Pencil Sharpener ..............A short story that got selected in Oxford University Press Competition and published in Book "KOOZAH"

پنسل تراش

 :The English Translation of this story can be read at the following 
تحریر عاطف ملک
اُس کی نوکری پنسل گھڑتے ہی گزری۔ پنسل گھڑنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ ایک ہابی،ایک ایسا ساتھ جس کے بغیر جیا نہ جائے۔اُس کے دفتری میز کی دراز میں رنگ برنگے پنسل تراش تھے۔ مختلف سائز کے، مختلف تراش خراش کے ،  اپنے تیز نوکیلے بلیڈوں کے ساتھ۔ اُس سے کوئی بھی ان گھڑی پنسل نہ دیکھی جاتی تھی۔ اُس کے میز کی ٹرے پر مختلف پنسلیں چمک رہی ہوتی تھیں۔ تیز سکے بنی، چھبنے والی ، نظر پڑے تو نظر رک جائے۔ خواہ مخواہ اٹھانے کو جی چاہے۔ اُس سے کوئی بھی پنسل بغیر تراش برداشت نہ ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی کمی، کوئی جلن، کوئی چبھن، کوئی پھانس سی ہے۔ پنسل تراش کر ٹرے میں رکھ دیتا تو جیسے سکون سا آجاتا۔

ہیڈ کلرک ارشد حسین کی زندگی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں بل بناتے گزر گئی تھی۔ ارشد حسین نے اپنی زندگی یہاں کتنوں کے بل پاس کراتے گزار دی تھی۔ ریٹائرمنٹ میں چند سالوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ کبھی کبھی اب وہ کرسی پر بیٹھا اونگھ لیتا تھا، مگر اونگھتے بھی اُس کی نظر اپنی پنسلوں پر رہتی تھی۔ چھٹی کے وقت وہ انہیں بہت اہم فائلوں کے خانے میں رکھ کر تالا لگاتا تھا۔ صبح فائلوں کو نکالتے ہوئے، وہ نادانستہ اِن پنسلوں کی گنتی کرتا تھا کہ تالوں کے اندر سے کوئی کم نہ ہو گئی ہو۔ اکاؤنٹنٹ جنرل کا دفترویسے بھی کسی وقف کی پرانی عمارت میں قائم تھا۔کیا خبر کہ اس ہندو وقف کی عمارت میں کوئی آسیب ہوجو اس کی پنسلیں لے جائے۔

ویسے تو اُس کی اپنی ذات بھی کسی آسیب سے کم نہ تھی۔ دفتر میں وہ ایک کم گو، اپنے کام سے کام رکھنے والا اور ماتحتوں کو ایک فاصلے پر رکھنے کا قائل تھا۔ لوگ اسے کچھ کچھ خبطی سمجھتے تھے۔ عمر کے اس حصے میں اُس کا حلیہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ سر کے بال مدت ہوئے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ لنڈے کے سوٹ میں اس کی شخصیت بھی اسی شکست و ریخت کی شکار تھی جس کا اس کا سوٹ شکار تھا۔ غرض ارشد حسین ہیڈ کلرک اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کی مانند ایک ایسی شخصیت تھی جس کو بھلانے کے لیے نہیں بلکہ یاد رکھنے کے لیے کوشش کرناپڑتی تھی۔

دفتر کا ماحول روکھا اور مردانہ تھا۔ ہر شخص مسائلِ روزگار کا شکار، مہنگائی کا رونا روتا نظر آتا تھا۔ ایسے میں روبینہ کی آمد دفتر کے ماحول میں ایک تبدیلی لائی۔ یہ تبدیلی کوئی بہار کی آمد تو نہ تھی مگر ایک تازہ جھونکے کی مثل ضرور تھی۔ دفتر کے خالص مردانہ ماحول میں یہ ایک تبدیلی یقیناً تھی۔مگر گھر بار کی مجبوری، تنگ دستی، اور حالات نے روبینہ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ سستی لون کی شلوار قمیض میں ملبوس، کان میں سادہ ٹاپس، میک اپ سے عاری، ٹائپسٹ روبینہ ٹائپ مشین کے سامنے بیٹھتی تو اُسی سالخوردہ ٹائپ مشین کا ہی ایک حصہ محسوس ہوتی۔

ارشد حسین ہیڈ کلرک نے جب پہلی بار اسے دیکھا تو نہ جانے کیوں اس کے ذہن میں ان گھڑی پنسل کا خیال آیا۔ ایسی پنسل جس کا استعمال سے پہلے ہی سکہ ٹوٹ گیا ہو۔ جس کو کسی نہ کام کا سمجھ کر کونے میں پڑی ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا ہو۔ بے مصرف فضول جان کر۔ جس کا رنگ جگہ جگہ سے اکھڑ گیا ہو اور چمک گم ہو گئی ہو۔

ارشد حسین دفعتاً اپنی میز سے اٹھا اور دراز میں سے اپنا عزیز از جان پنسل تراش نکال کر روبینہ کی میز پر رکھ دیا 

اور دفتر تھا کہ چہ مگوئیوں کے شور سے کانپنے لگا۔

aatifmalik#

Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com




Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