بیاد فلائیٹ لفٹیننٹ وقاص شمیم

                                                                                  تحریر عاطف ملک

پس منظر: فلائیٹ لفٹیننٹ وقاص شمیم نے انیس سو نوے میں ایروناٹیکل انجینیئر کے طور پر پاکستان ایر فورس اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا۔ انیس سو تیرانوے میں آپ سرگودھا کے قریب کرانہ پہاڑی پر لگے ریڈار پر بحثیت انجینئر تعینات تھے کہ آپ کی جیپ پہاڑ سے گر گئی، جس کے باعث آپ دو ساتھیوں کے ہمراہ خالق حقیقی سے جاملے۔

اگر آپ اکبری دروازے  سے اندرون  لاہو ر میں داخل ہوں  تو  تنگ بازار  سے گزر کر محلہ سریاں والا  آتا   ہے، غازی علم دین شہید  کا گھر اِسی محلے  میں تھا، اُ نہیں کے نام  پر اب وہاں کا چوک موسوم  ہے۔ اُس چوک  سے بائیں جانب مڑ کر کوچہ چابک سواراں  سے گزرتے جائیے تو آگے محلہ ککے زئیاں آتا ہے۔
 ککے زئی اسے عرفِ عام میں بڑی گلی کہتے ہیں گو کہ یہ گلی اتنی تنگ ہے کہ کسی مرگ پر جنازہ بھی آسانی سے نہ نکل پائے۔ کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی  کے ساتھ  حملہ آور لشکر میں یہ قبیلہ تھا۔ فاتح قوم کے طور پر اُنہوں  نے مفتوح علاقے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ صدیاں گذر گئیں مگر ککےزئی اپنے رنگ  کے ساتھ جڑے  رہے۔  ککے زئی ایک لڑاکا  قوم  ہے، اندرون لاہو ر میں محلہِ ککے زئیاں کی  لڑائیاں اور شادیاں دونوں ضرب المثل ہیں۔ یہ عجب رنگ کے لوگ ہیں، ایک طرف لڑنے کو تیار، دوسری  جانب یار باش و مہمان نواز- آپ سے محبت  بھی کھل کر کریں گے اور لڑیں گے بھی کھل کر۔  
وقاص ککے زئی تھا، ٹھیٹ ککےزئی، لڑنے مرنے کو تیار اور کھل کر پیار کرنے والا۔ اُس کی آنکھوں میں ایک شرارت کی چمک رہتی تھی، چہرے پر ایک چھپی مسکراہٹ  ایسی کہ ابھی کوئی حرکت  کرے گا، کوئی طوفان لائے گا۔ وہ ایک بے چین روح تھا، کبھی نہ بیٹھنے والا، جس کو کسی طور چین  نہ آئے، آتے جاتے کو کوئی بات  کرنے والا، ایک  معرکے  سے  نکل  کر اگلے معرکے کی تلاش  میں رہنے والا۔ اُسکی  آواز بھی اُسکی  آنکھوں کی  طرح آپ کے اندر اترنے والی  تھی۔ وہ عجب  شخص تھا، اُسکی آنکھیں، اُسکا چہرہ، اُس کا اندر باہر ایک تھا۔ ہمارا اُس سے عجب تعلق تھا، کبھی اُس کی حرکتوں سے ہم  زِچ ہوجاتے تھے، کبھی وہ ہما را محبوب تھا۔ وہ ہما ری زندگیوں میں غیرمحسوس انداز میں داخل ہو گیا، اُس کا  ظاہری دکھاوا ایک لا پرواہ، لااُبالی سر پھرے کا تھا، مگر اُس کی عجب خاصیت تھی کہ وہ  آپ کے درد کو خود بخود محسوس کرلیتا تھا، بغیر بتائے جان لیتا تھا، اور پھر وہ اپنی بسا ط  سے بڑھ  کرجو کچھ  کر سکتا تھا کرتا تھا۔ کورس میٹ، افسر، ایرمین، بیٹ مین سب  کے لیے اُس کے دل  کے دروازے  کھلے  تھے، اور کھلے  بھی چار چوپٹ  تھے، بلکہ  وقاص کی شخصیت کے لحاظ  سے تو اُس نے دروازں  کے کواڑ  ہی  اتار کر پھینک دیے  تھے کہ کسی کو آنے میں  پریشانی نہ ہو۔
