ اپنے بیگ سے نکالے ہاتھ کے الیکٹرک پنکھے سے باپ کو ہوا دیتا، پھر بیٹے کو، پھر اُس نے پنکھا میری جانب کردیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرکے بزرگ کو ہوا دینے کا کہا۔

کچھ دیر بعد اس نے اپنے بیگ سے پانی کی پمپ بوتل نکالی لی، ایسی جیسی نائیوں کے پاس ہوتی ہے، جس سے وہ بالوں اور چہرے پر پھوار ڈالتے ہیں۔ اب وہ باری باری اپنے قریب بیٹھے لوگوں پر پانی کی پھوار پھینک رہا تھا۔ وہ باپ سے پنجابی میں جبکہ  لڑکے سے انگریزی میں بات کرتا تھا ۔ مجھ پر بھی اُس نے وقتاً فوقتاً پانی کی پھوار پھینکی۔

گرمی شدید تھی، میں بیچ بیچ میں اٹھ کر باہر جاتا تھا۔ خیموں کا شہر سال میں چار پانچ دنوں کے لیے بستا ہے سو  علیحدہ غسل خانے نہ  بنائے گئے تھے، مشرقی انداز کے ٹوائلٹ کے جس میں قدموں کے بل بیٹھا جاتا ہے، ان کے اوپر شاور لگا دیے گئے تھے۔   منیٰ میں اُس گرم دن میں پانچ دفعہ نہایا، پانی گرم تھا مگر پھر بھی  کچھ  وقتی سکون دے جاتا تھا۔

گرمی شدید تھی۔ لوگوں کے چہرے سرخ  تھے، احرام سے  لوگ اپنا پسینہ پونچھتے تھے۔ اوپری چادر کبھی اوڑھ لیتے، کبھی لپیٹ لیتے، کچھ نے اتار کر ایک طرف رکھ دی تھی۔ اوپری بدن پسینے کے قطروں سے چمکتا تھا۔ گرمی تھی، مگر بلاوا بھی تھا۔ کچھ  موبائل  فون سے پڑھ کہ قرآن کی تلاوت کررہے تھے، کچھ قرآن ساتھ لائے تھے اور پڑھ رہے تھے۔ کچھ نوافل میں مصروف تھے۔  دن پورا  منیٰ میں گذارنا تھا۔ ظہر کی نماز کو وقت ہوا تو  خیمے میں ایک جانب لوگ صف آراء ہوئے، ایک جوان پیروں کا استاد ٹھہرا اور اس نے امامت کروائی۔

وہ جب بھی خیمے سے باہر جاتا ، پوچھ کر جاتا تھا،  واپسی پر دوسروں کے لیے پانی ، جوس، کچھ نہ کچھ لے کر آتا تھا۔ عصر کی باجماعت نماز خیمے میں مکمل ہوئی تو اس نے اپنے بیگ میں سے ایک سنہرا بند لفافہ نکالا جس کا منہہ پوری طرح ہوا بند تھا۔   وہ لفافہ  لے کر پورے خیمے میں لوگوں میں   کھجوریں بانٹنے لگا۔ منیٰ کا خیمہ، دو  اَن سلی سفید چادروں میں ملبوس لوگ، پسینے سے چمکتے  ماتھے، دعاؤں کے لیے اُٹھے ہاتھ، سالہا سال کی بچت کے نتیجے میں کیا گیا سفر، نماز کے بعد لبیک اللھم لبیک  کا بلند آواز اظہار،  اور  مبروم نسل کی کھجور بانٹتے دو ہاتھ، میں اُس شخص میں دلچسپی محسوس کررہا تھا۔  وہ خیمے میں موجود  ہر شخص کی حتی المقدور مدد کر رہا تھا۔

فجر کے بعدہم عرفات کو عازمِ سفر ہوئے۔ عرفات میں گرمی  منیٰ سے کسی لحاظ سے کم نہ تھی۔ یہاں خیمہ بڑا تھا، ڈھائی سو زیادہ افراد ہوں گے مگر اس بڑے خیمے میں آٹھ بڑے ایر کنڈیشنر لگے تھے سو درجہ حرارت منیٰ کے خیمے کی نسبت کہیں بہتر تھا۔ وہ عرفات کے خیمے میں مجھے نہ نظر آیا۔  مگر جب غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کا سفر  درپیش ہوا تو وہ مجھے دوبارہ نظر آگیا۔ میں نے وہی بس لی  جس میں وہ سفر کر رہا تھا۔

مزدلفہ کی وسیع میدان میں رات کھلے آسمان کے نیچے گذارنی تھی۔ عجب منظر تھا،  لوگ ، جس جانب دیکھو لوگ تھے ، مرد وزن کی برابری تھی، مرد سفید چادروں میں ملبوس،  خواتین عبائے اوڑھے ،  چادریں بچھا کر لوگ زمین پر لیٹے تھے ، کچھ نے سر کے نیچے بیگ رکھے تھے ،  کچھ زمین پر سر دھرے تھے،  کئی ضعیف ویل چئیر پر تھے، اولاد  اپنا فرض ادا کرتے ان کے حج کے فریضے میں معاون تھی۔  نصف شب کو مزدلفہ پہنچے تھے اور پھر ہم نے میدان میں چادر بچھائی اور   مغرب اور عشاء کی نمازیں  اکٹھی باجماعت ادا کیں۔ 

