اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٘ مضمون کی چوتھی قسط

تحریر : عاطف ملک
اس مضمون کی تیسری قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ 

اماں کی وفات ہوئی تو میں اُن کےپاس تھا۔ ان کے آخری وقت میں ان کے بستر کے پاس تھا۔ انہوں نے آخری سانس لی اور اگلے سفر کی اڑان پر چل نکلیں اور میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ میں ماتم کروں کہ یہ ایک شکر کی گھڑی ہے۔ اللہ نے مجھے کیا خوبصورت موقع دیا تھا، اُس عورت کے پاس رہنے کا، اُس کو دیکھنے کا، اُس سے سیکھنے کا، جو کہ ایک رہبر تھی۔ میں اماں کی موت کے لمحے سے اُس وقت کا احساس کر پایا تھا جب مالکِ کائنات نے فرشتوں کو آدم کا سجدہ کرنے کا کہا تھا ۔ وہ اُسی اسرار کی ایک کڑی تھیں جب مالکِ ارض و سما نے ملائکہ کو کہا تھا کہ اِس مٹی کی تخلیق کو سجدہ کرو کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے اپنے کرم سے مجھے اُس اسرار کو محسوس کرنے کا موقع دیا تھا، یہ اُس کی عطا کا شکر ادا کرنے کا موقع تھا۔

اماں دو تین ماہ سے ہی کہہ رہی تھیں، " جانے کا وقت آ گیا ہے"۔  مگرمجھے لگتا تھا کہ ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ رمضان کے آنے میں ابھی کچھ وقت تھا اورمجھے یقین تھا کہ اماں کے سفر کے لیے رمضان کا ہی مہینہ ہوگا۔ ایسا ہی ہوا ، 2016 کے رمضان کے آخری عشرے میں وہ اطمینان کے ساتھ چلی گئیں۔ ان کے چہرے پر سکون اور وقار تھا، ایسا جو کسی وفا شعار کے چہرے پر ہوتا ہے جس نے اپنے سپرد کام پوری دیانتداری، ایمانداری اور محنت سے پورا کردیا ہو ۔ ایسی محنت کہ جس سے ہڈیاں چٹخ گئی ہوں، جسم شل ہو گیا ہو، بدن کا رواں رواں ٹوٹ گیا ہو، مگر وہ محنت خود کو شانت کر گئی ہو کہ ذمہ داری ادا کرنے میں کوئی کو تاہی نہیں ہوئی۔ میں نے اماں کے ماتھے کو چوما اور ہاتھوں سے اُنہیں محسوس کیا ۔
 اب کے بعد وہ نہ ہوں گی۔

بہن اور چند رشتہ دارخواتین جنہوں نےانہیں غسل دیا بتلایا کہ جسم بالکل تروتازہ تھا، اور خواہش کی کہ ایسی موت اُن کو بھی میسر ہو۔ جنازہ ظہر کی نماز کے بعد تھا۔ فیصل مسجد کے ساتھ کے گراونڈ میں لوگ اکٹھے تھے، میں میت کے ساتھ کھڑا تھا۔ لوگ آکر افسوس کر رہے تھے- ایسے میں ایک دیہاتی آگے بڑھا، ادھیڑ عمر، سفید ریش، سر پر سفید کپڑا باندھے ہوئے۔ میں انہیں نہ جانتا تھا ، میرے گلے لگا اور کہنے لگا کہ ضرار شہید ٹرسٹ ہسپتال کے ساتھ کے گاوں سے آیا ہوں، آپا کی وفات کا پتہ لگا، جنازہ کے لیے حاضر ہونا ضروری تھا۔ میرے کان میں کہا، "پتہ نہیں تجھے پتہ ہے کہ نہیں، تیری ماں ولی اللہ تھی"۔ میں کیا جواب دیتا، میں تو پہلے ہی اُنہیں ماں کے طور پرجانتا تھا۔

غضب کی گرمی پڑرہی تھی، روزہ بھی تھا۔ ظہرکی نماز کے بعد جب امام صاحب جنازہ پڑھنے لگے تو آسمان پر بادل کا ٹکڑا آ گیا اور ہوا چلنے لگ گئی۔ ایک نمازی نےاپنے ساتھ والے سے اس یکایک تبدیلی کا ذکر کیا تو دوسرے نے فوراً کہا ، "چپ رہو ، یہ بولنے کا نہیں محسوس کرنے کا لمحہ ہے "۔

ماں جی، کبھی اپنے بیٹے کی قبر پر نہ گئیں۔ اپنا مقصد اس کے نام پر ہسپتال کی تعمیر بنا لیا۔ آتے جاتے، دن میں کئی چکر قبرستان کے سامنے سے لگتے، کبھی نہ رکیں۔ صبر کا پتھرسینے پر رکھ لیا تھا، اپنی زندگی میں ایک دفعہ بھی ضرار کی قبر پر نہ گئیں۔ آخر سترہ سال بعد کاندھوں پر سوارآئیں، شہید بیٹے کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئیں۔ میں نے اُنہیں قبر میں اتارا اور اُن کے ساتھ ہی اپنا ایک حصہ بھی چھوڑ آیا۔ اب کون میری پریشانیوں کو بن کہے محسوس کریگا، کس کی دعائیں میرے گرد حصار ہوں گی، کون میرے دیر سے آنے پر دروازے پر کھڑا ہوگا، کون ہے جو بن کہے میرے پسند کے کھانے سامنے رکھے گا۔ آہ ، ایک در بند ہوا ہمیشہ کے لیے۔ مگر باخدا، میں خوش قسمتوں میں سے ہوں میں نے اُس عورت کو قریب سے دیکھا جس نے اپنی مثال سے مجھے عورت کے مرتبے کا بتلایا ہے۔

اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