میں  نے بچپن  سے اپنے بزرگوں سے ککے زئیوں کی کئی  باتیں سنی تھیں، نعرہ تھا ، "ککے زئی، ہائے جان گئی" ۔  وقاص کو جب میں نے کہا، " ککے زئی ، میں نے سنا ہے کہ درانتی کے ایک  طرف دندے ہوتے ہیں، مگر ککے زئی  کے دو طرف دندے  ہوتے  ہیں"۔  تو وہ  ہنس پڑا اور کہنے لگا،"ملک  جا نے  دے"۔
مجھے  نہیں علم کہ کب  وقاص کے بزرگ  اندرون لاہور سے نکلے اوربیگم روڈ پر آکر رہنے لگے۔ بیگم روڈ مزنگ اڈہ سے شروع ہوتی ہے اور جین مندر پر ختم  ہوتی ہے۔
  اُس  کے گھر میں  داخل  ہوں تو کھلا صحن تھا، جہاں ہر شام وقاص کی والدہ نوکروں اور محلے  کے بچوں  کو پڑھاتی تھیں۔ اُسکی والدہ ایف جی سکول میں تعلیم  دیتی تھیں، جبکہ اُس  کے والد  کرنل شمیم  پی-ایم- اے  کاکول  میں ریاضی کے استاد رہے تھے۔ یہ  اساتذہ  کا گھر تھا؛ بے لوث، کھرے اور مخلص لوگ۔ وقاص خود کیڈٹ کالج حسن ابدال سے پڑھا تھا، مگر مجھے  نہ  جانے  کیوں وقاص میں مزنگ  اڈے کے تھڑے پر فارغ  بیٹھے لوگوں کی  یار باشی  اور جین مندر میں  گائے  گئے  بھجنوں  کا  رنگ  نظر آتا تھا۔  سرگودھا میں  پوسٹنگ  کے وقت  وہ آفیسرز میس کے ایک جانب رکھے گئے کنٹینرز کی بنی ہوئی ایک کمرے کی رہائش میں اکیلا رہتا  ہے۔ آفیسر میس میں بڑے کمرے بھی تھے جو زیادہ آرام دہ تھے مگر اس میں دو لوگ ایک کمرے میں رہتے تھے۔ وقاص کی طبیعیت کی  سیمابی اس کی متحمل نہ تھی کہ وہ کسی اور کے ساتھ  کمرے میں رہتا۔
  شام  کو وہ اپنے بیٹ مین  کے بچے کو  پڑھاتا تھا۔ ہر شام  وہ  اپنے ماں باپ  کے پیچھے چلتے  اپنے حصے  کی تعلیم  کی شمع  کو  روشن کیے تھا ۔
وہ ایک  بے چین  روح  تھا، ہر کام جلد کرنے والا، ہر دم تیزی میں رہنے والا، شاید اُسے علم تھا کہ اُس  کے پاس وقت  کم ہے۔  اکیڈ می میں چھٹیوں پر گھروں کو جا نے  کے   لیے جب بُک شدہ فلائنگ  کوچیں آتی  تھیں تو وقاص ہمیشہ  اُچک کر ڈرائیور کے ساتھ  والی سب سے اگلی سیٹ  پر بیٹھ جاتا  تھا، اب کوئی جو مرضی کرلے وہ سیٹ  کسی اور کو نہیں مل سکتی تھی۔ یہ ہر دفعہ کا معاملہ تھا۔ میں اُسے کہتا   تھا، "ککے زئی ، اگلی سیٹ  پر بیٹھ  کر کیا تو کوچ سے  پہلے لاہور  پہنچ جائے گا۔ وہ ہنستا تھا اور کہتا  تھا، "ملک، جانے  دے"۔
وقاص خود دار تھا،  بلا کا خود دار،  یہ اُس کے خون میں آیا  تھا۔ جب  اُس  کا  بڑا  بھائی  جنید  شمیم  پی ایم  اے  کاکول  سے  پاس آوٹ ہو رہا  تھا  تو  وقاص  نے  پریڈ  پر جانے   کے  لیے چھٹی کی درخواست  دی جو کہ نہ ملی۔  جنید  پی ایم  اے  کا  سب  سے بڑا اپائنٹمنٹ  ہو لڈر تھا، پاسنگ آوٹ  پریڈ کمانڈ کر رہا تھا،  پاسنگ  آوٹ   پر  اُسے اعزا ز مل رہا تھا۔ وقاص کے والد بھی فوج میں تھے۔ اکیڈمی سے کیڈٹ  سرکاری طور پر پریڈ  دیکھنے  پی ایم  اے  جا رہے تھے،  مگر وقا ص اُس گریجویشن  پریڈ  پر نہیں گیا۔ کرنل شمیم کی  خودداری یہ اجازت نہ دیتی تھی کہ  وہ کسی کو ایک  فون ہی  کر لیتے، "ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم"۔