نسل ِانسانی کی برابری کا منظر تھا۔  تھکن تھی ، میں نے چادر کے نیچے سے پتھر اٹھا کر پرے کیے، زمین پر لیٹنے کی تیاری تھی۔   

کئی باتیں ذہن میں آتی تھیں، وہ دن جب اعمال کی بازپرس ہوگی کیا اس رات سے مماثلت رکھتا ہوگا؟  کیا یہ منظر زندگی کے آغاز کا رنگ ہے یا زندگی کے اختتام کا عکس ہے؟ صبح اٹھ کر شیطان کو کنکریاں مارنی ہیں، کیا میرے اندر کا شیطان یہیں مزدلفہ کے میدان میں رہ جائے گا، یا میرا ہمراہی بن کر کنکریاں مارتے مجھ پر ہنسے گا؟ یہ جو عورت کی  تزحیق کی مذہب سے سند لاتے ہیں، وہ اس مزدلفہ کے میدان سے کتنے غافل ہیں۔ مرد عورت برابر، تمام مناسک کی مشکلات برابر، چہرے ظاہر، لبیک کا نعرہ ایک۔ وہیں میری نظر ایک سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ فام عورت پر پڑی ، شاید وہ  صحرائی عورت تھی۔ سفید کپڑے پہنے اس نے سفید چادر سر پر ایسے اوڑھی تھی  کہ اس کا ایک پلو اُس کی ٹھوڑی کےنیچے  سے ہوکر سر پر آتا تھا۔ شاید وہ صحرا میں اس کو کھینچ کر ناک سے اوپر کر لیتی ہو۔  اس کی کمر پر ایک سرخ سیاہ رنگدار کپڑے میں بندھا  سال سے کم عمر بچہ تھا۔ حج کی مشقت وہ اپنی مادری ذمہ داری کے ساتھ اٹھا رہی تھی۔ مزدلفہ کی اُس شب وہ سیاہ فام عورت مجھے عورت کی بڑائی کا مینار نظر آئی۔

اُسی دوران میری نظر اپنے منیٰ کے ہم خیمہ پر پڑی۔ وہ ایک بستر کا رول اپنے کاندھوں پر اٹھا ئے مزدلفہ آیا تھا، ویسا جیسے جنگلوں اور صحراوں میں پھرنے والے اٹھائے پھرتے ہیں۔ اس نے وہ اپنے باپ کے لیے بچھایا۔ باپ  اس بستر کو لینے سے ہچکچارہا تھا، مگر پھر وہ   اُس بستر پر لیٹنے پر آمادہ ہوگیا۔

وہ جب سونے کے لیے زمین پر چادر بچھا کر لیٹا تو میں اس کے پاس چلا گیا۔  پوچھا، آپ کے والد کی کیا عمر ہے؟

 جواب آیا کہ یہ میرے والد نہیں ہیں۔ میں تو پہلی دفعہ ان سے منیٰ کے خیمے میں ملا ہوں۔

تو یہ لڑکا بھی آپ کا بیٹا نہیں ہے۔

جی  نہیں، یہ میرا بیٹا نہیں، یہ تو ان بزرگ کے ساتھ ہے۔  میں تو ان کا خیال رکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔
میں  یک دم حیران تھا، میں دو دنوں سے ایک غلط مفروضہ لگائے تھا۔

آپ اچھے ہیں، آپ  لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔

میرے پر ایک کفارہ واجب  ہے، برس ہا برس قبل کا ایک کفارہ ، جو مجھے ادا کرنا تھا۔ حج پر آیا ہوں تو  جانا کہ کفارہ ادا کرنے کا  یہی موقع ہے سو  اسی کی کوشش کررہا ہوں۔

کفارہ؟  کیسا کفارہ ؟  کیا آپ مجھے اس کے متعلق بتا سکتے ہیں؟

برس ہا برس پہلے کی بات ہے کہ    یہی جون کا ماہ تھا  کہ ایک رات لاہور سے پنڈی کے لیے  رات بارہ بجے والی ریل کار پر روانہ ہوا۔   ٹکٹ گھر پر پہنچا تو پتہ لگا کہ کوئی برتھ بھی خالی نہیں، سب کی ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔  ایک قلی سے بات کی تو اس نے بتایا کہ اکانومی کلاس میں اوپر کی برتھوں کی ریزرویشن نہیں ہوتی۔ جیسے ہی ٹرین اسٹیشن پر آئے تو کسی بھی اکانومی کلاس کے ڈبے میں چڑھ کر اوپری برتھ پر لیٹ جانا ۔

