اور کان ہیں کہ پرندوں کی چہچہاہٹ کو ترس گئے ہیں



تحریر: عاطف ملک

آج صبح پودوں کو پانی لگاتے ایک مینڈک کو دیکھا کہ اونچے مقام پر جاپہنچا تھا۔ اُسے دیکھا تو کئی اور منظر نگاہ میں اورخیال سوچ میں آگئے۔

سب سے پہلا خیال یہ تھا کہ کیا یہ مینڈک ہے کہ مینڈکی۔ آج کے فیمینزم کے دور میں مردانہ صیغہ کا واحد استعمال خصوصاً ترقی کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں۔

مینڈک کی اس ترقی کو دیکھ کرکچھ پرانے تجربے یاد آگئے۔ ایک نوکری تھی جس میں ٹرٹرانے کی خصوصی اہمیت تھی۔   کارکردگی ناپنے کے پیمانے اہداف یعنی ٹارگٹ 
Target based
 کی بجائے گمانی یعنی 
Subjective
 ہوں تو یار لوگوں نے جان لیا کہ ٹرٹرانے کی اہمیت دوچند ہے۔ ایسے میں نیچے والوں سے بدتمیزی کو بھی کارکردگی کا معیار جان لیا گیا، سو وہ مینڈکوں کا شور تھا کہ چمن میں جو چند پرندے چہچہاتے تھے، وہ باعثِ الزام ٹھہرے۔ جوپرند اڑ سکے اڑ گئے، باقیوں کی آواز ٹرٹراہٹ میں گم تھی۔ مگر ایسے پرندوں کی اہمیت دوچند تھی کہ کثیف ہوا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا بھی زندگی بخش ہوتا ہے۔

مینڈک نوکری کی شاخوں پراوپرچڑھتے گئے، جب وہاں سے گرے تو پریشاں حال تھے کہ محنت کی استعداد تو کھو بیٹھے تھے۔ ٹانگیں کمزور تھیں، چھلانگ لگاتے تھے تو اپنے ہی قدموں میں دوبارہ آ گرتے تھے۔ اور بدتمیزی کی سوا کوئی اور گُن آتا بھی نہ تھا۔

مینڈک سے مینڈکی کی طرف چلتے ہیں کہ فیمینزم کا زمانہ ہے۔ ایک یونیورسٹی میں ایک مینڈکی سے بھی واسطہ پڑ گیا، ڈیپارٹمنٹ کی ڈین تھیں۔ اس تصویر کےمینڈک معاف کیجیئے گا مینڈکی کے تو نقش و نگار قدرتی ہیں، وہ قدرتی کے علاوہ نقش و نگار کی ذاتی محنت پر پورا یقین رکھتی تھیں۔ بدتمیزی کو صرف مردانہ علاقہ نہ جانتی تھیں بلکہ مردانہ وار وار کرتی تھیں۔ ایک ماتحت کو کہ جب وہ قابو نہ آیا تو زنانہ وار سے زیر کرنے کی کوشش کی کہ یونیورسٹی کی انتطامیہ کو اس سے ہراسانی کا الزام ٹرٹرادیا۔ آخر گریں اور زمیں بوس ہوئیں، سنا ہے آج تک مٹی کی دھول اڑاتی ہیں، ٹرٹراہٹ ابھی بھی زور و شور سے جاری ہے۔

خیال ماضی کے دور سے آج کے دورِ ٹرٹراھٹ میں لے آیا۔

آج کے دورِ سیاست میں مینڈکوں کا وہ شور ہے کہ الامان، کوئی اور آواز کان میں نہیں پڑتی۔ کسی پروگرام کے اینکرکو دیکھ لیں یا سیاسی پارٹیوں کےعہدیداروں کو دیکھ لیں، ہرایک آنکھیں بند کیے، ٹر ٹرا رہا ہے۔ پھیپھڑوں کے پورے زور سے، آنکھوں کے ساتھ ساتھ  ذہن کو بھی بند کیے، بدتمیزی کی لے لیے۔

اور بے قدری ِانسان ہے کہ تیزی سے ترقی کے پودے پر چڑھے جارہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی ایسوں کا راج ہے، آنکھیں بند کیے، ٹرٹرا رہے ہیں ۔ پیپھڑوں کے پورے زور سے، آنکھوں کے ساتھ ساتھ ذہن کو بھی بند کیے، بدتمیزی کی لے لیے۔

بے سروپا، گھٹیا، ناقابل فہم، جھوٹی پوسٹوں کی بھرمار، اپنے ساتھی انسانوں کی تذلیل کرتیں، انسانیت کو پامال کرتیں۔ 

انسانی شعور اور ذہنی استطاعت کی ایسی بے قدری۔ ہر شاخ پر الو بیٹھنے کے دور سے آگے ہر شاخ پر مینڈک بیٹھا ہے اور یوں ٹرارہا ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔

اور کان ہیں کہ پرندوں کی چہچہاہٹ کو ترس گئے ہیں۔

نوٹ : ٹرٹراھٹ ایک نیا لفظ گھڑا ہے۔ 
یہ پوسٹ کسی بھی سیاسی وابستگی سےبالاتر ایک کوشش ہے کہ اختلافِ رائے کو شائستگی کےساتھ مانا جائے۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر