چین کا سفر، بارہویں قسط
تحریر: عاطف ملک
راہ میں کئی منظر تھے۔ ایک بنک بند تھا مگر اس کے سامنے فٹ پاتھ پر کرسی پر براجمان ایک چینی مٹھی چاپی کروا رہا تھا ، سامنے ایک گتے کے بورڈ پر دس یوان کا ریٹ بڑا بڑا لکھا تھا۔ مالش کروانے والا موٹا تازہ چینی تھا جس کے کندھوں پر تولیہ رکھ کر مالشی کندھے دبار ہا تھا۔ مالشی کے سر منڈھے سر پر مشین پھری تھی اور اس نے زرد رنگ کی پتلی واسکٹ قمیص پر پہن رکھی تھی، جس پر چینی زبان میں کچھ لکھا تھا۔ مسافر نے گمان میں وہ تحریر پڑھی، لکھا تھا" شہر کاسب سے بہترین مالشی"۔ مسافر نے سفرِ حیات میں کئی مالشی دیکھے تھے، سب اپنے فن کو نکھارے تھے مگر بورڈ نہیں لگائے تھے کہ وہ فٹ پاتھ پر نہیں بلکہ ایر کنڈیشنڈ دفاتر میں مالش کرتے تھے۔مسافر کو لان زو کی اُس فٹ پاتھ پر وہ اس مالشی کے ساتھ کھڑے نظر آئے، ٹائی کوٹ پہنے مگر ان کے کاندھوں پر تولیے دھرے تھے اور ان کے سر بھی مشین پھرے تھے۔ مسافر نے غور کیا تو وہ مزدوری سے پیسہ کماتا چینی مالشی اُن سے کہیں اوپر نظر آیا ، وہ محنت کش تھا۔
ایک طرف ایک نان بائی کی دکان تھی، جس میں نان، خطائیاں وغیرہ برائے فروخت تھیں، چینی طالب علم نے بتایا کہ یہ تندور سے بنے نان وغیرہ شین یانگ کی بیکری اور روٹی کے نام سے جانی جاتی ہے۔
فٹ پاتھ پر الیکٹرک موٹرسائیکلیں اور سکوٹر بھی چلائے جاتے ہیں ، کیونکہ ان سے کوئی آواز نہیں آتی سو ان کے آنے کا علم نہیں ہوتا۔ اکثر سواروں نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوتا۔ بعض موٹر سائیکلوں پر ہینڈل پر کپڑے کے جامے ہیں کہ بیٹھیں اور بازو ڈال لیں۔ سامنے سے ہوا نہیں پڑتی، شاید یہ سردیوں میں استعمال ہوتے ہوں۔ موٹر سائیکل سوار صبر سے کام لیتے ہیں، ہارن عموماً سنائی نہیں دیتے۔ راہ میں کئی مسلمان چینی خواتین کو حجاب لیے موٹر سائیکل چلاتے دیکھا۔ دکانوں کے باہر داڑھیاں رکھے مسلمان دکاندار سٹولوں پر بیٹھے تھے۔ ایک اور منظر عجب دیکھا کہ لوگ راہ میں ایک جانب پیروں بل بیٹھے ہوتے اور اپنے موبائل پر مصروف ہوتے۔ پیروں بل بیٹھنا عموماً مشکل ہوتا ہے اور دنیا میں کسی اور جگہ ایسے لوگ عام بیٹھے نظر نہیں آتے۔
آگے سڑک سے ایک گلی بائیں جانب تھی، جس میں بہت رش تھا۔ درمیانی سی گلی میں دونوں جانب ریڑھیوں پر کھانوں کے سٹال تھے۔ پہلے سٹال میں ڈوریان پھل بک رہا تھا بلکہ اس کے لیے روٹی بیلی جارہی تھی جس میں شاید اس پھل کا رس یا گودا شامل کیا جاتا ہے۔ ڈوریان کی خوشبو بہت زیادہ ہوتی ہے اور طبیعیت کو بری بھی لگتی ہے۔ اس سلسلے میں مسافر نے سنگاپور میں ٹرینوں اور بسوں پر نوٹس چسپاں دیکھے تھے کہ مسافر ڈوریان پھل لے کر سوار نہیں ہوسکتے، خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ عاید ہوگا۔ مسافر نے ایک دفعہ اس پھل کا ذائقہ چکھا تھا اور آیندہ کے لیے معافی مانگ لی تھی۔
گلی پُرہجوم اور بہت روشن تھی۔ گلی کے درمیان میں رنگ برنگی چھوٹی روشنیوں کی تاروں کی چھت بنائی گئی تھی ، جابجا سرخ چینی فانوس اور قمقمےلٹک رہے تھے۔ دائیں بائیں مختلف کھانوں کی اشیاء تیار ہورہی تھیں، بیٹھنے کے لیے پلاسٹک سٹول اور میزیں سٹالوں کے پیچھے دھری تھیں۔ ویٹروں اور باورچیوں نے چہرے پر پلاسٹک کا ایک نقاب پہنا ۔ مگر یہ عمومی نقاب سے فرق تھا کہ یہ ٹھوڑی سے اوپر کی جانب جاتا اور ناک کے سامنے کھلا ہوتا ۔ شاید اس کا مقصد تھا کہ بات کرتے تھوک نہ گرے۔
شروع کی ایک دکان پر سبزی فروخت ہوتے دیکھی جو عجب لگا کہ یہ کھانوں کے بازار میں آلو، ٹماٹر ، لیموں، پیاز کا سٹال کیا کررہا ہے، پھر خیال آیا کہ شاید دکاندار یہیں سے اپنے کھانے کی پکوائی میں استعما ل کی سبزی خرید لیتے ہوں گے۔
مسافر نے یہاں گوشت کی انواع واقسام کی ڈشیں دیکھیں۔ ایک طرف سمندری خوراک تھی، پھیلی ہتھیلی سے بڑی سیپیاں تھیں جن کے گودے کو پکایا گیا تھا، اس میں کچھ سبزی بھی رکھی گئی تھی۔ چین میں ایک اور جگہ کھانے میں میزبان نے سبزی کی ڈش مسافر کو دی ، پوچھا کہ یہ کیا ہے کہ ایسی سبزی پہلے نہ دیکھی تھی۔ بتایا گیا کہ یہ سمندری گھاس ہے۔ مصالحہ دار بنی تھی، سو مسافر نے اُس دن گھاس کھائی تھی۔ ایک سرکاری نوکر ی کی تھی، بعض اوقات خیال آتا ہے کہ وہاں بھی گھاس ہی کھاتا رہا تھا۔ اُسی سمندری خوراک کی دکان پر لکڑی کی سیخوں پر آکٹوپس کے لمبے بازوپروئے پراتوں میں پڑے تھے اور روسٹ ہونے کے متمنی تھے ۔آکٹوپس کے بازو تو شکنجوں کی مانند ہوتے ہیں مگر وہاں لذت ِکام و دہن کے کام آرہے تھے۔ پچھلے جملے میں پہلےکام سے زبان کے اوپر کی چھت مراد ہے اور دوسرا کام کھانے کی جانب اشارہ دیتا ہے، چینیوں کے کے ہاں اور بھی کام ہوں گے مگر ہمارے کچھ احباب کے لیے تو یہی کام ٹھہرا۔ پلاسٹک کے بنے پنکھے ان پراتوں کے اوپر ہلکی رفتار میں چل رہے تھے، ان پنکھوں کے پروں پرجڑی گوٹے کناری کی لڑیاں بھی رقص کرتی تھیں۔ مسافر نے سوچا ، خوراک کس کس کو نہ رقص پر مجبور کردیتی ہے۔ اگلی دکان جوس کی دکان تھی جس میں مختلف رنگوں کے جوس پلاسٹک کے ٹرانسپیرنٹ گلاسوں میں دھرے رنگوں کی رلی بنارہےتھے۔
سمندری خوراک والے سٹال پر کئی شوربے دار پیالے بھی تیارپڑے تھے ، جن میں سمندری نباتات اور حیوانات کا امتزاج حیوانِ ناطق کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اگلے سٹال پر دیکھا کہ پکی ہوئی سنہری مائل لمبی لمبی دمیں دھری ہیں۔ مسافر کا ہمراہی طالب علم اب استاد تھا، اُس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ پتہ لگا کہ بھینس کے دم ہے۔ جب مکھیاں اڑانے کے کام سے رک جاتی ہیں تو کھانے کے کام آتی ہیں۔ چین میں دو پایوں کی خوراک میں چوپائے بلکہ ہر حرکت کرتا جانور پایا جاتا ہے۔ مسافر کو ایک دفعہ چینی میزبان ایک مہنگے ریسٹورنٹ لے کر گیا تھا کہ جہاں کی مشہور ترین ڈش گدھے کا گوشت تھا۔ مسافر نے ایک مارکیٹ میں زندہ سانپ دیکھے جن کا تازہ سوپ بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح ایک چینی ریسٹورنٹ کے سامنے سے گذرنے کا اتفاق ہوا جہاں دکان کے بورڈ پر مینڈکوں کے سوپ کارنگین اشتہار گاہگوں کی اشتہاء بڑھا رہا تھا۔
لان زو کی اس مسلم خوراک کی گلی میں اکثر دکاندار سر پر سفید ٹوپی پہنے تھے۔ ویسی ٹوپی جو ہمارے ہاں نماز میں پہنی جاتی ہے، فرق یہ تھا کہ وہاں یہ ٹوپی سر کے پچھلے حصے پر ٹکی ہوتی ۔ اگلے سٹال پر ایک طرف شوربے کا بھرا تھال تھا جس میں ایک جانب بکرے کی سری ، کچھ گوشت اور اوجھڑی دھری تھی۔ دو برتنوں میں مختلف چٹنیاں تیار تھیں جو خریدنے میں گوشت اور شوربے کے ہمراہ گتے کے پیالوں میں ڈال کر دی جاتی تھیں۔ کسی قسم کے شبے کے خاتمے کے لیے ساتھ ہی شیشے کے ڈبے میں بکروں کی سریاں دانت نکالے رکھی تھیں۔شاید اس لیے دانت نکالے تھے کہ ابھی ان کی تھال کی باری نہ آئی تھی۔ سریوں کے ساتھ ہی بکروں کی اوجھڑیاں بھی پھولی تھیں۔ بکروں کی سریوں کی حرمت اور گاہگوں کا دل لبھانے کو ان سریوں پر سبز دھنیے کی ڈنڈیاں رکھی تھیں۔ مسافر نے جانا کہ ان بکروں کی چاہت اصلی تھی سو اگلے سفر میں بھی سبزے کو ساتھ پاتے ہیں۔
ایک نقاب ڈالے حسینہ تندور سے مختلف اقسام کے نان نکال کر بیچ رہی تھی۔ سادہ روٹی، کلونجی والے نان، قیمے والے نان، غرض مختلف انواع تھیں۔ حیران تھے کہ کیا منظر ہے، سامنے تندور تھا، خاتون کی سفید قمیص صاف تھی، آنکھیں روشن، کانوں میں ٹاپس چمکتے تھے، گلے میں لٹکے لاکٹ کا سنہرا پن مصنوعی روشنی میں مزید روشن تھا، چہرے پر سفید نقاب تھا۔ ایک جانب کیو آر کوڈ کی تختی رکھی تھی کہ ادائیگی تیزرفتار ہو، نہ کھلے کا مسلہ، نہ نوٹوں کی گندگی ہو۔ ہم حیران تھے کہ وہ پسینہ بھرے جسم کہا ں ہیں جو نان کی دکان کے لازمی کردار ہیں۔
سفرنامہ ابھی جاری ہے۔







Comments
Post a Comment