سٹیم روم (ایک افسانچہ)
تحریر: عاطف ملک
سٹیم روم میں بھاپ پھیلی تھی۔
چھوٹا سا کمرہ جس میں داخل ہوں تو زمین پر چوکوار جالی دار چوکٹھا تھا جس میں سے بھاپ نکلتی رہتی تھی۔ ہمیشہ خیال کرنا پڑتا تھا کہ ٹانگ اس بھاپ اگلتی جالی سے مس نہ ہو کہ اس سے کندن شاید نہ ہو ں مگر جل ضرور جائیں گے۔ دروازے کی دوسری جانب شیشے کی واحد بڑی کھڑکی تھی جو بھاپ سے دھندلی رہتی تھی۔ ہاتھ کی ہتھیلی سے بھاپ صاف کی جائے تو ایک لمحے کو باہر کا منظر نظر آجاتا ، سب صاف نظر آتا ، مگر دوسرے ہی لمحے پھر سب دھندلا ہوتا۔
اگر لمحہِ صاف کو گرفت میں نہ لیا جائے تو پھر اندر کا منظر کثیف نہ بھی تو دھندلا ضرور رہتا ہے، بے یقینی لپٹی رہتی ہے۔
بھاپی کمر ے میں بیٹھنے کے لیے دیوار کے ساتھ ساتھ اینٹوں کے بینچ بنے تھے جن پر سفید ٹائلز لگی تھیں۔ سفید چھت کے اندازہ نہ ہوتا تھا کہ کیسی بنی ہے، بھاپ اوپر تک پھیلی تھی اور پانی قطرہ قطرہ چھت سے گر تاتھا۔
شیشے کے ساتھ بنے بنیچ پر درمیانی عمر کی خاتون بکنی میں ملبوس بیٹھی تھی۔ اس کا جسم سفید اور کمرے میں پھیلی حرارت سے سرخی مائل تھا۔ سامنے دیوار سے ٹیک لگائے درمیانی عمر کا ایک مرد بیٹھا تھا۔ اس نے تیراکی کی نیکرپہن رکھی تھی اور اس کا اوپر ی جسم پسینے سے شرابور تھے۔
مرد کی آنکھیں خاتون کی ٹانگوں پر جمی تھی، کہنے لگا"تمھاری ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں" ۔
خاتون نے بیزاری سے جواب دیا، " ہاں مجھے آرتھرائیٹس ہے"۔
اسی وقت چھت سے ایک قطرہ گرا۔ کمرے کی دھند اور گہری ہو گئی تھی۔
Comments
Post a Comment