حلال ذہن میں ہوتا ہے

تحریر : عاطف ملک

وہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم سے ماسٹرز کورس کے تین منتخب شرکاء کی تقریریں سن کر ساتھ والے ہال میں داخل ہورہے تھے۔ ارشد کو پہلی تقریر پسند آئی تھی، لیسی کی تقریر۔ اس کورس میں اس کو ویسے بھی لیسی سے گپ شپ کا مزہ رہا تھا۔ اچھی ملنسار سی لڑکی تھی، قدرے بھاری جسم کی، بال کٹے ہوئے، نیلی آنکھیں چمکتی ہوئیں، ہر وقت مسکراتی۔

 یہ وقت بہت سخت رہا تھا۔ یہ بزنس سکول والے بھی آدمی کی مت مار دیتے ہیں۔ لیکچرز، کیس سٹڈیز، گروپ ڈسکشن، پریزینٹیشن، انفرادی سوال جواب؛ ایک کے بعد ایک ۔ وہ صبح یونیورسٹی آتا تھا اور رات گئے فارغ  ہوتا تھا۔ دوپہر کا کھانا سب بزنس سکول کی کینٹین میں کھاتے تھے۔ وہ کورس کے کافی ساتھیوں کوجان گیا تھا۔

شام ہو چلی تھی، کورس کا اختتام تھا، آخری تقریریں، سرٹیفکیٹس کی تقسیم اور الوداعی ڈنر۔ سب لوگ کوٹ پینٹ ٹائی اورفارمل لباس میں تھے۔ آخری تقریر کورس کے ڈائریکٹر نے کی، وہی عمومی باتیں جو ایسے موقعوں پرکہی جاتی ہیں۔ یہ مشکل کورس تھا مگرآپ کی محنت نے اسے ممکن بنایا، یہ کورس کا سیکھا آپ کی زندگی کے ساتھ جائے گا، آپ کے اساتذہ کی محنت قابل ِتعریف ہے،  طا لبعلموں کا ذوق وشوق قابل ستائش رہا۔ آپ اب ہماری یونیورسٹی کی فیملی کا حصہ ہیں۔ آئیے، اب اسکا جشن مناتے ہیں۔ آئیے، لیٹس گیٹ ڈرنگ۔ ارشد سوچنے لگا، میرا کیسا جشن ہوگا، میں کیسے مدہوش ہوں، میں تو شراب نہیں پیتا۔ 

سب لوگ آڈیٹوریم سے ساتھ والے ہال میں داخل ہورہے تھے، جہاں جشن کا انتظام تھا۔ دروازے سے کچھ آگے میز لگے تھے، انکے پیچھے خاتون ویٹریسیزکھڑی تھیں۔ میزوں پر شمپین کی بوتلیں اور انکے لیے گلاس پڑے تھے۔ ارشد کو وہ گلاس ہمیشہ اچھے لگتے تھے، نازک، نفیس سے، نیچےشیشے کی بنیاد جوایک باریک سی نال سے جڑی ہوتی ہے اورآگے جاکرایک تنگ قطر کا نازک سا گلاس۔ میزوں کے پیچھے بالٹیوں میں بیئر کی بوتلیں اور سوڈا کے کین ٹھنڈے ہورہے تھے۔ گلاسوں میں سنہرا عکس دیتی شمپین پیش کی جارہی تھی، نوجوانوں کی ایک تعداد بیئر کی بوتلیں لے رہے تھے۔ اسے پتہ تھا کہ میزوں کے آخری کونے پر  کوکا کولا مل جائے گی۔ وہ بھیڑ میں راستہ بناتا آخرتک پہنچا اوراپنے گلاس کو کوک سے بھر کرکھانے کی میزوں کی طرف چل پڑا۔ سب لوگ ابھی مشروبات کے اردگرد تھے۔

وہ کھانے کی میزپرکھڑا تھا، میزپرپڑی ڈشوں کو دیکھتا، گھورتا ہوا؛ یہ ہمیشہ کا مسلہ تھا ۔ بے ذائقہ کھانوں سے بڑھ کرمسلہ یہ تھا کہ کیا کھایا جاسکتا ہے۔ سور کی ڈشیں، سالاد میں بھی اسکے ٹکڑے شامل کر دیے جاتے، سو وہ کیا کھائے۔ اوروہ اپنی دادی کے بارے میں سوچنے لگا۔ دادی جس کے خیال میں سور کا نام لینے سے ہی زبان ناپاک ہوجاتی ہے۔ جب گاوں میں سوروں کےغول انکی کماد کی فصل تباہ کردیتے تھے تو دادی سور کہنے کی بجائے باہردے  کے نام سےانکا ذکر کرتی تھی۔ آج باہر ان کھانے کی میزوں پر کھڑا وہ ان باہردوں کے گوشت سے بچتے زندگی گذارہا تھا۔ تین سال، تین سال اتنا کم عرصہ تو نہیں ہوتا۔ ہردوپہر یونیورسٹی کی کینٹین سے لے کراجتماعی کھانوں کی محفل میں ارشد ہرکھانے کی ڈش کو گھور رہا ہوتا۔ ارشد کو سبزی کے ایک ڈش نظر آگئی، بے ذائقہ مگر حلال۔  مگر ذائقہ تو  زبان کی نوک پر ہوتا ہے اور حلال ذہن کی گہرائیوں میں۔ وہ دوسرا گوشت بھی نہ کھاتا تھا، وہ حلال حرام کا قائل تھا ۔ کچھ دوسرے ساتھیوں کے برعکس جو کینٹین میں ملتا بیف اورچکن کھا لیتے تھے ۔ اس کے نزدیک حلال ذہن کی گہرائیوں میں ہوتا ہے۔

اتنے میں اسے لیسی نظر آگئی۔ وہ لیسی کی جانب بڑھا، اُسے اسکی تقریرکی مبارک دینے۔ " لیسی، مبارک ہو ، تینوں تقریروں میں تمھاری تقریر سب سے بہتر تھی"۔ لیسی خوش تھی، بہت خوش اوراسی خوشی میں وہ ارشد سے لپٹ گئی۔ یہ لمس، یہ عورت کا لمس، ارشد  کبھی کسی عورت سے نہ لپٹا تھا۔ تین سال، تین سال سے وہ اس ملک میں تھا، جہاں یہ عام تھا۔ دوستوں کا معمول، مرد عورت کی تفریق سے بڑھ کر  مگرارشد کے لیے یہ چاہتے ہوئے بھی ممکن نہ تھا۔ ارشد نے یہ بےارادہ لمس محسوس کیا، ایک حقیقت کی مانند، اٹل، سچ ، ہمیشہ رہتا سچ ، پہلا سچ۔ وہ پیچھے ہوگیا، ایسے جیسے ہاتھ  یک دم آگ سے جالگا ہو۔ مگر وہ لمس حقیقت تھا، لیکن اس کے لیے ممکن نہ تھا اسے پورا محسوس کرے، چاہتے ہوئے بھی وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ ارشد کے نزدیک حلال ذہن کی  گہرائیوں میں ہوتا ہے۔ میز پر پڑی ڈشوں کی مانند، جنہیں وہ لے نہیں سکتا تھا۔ چکھ نہیں سکتا تھا، چاہے انکی ڈریسنگ، انکے گرد سجاوٹ کتنی بھی خوبصورت نہ ہو، چاہے ان کو دیکھ کرمنہ میں پانی بھر آئے، چاہے انکی مہک سب فضا مہکا دے۔ 

لوگ ہال میں مختلف جگہ کھڑے تھے، آہستہ آہستہ اپنے مشروب کی چسکیاں لیتے۔ ہال گفتگو کی آوازوں سے بھرا تھا۔ مختلف لوگ تھے، مختلف قومیتوں، مختلف چہروں، مختلف رنگوں، مختلف تہذیبوں کے۔ شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ باہر بارش ہورہی تھی۔ یہ ایک بھیگی رات تھی، سرد ۔ بارش کے قطرے کھڑکیوں سے پھسل رہےتھے۔ لوگ خوش تھے، یہ انکی کامیابی کا جشن تھا۔

 ارشد اپنے ہاتھ میں گلاس اٹھائے، اپنی ایک کلاس فیلو لنڈا  کے پاس کھڑا ہوگیا۔ وہ ایک قبول صورت عام سی عورت تھی۔ اسکی آنکھوں میں ایک اداسی تھی، ایسی اداسی جواسکے شمپین کے گلاس کا سنہرا رنگ بھی نہ چھپا پارہا تھا۔ نشہ چھایا ہو تو پینے والا کُھل جاتا ہے، اپنا دکھ ، اپنا غم کسی رکھ رکھاو کے بغیر بیان کر دیتا ہے۔ کہنے لگی میں آج آنا  نہیں چاہ رہی تھی، مگرآنا بھی ضروری تھا کہ یہ جشن تھا۔ میں اکیلی ماں دو بچوں کو پال رہی ہوں۔ ان میں سے بھی ایک ذہنی بیماری کا شکار ہے اور شاید میں ہی اسکی ذمہ دار ہوں۔ حمل کے دوران میں منشیات اور شراب پیتی رہی، اب اس کا صلہ بھگت رہی ہوں۔ خیر، اب جو بھی ہو مجھے اپنے بچے سنبھالنے ہی ہیں۔ ارشد چپ رہا، وہ چاہتے ہوئے بھی اسکے میاں کا نہیں پوچھ سکتا تھا جو اسے چھوڑ گیا کہ وہ  ان بچوں کو اکیلے پالے۔ وہ ابھی بھی نہ جانتا تھا کہ کسی کے ذاتی دکھ میں یہاں کیسے شریک ہو سکتے ہیں، کہاں تک سوال پوچھا جاسکتا ہے۔ تین سال کے باوجود یہ دنیا اس کے لیے کئی مقامات پراجنبی تھی، لاتعلق، کسی اظہار کے بغیر، سپاٹ چہرے کے ساتھ اجنبی۔

اسکی نظر ہال کے ایک کونے پراحمد پر پڑی۔ ساٹھ لوگوں کی جماعت میں احمد اورآمنہ دو ہی اس کے ہم جماعت اردو بولتے تھے۔ معمول کے مطابق احمد کی پلیٹ میں تمام ڈشوں کے کچھ حصے تھے، بغیر کسی تفریق کے اوراُسکے دوسرے ہاتھ میں بیئرکی بوتل تھی۔ ایک گھونٹ لینے کے بعد احمد نے اپنی زبان سے ہونٹوں پر لگی بیئرصاف کی۔ ارشد نے اپنا رخ بدل لیا، یہ جشن کا دن تھا۔ باہر بارش ہورہی تھی، بارش کے قطرے کھڑکی کے شیشے پرپھسل رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا میں ان قطروں کو زبان سے صاف کر سکتا ہوں۔ پھر وہ خود ہی اپنے خیال پر ہنس پڑا۔ ایسی ہنسی جس کے پیچھے کوئی خوشی نہ تھی، کھوکھلی، دھوکہ دیتی، کسی اورکو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دیتی۔ 

ارشد نے آمنہ کو ہال میں ڈھونڈنا شروع کیا۔ وہ ایک کونے میں تھی۔ اس نے منی سکرٹ اورشرٹ پہن رکھی تھی۔ لباس جو اسکے جسم کا اعلان کرتا تھا۔ ارشد نےنظر آمنہ سے ہٹا کر  لنڈا کی طرف کر لی، مگر وہ اس کے چہرے کے طرف نہیں دیکھ پاتا تھا۔ لنڈا کی آنکھیں اداس تھیں، اداس، گہری اداس، دورتک اداس۔ ارشد سوچنے لگا یہ کیسا خوشی کا موقع ہے۔ ایسے میں اسے اپنے باپ کا خیال آیا؛ ماسٹرعاشق حسین، گاوں چارواہ، تحصیل ظفروال، ڈسٹرکٹ نارووال۔ سرحد پر بسا گاوں کہ جب اس پر انڈیا کی طرف سے گولہ باری شروع ہوتی تھی تو وہ سب سیالکوٹ اپنے چچا کے گھرعارضی طور پر چلے جاتے تھے، اور جب واپس آتے تھے تو تباہ شدہ گھر پھربنانے لگ جاتے تھے۔ اُس نے سوچا  کہ ابا اگرآج یہاں ہوتا  تو میری ڈگری پر کتنا خوش ہوتا۔ پھر اُس نے سوچا کہ اچھا ہوا کہ ابا یہاں نہیں ہے ورنہ وہ کتنا دکھی ہوتا ۔

 باہر بارش ہورہی تھی۔ یہ ایک بھیگی رات تھی، سرد،  روح تک اترتی سرد۔

ارشد اب تک چار دفعہ اپنا گلاس کولا سے بھر چکا تھا۔ وہ اپنا گلاس اٹھائے کیریان کے پاس چلا گیا۔ کیریان ہاتھ میں شمپین کا گلاس لیے سب سے الگ ہال کے ایک کونے میں اکیلی کھڑی تھی۔ وہ اب اوریجنل تھی، آسٹریلیا کی اصلی اورقدیم نسل سے۔ اس کا رنگ سیاہی مائل تھا، چہرہ چوڑا جسے خوبصورت نہیں کہا جاسکتا، قد درمیانے سے بھی چھوٹا اور جسم بھاری۔ اس کا چہرہ اس کے نسب کا بتاتا تھا۔ وہ ہال کے ایک طرف دیوار پرلگی قدآور تصاویر کی طرف دیکھ رہی تھی، پلک جھپکے بغیر، گم صم۔ ارشد اُس کے پاس پہنچا تو  اسے اس کے گرد ایک درد کا احساس ہوا۔ اس نے تصاویر سے آنکھ اٹھائے بغیرارشد سے پوچھا، تمہیں پتا ہے کہ یہ کیا ہے۔ ارشد نے تصویروں پر نظر ڈالی، یہ بچوں کی گروپ فوٹو تھی، چارقطاروں میں بچے کھڑے تھے جبکہ اگلی قطار بیٹھے بچوں کی تھی۔ کیریان نے ارشد کی طرف دیکھے بغیر کہا، یہ میرے بزرگ ہیں، یہ میری گمشدہ نسل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ یہ وہ میری نسل ہے جنہیں زبردستی اپنے ماں  باپ سے جدا کیا گیا۔ انہیں اپنے ماں باپ سے یہ کہہ کراٹھا لیا  گیا کہ انکے ماں باپ کم تر ہیں، کم ترہرلحاظ سے کم تر، عقلی، جسمانی، جذباتی، تعلیمی اور سب سے بڑھ کرانسانی لحاظ سے کم تر۔ ان گوروں حرامزادوں کو نہیں پتا کہ ماں باپ ماں باپ ہوتے ہیں، انہیں کچھ اور ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ کیریان نے شمپین کا ایک گھونٹ لیا، برا سا منہ بنایا اورکہنے لگی، "یہ میری گمشدہ نسل ہے۔ ان گوروں نے ہماری زمین پرقبضہ کیا، ہماری نسل کشی کی، ہمیں اپنے ہی وطن میں بے وطن کیا، بے توقیر کیا۔ ارشد کیا تونے فلم ریبٹ پروف فینس دیکھی ہے۔ نہیں دیکھی تو ضرور دیکھ ، تجھے پتہ چلے گا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ ہماری تہذیب کی بے حرمتی کی گئی۔ وہ تہذیب جو دنیا کی سب سے پرانی متواترچلتی تہذیب ہے، اور آج یہ ہمیں تہذیب سکھا رہے ہیں"۔ 

ارشد نے کیریان سے ہٹ کراحمد اورآمنہ کی طرف دیکھا، وہ جو ایک نئی تہذیب کے پیچھے چل رہےتھے۔ پیچھے چل کر آگے نکلنے کا خیال جان کر۔ وہ سوچنے لگا کیسا چھوٹا گمان ہے انکا۔ 

باہر بارش ہورہی تھی۔ یہ ایک بھیگی رات تھی، سرد، روح تک اترتی سرد۔ 

ارشد  کھڑکی کے قریب جاکرکھڑا ہوگیا۔ پانی کے قطرے  شیشے پر تھے، ان میں اسکا عکس نظر آرہا تھا، اسکا عکس باقی ہال کے عکس سے علیحدہ تھا۔ کھڑکی پر بہتا پانی لکیریں بنا رہا تھا۔ ایک لکیر پانی کی اوپر سے نیچے تک آرہی تھی ، ایک جگہ آکروہ منقطع ہوگئی تھی، ٹوٹی ہوئی اور پھرکچھ  جگہ چھوڑ کردوبارہ  پانی کی لکیر نیچے جارہی تھی۔  اُسے وہ ٹوٹی لکیردیکھ کراپنے ہم جماعتوں کا خیال آ گیا؛ اکیلے بچے پالتی لنڈا، ہونٹوں پر لگی بیئرکو زبان سے صاف کرتا احمد، منی سکرٹ میں بھاری کولہوں والی آمنہ اور اپنے وطن میں بے وطن کیریان۔

وہ سوچنے لگا، میرے خدا کیا یہ جشن کا موقع ہے۔ 

باہر بارش ہورہی تھی۔ یہ ایک بھیگی رات تھی، سرد، روح تک اترتی سرد ۔ 

ہال میں گفتگو کا شورتھا، اورسرخ چہرے تھے، شراب کےاثر سے سرخ ۔ 

   اور دوسروں سے الگ کھڑکی سے باہرجھانکتا ایک چہرہ تھا، لکیروں کو گھورتا۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com



Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