جب وقاص کی سرکاری جیپ سرگودھا کے کرانہ پہاڑ  سے گری وہ  اپنے  دو ساتھی افسروں کے ہمراہ بیس کے میڈیکل  سکواڈرن سے سالانہ طبی معائنہ  کروا کر پہاڑ کی چوٹی پر لگے ریڈار  پر جا رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ جب موت کا فرشتہ اُس کے سامنے آیا ہوگا تو وقاص  نے آنکھوں میں شرارت کے ساتھ اُس سے پوچھا ہوگا، " بھائی، آپ لینے تو آگئے ہیں مگر ریکارڈ چیک کرلیں کسی اور کی  جگہ تو مجھے غلطی سے نہیں لے جا رہے۔ اچھا، اب  آپ آہی گئے  ہیں تو یونیفا رم  میں  ڈیوٹی پر ہوں، پہاڑ کی اتنی بلندی  سے  گرا ہوں، شہادت کا رتبہ لکھنا نہ  بھولیے گا۔ صبح کا ناشتہ  بھی نہیں کیا، دیکھیں یہ کاغذ میں لپٹا ساتھ ہے، روزہ دار کا درجہ بھی لکھ لیں"۔
مغرب کے قریب میانی صاحب کے قبرستان میں وقاص کو دفنا کر میں اُس کے گھر پہنچا۔ اُس کے والد غم پر قابو پانے کی کوشش کرتے لوگوں  کی تواضع کے بارے میں فکرمند تھے، اُس کی والدہ اُسکے کورس میٹوں کو لپٹا کر چوم  رہی تھیں۔ میں چپ چاپ اپنے موٹرسائیکل کو سٹارٹ کیے بغیر گھسیٹتا جین مندر تک آگیا، روح  میں دور تک دکھ  اُتر آیا تھا۔ آدھا فرلا نگ  چل کر موٹرسائیکل کو کک ماری اور اپنے گھر کو چل پڑا، آگے ڈیوس روڈ سے ٹھنڈی سڑک کو جا مڑا۔  ٹھنڈی سڑک ویسے بھی ایک  فسوں رکھتی  ہے، ایک  جانب ایچی سن کالج ا ور زمان  پارک دوسری جانب انگریز  دور کے بنے ریلوے افسران کے بڑے  بڑے بنگلے، درخت  اتنے کہ سخت گرمی میں بھی اِس سڑک پر داخل ہوں تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے، اِسی وجہ  سے لاہور کے باسی سندرداس روڈ کو عُرفِ عام میں ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔ طبیعیت پر بوجھ اتنا تھا کہ موٹر سائیکل سڑک کے کنارے ایک  طرف روک دی اور آنکھوں سے بےساختہ  آنسو جاری ہوگئے، رومال اور دامن دونوں تر تھے۔ اچا نک درختوں میں تیز ہوا چلنے لگی اور آواز آئی، "ملک جانے دے"۔
ککے زئی، جانے  دیا۔ پرکیا کروں برسوں گذر گئے مگر جانے نہیں دیا جاتا۔ تیری تصویریں البم  سے نکال کر رکھ دی ہیں مگر تو بڑا سخت جان ہے، دل پر تیرا نقش ماہ  و سا ل کی گرد  کے باوجود روشن ہے۔ ابھی تو آئے گا، کسی ںئی حرکت، کسی نئے چٹکلے کے ساتھ ۔

 خوش رہ، امید ہے کہ تونے وہاں بھی خوب اُدھم مچا رکھا ہوگا۔



Please recite Fateh for the departed souls.


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com




Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر