Posts

Showing posts from 2025

لیر و لیر

  تحریر: عاطف ملک فاروق کا تعلق گجرات سے تھا۔ قد درمیانہ ، رنگ گندمی، عمر چالیس سال کے لگ بھگ اور سر کے بال گرنا شروع تھے۔ گجرات سے غیر قانونی طور پر یورپ آیا تھا اور یہ سفر اُس نےصرف ایک دفعہ نہیں کیا تھا۔ اُسے دو مرتبہ یورپ سے نکالا گیا تھا مگر وہ پھر کسی ایجنٹ کے ذریعے نیا راہ ڈھونڈ کر یورپ پہنچ جاتا تھا۔ نئے نام سے پاسپورٹ بنواتا، نیا راہ ڈھونڈتا۔ پہلے راستہ ایران، ترکی ، یونان سے گھومتا آیا تھا۔ دوسری دفعہ پیسے زیادہ لگے تھے مگر سفر آرام   دہ رہا تھا۔ ایمسٹرڈیم تک ہوائی جہاز پر آیا تھا۔ جہاز اترنے سے دو گھنٹہ قبل اُس نے پاسپورٹ پھاڑ کر جہاز کےٹوائلٹ میں بہا دیا تھا۔ اسے علم تھا کہ بے شناخت آدمی کی شناخت ہونے میں بڑا عرصہ لگتا ہے۔ ہر آمد پر اُس نے پانچ   سال کھینچ کھانچ کر نکال لیے تھے۔ پہلی دفعہ اس کی سیاسی پناہ کی درخواست پیپلز پارٹی کے جیالے کے طور پر تھی، دوسری دفعہ وہ ایم کیو ایم کا کارکن تھا، اب تیسری دفعہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کر رہا تھا، ہر دفعہ اُس کا نام فرق تھا۔    کہنے لگا اپنا ملک چھوڑ دیا جا ئے تو پھر   نام بھی آسانی سے چھوڑا جاسکتا ہ...

بے غرض، ایک افسانچہ

تحریر: عاطف ملک دستک پر دروازہ کھولا تو سامنےدرمیانی عمر کا باریش شخص کھڑا تھا۔ قد درمیانہ تھا اور داڑھی خصاب سے سیاہ کی گئی تھی مگر رنگ چھپانے کی کوشش کے باوجود داڑھی کے بالوں کے سروں سے سفیدی اپنا رنگ ظاہر کررہی تھی۔ اس نے گرمجوشی سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، اور اسلام علیکم کہتے حلق سے س اور ع پر غیر ضروری زور ڈالا۔ میرا نام شہزاد ہے، مگر آپ مجھے عبداللہ کہہ سکتے ہیں، ویسے بھی میں اللہ کا بندہ ہوں۔ لوگوں کی فی سبیل اللہ خدمت میری زندگی کا مقصد ہے۔ آپ مجھے دیکھیں گے کہ میں اپنا وقت خدمتِ خلق کو دیتا ہوں۔ رفاہ عامہ کا کوئی کام ہو میں سب سے آگےہوتا ہوں۔ اگر علم ہو کہ کوئی کسی مسلے سے دوچار ہے تو مجھے نیند نہیں آتی، تڑپتا رہتا ہوں، ہر ممکن  مدد کرتا ہوں اور صرف اللہ سے اجر چاہتا ہوں۔ اس نے داڑھی پر دائیں ہاتھ پھیرتے اپنا تعارف کروایا۔ آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تھا، ملاقات ہو گئی ہے تو طبیعت سرشار ہوگئی ہے۔ ویسے بھی اگر دو شخص صرف اللہ کے لیے ملیں تو سنا ہے کہ ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی بخشش ہو جاتی ہے۔ ہاں، آپ کو بتانا تھا کہ اگلے ہفتے کونسلر کے انتخابات ہیں۔ میں امیدوار ہوں، ...

انصاف، ایک افسانچہ

  کمرے میں عارضی طور پر عدالت قائم کی گئی تھی۔اس میں میزیں اس انداز میں لگی تھیں کہ اگر ایک طرف سے چلیں تومیز بہ میز واپس اپنی جگہ پہنچ جائیں۔ سامنے میز پر جج بیٹھا تھا اور اس کی میز سے نوے ڈگری کے زاویے پر اگلے میز پر وکیل استغاثہ بیٹھا تھا۔ وکیل استغاثہ کی میز   سے مزید نوے ڈگری پرملزم بیٹھا تھا اور اس کے آگے بھی میز دھرا تھا۔ ملزم سے آگے نوے ڈگری پر وکیل صفائی بمعہ اپنی میز براجمان تھا، اور اس سے نوے ڈگری پر واپس جج کی نشست آجاتی تھی۔     جج ،   وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی تینوں وردی میں تھے۔ ان کا بنیادی کام کچھ اور تھا مگر اُس دن وہ عدل کی تقسیم پر مامور ہوئے تھے۔ عدالت کی کاروائی شروع ہونے سے قبل جج نے ایک قواعد کی کتاب کھولی اور میزوں کے درمیان فاصلوں کا ناپ کروایا کہ کیا میزیں قواعد کی کتاب کے صفحے پر لکھی پیمائش کے مطابق رکھی گئی ہیں؟ فاصلوں میں کچھ فرق پانے پر ملازمین نے میزوں کو اپنی جگہ سے ہٹایا۔ ایک میز کو نئی جگہ پر رکھتے تو اس کا فاصلہ ایک جانب کی میز سے درست ہو جاتا مگر دوسری میز سے غلط ہوجاتا، سو میزوں کو حسبِ قواعد رکھنے میں کافی وقت صرف ہوگ...