اتوار کی رات تھی ، ٹرین کھچاکھچ بھری تھی کہ بہت سے لوگ ہفتہ واری تعطیل کے بعد پنڈی جارہے تھے۔  ٹرین آئی تو بھاگ کر ایک اکانومی کلاس کے ڈبے میں چڑھ کر اوپری برتھ پر لیٹ گیا۔ ٹرین چلی تو سوچا کہ سونے سے قبل ایک دفعہ ٹوائلٹ کا چکر لگالوں اور پھر آرام سے سو جاوں گا۔  

میری طرح ایک اور    آدمی نے  بھی سامنے والی بے بکنگ برتھ پر قبضہ کیا تھا۔ ایک دہائی سے قبل کا واقعہ ہے، سو اس شخص کا چہرہ یاد نہیں، مگر حلیہ بتاتا تھا کہ کوئی خوشحال آدمی نہیں ، شاید کسی فیکٹری میں کام کرتا مزدور ہو، کسی دکان کا سیلز مین ہو، کوئی دھاڑی دار ہو ۔ میں نے اُسے اردو میں کہا کہ میری برتھ کا خیال رکھنا اور میں ٹوائلٹ کا چکر لگا کر آتا ہوں۔  آگے سے پنجابی میں جواب آیا کہ فکر نہ کریں۔

جب میں واپس پہنچا تو دیکھا کہ ایک عورت اوپر برتھ پر لیٹی تھی۔  اُسے کہا کہ یہ برتھ تو میری تھی۔ وہ انکاری ہو گئی، کہنے لگی ، برتھ تیری تھی، اب میری ہے۔ میں نہیں اترتی جو کرنا ہے کرلے۔ لوگوں نے بھی اسے کہا مگر اُس نے کہا، جو کرنا ہے کرلو میں نہیں اترتی۔
اُس برتھ والے کو کہا کہ بھائی تجھے ذمہ دار کر کے گیا تھا، تو  نے اس کا خیال نہیں کیا۔ وہ کہنے لگا، میں نے تو اُسے بتایا تھا، یہ نہ مانی۔ اب دھونس کے آگے بندہ کیا کرسکتا ہے۔
تماشبین  کچھ دیر تو معاملے میں دلچسپی لیتے رہے، مگر  کچھ دیر میں اکنامی کلاس کے دوسرے مسائل  کی طرح اس کو بھی اللہ کا دیا جان کر مجھے مشورہ دینے لگے ، بس جانے دیں، رات گذاریں۔

میری زندگی کے تجربات ابھی خام تھے۔ میں نے اس شخص کو کہا کہ آپ کو کہا تھا کہ برتھ کا خیال رکھنا۔ اس نے جواب دیا، باوجی، کوئی بات نہیں۔ آپ میری برتھ لے لیں۔ پانچ گھنٹوں کی ہی تو بات ہے۔ 

میں نے کہا، نہیں۔ کہنے لگا ، نہیں، آپ تھکے لگتے ہیں، میری برتھ لیں، آرام کرلیں۔ مجھے آپ ذمہ دار کرکے گئے تھے۔ میں نہ خیال کرپایا ، سو آپ  میری برتھ پر سو جائیں۔

میری زندگی کے تجربات ابھی خام تھے۔ میں اس کی برتھ پر لیٹ گیا اور سو گیا۔  آنکھ کُھلی تو صبح کی روشنی پھیل رہی تھی اور ریل کار چکلالہ  کی بستی میں داخل ہورہی تھی۔ دیکھا کہ وہ شخص   ڈبے  کا دروازہ کھولے، ٹانگیں باہر لٹکائے  فرش پر بیٹھا ہے ۔ اس کا چہرہ رت جگے کا آئینہ دار تھا۔
ایک تاسف میرے اندر در آیا، میرا  اُس سے برتھ لینے کا فیصلہ غلط تھا۔  

اب کفارہ لازم تھا۔

برس ہا برس گذر گئے، کفارہ اتارنے کی سمجھ نہ آتی تھی۔

اس سال حج پر نام نکل آیا ، تو جان لیا کہ کفارہ ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سب خدمت اس نیت سے کر رہا ہوں کہ اللہ اس شخص کو میرا اس حج میں خدمت کا اجر دے ، شاید اُس رات کا کفارہ ادا ہوجائے۔  

لبیک اللھم لبیک، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔

مزدلفہ میں صبح کی روشنی  ظاہر ہونا شروع ہورہی تھی، اور میرے ذہن میں صبح کی پھیلتی روشنی میں چکلالہ میں داخل ہوتی ریل کار کا منظر تھا، جس کی اکانومی کلاس کے دروازے پر ایک عام سا، نامعلوم شخص ٹانگیں باہر لٹکائے بیٹھا تھا۔  وہ جو  مزدلفہ کے میدان میں نہ ہوتے ہوئے بھی   کفارہ اتارتے ایک نامعلوم ادھیڑ عمر کے ساتھ موجود تھا ۔  دو نامعلوم ایک وقتِ معلوم کے بھلے عمل سے ساتھ جڑے تھے۔

کر بھلا  ہو بھلا انت بھلے کا بھلا
ختم شد


Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#عاطف-ملک

 

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر