الحمرا اور مسافر, قسط سوم

 تحریر : عاطف ملک

تصاویر : عاطف ملک و محی الدین
الحمرا اور مسافر، قسط دوم درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ 


https://aatifmalikk.blogspot.com/2020/04/blog-post_21.html


القضبہ سے نکل کر باغ  سے گذر کر ہم بنو نصر کے محلات کی جانب چلے گئے۔ بنو نصر اندلس میں آخری مسلمان حکمران تھے جنہوں نے بارہ سو تیس عیسوی سے چودہ سو بانوے عیسوی تک غرناطہ پر حکومت کی۔  یہ تین محل ہیں جو مختلف اوقات میں تعمیر ہوئے تھے۔ عربی میں پہلا قلعتہ المشور، دوسرا قمارش اور تیسرا الریاض السعید کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ تینوں محل مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے۔ قلعتہ المشور سب سے پرانی تعمیر ہے جو کہ بارہ سو اٹھتیس عیسوی میں بنو نصر کے پہلے حکمران محمد الحمر کے حکم سے شروع  ہوئی۔ اس کے نام المشور کی بنیاد عربی  اور اب اردو میں بھی مستعمل لفظ مشورہ سے ہے، سو یہاں وزاء کی مجلس شوری بیٹھتی تھی، حکومت کے حوالے سے مشورے ہوتے تھے اور احکامات جاری ہوتے تھے۔ عدالت یہاں کے بڑے کمرے میں لگتی تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا تخت تھا جو کہ  جالی دار دیوار سے بڑے کمرے سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ بادشاہ وہاں بیٹھ کر سائلین کی درخواستیں سنتا تھا۔ عدالت کمرے کے داخلی دروازے کے اوپر ایک سرخ لکڑی کا ٹکڑا  زمانے کے  دست برد سے ابھی بھی بچا ہے۔ اس پر سلطان کی مدح میں لکھے گئے اشعار آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ وہ اشعار یوں ہیں
یا منصب الملک الرفیع
و محرز الشکل البدیع
فتحت للفتح المبین
و حسن  صنع او صنیع
اثر الامام محمد
ظل الا الہ علی الجمیع
 اس کا انگریزی ترجمہ جو کہ ایک کتاب سے لیا گیا ہے، درجِ ذیل ہے۔

Oh sublime royal dais, 
How marvellous is your design!
Openly you went to an overwhelming victory
And good works and actions.
It is a monument of the imam Muhammad, 
The shadow of God stooping over all of us.
 
(From Book Reading the Alhambra ( A visual Guide to the Alhambra through its inscriptions) by Jose Miguel Puerta Vilchez

 بڑے کمرے کے درمیان شیشے کی چھت تھی جس سے دن کی روشنی اندر آتی تھی، بعد میں اس چھت کو لکڑی کی کاشی کردہ چھت سے بدل دیا گیا۔ دروازے پر ایک عبارت کنداں تھی، " آئیے، بے خوف و خطر یہاں داخل ہو، یہاں انصاف مانگنے سے مت ہچکچاو کہ یہاں انصاف کیا جاتا ہے"۔ اس کے علاوہ چھت کے قریب قرآن کی آیت لکھی ہوئی نظر آتی ہے۔ وما بکم من نعمتہ فمن اللہ، اور جو بھی نعمت تمہیں ملتی ہے وہ اللہ کی طرف سے آتی ہے۔

الحمرا میں بنو نصر کے محلات کا داخلہ
ںصری محل میں داخلہ

 عدالت کمرے میں داخلہ

داخلے کے دروازے کے اوپر لکڑی پر سلطان کی مدح میں اشعار لکھے ہیں

  کمرے کے ستون خوبصورت انداز میں چھت سے ملتے ہیں۔ ان میں مختلف رنگوں کے ڈیزائن بھی نظر آتے ہیں اور نیلے رنگ میں نصری نعرہ ولا غالب الا اللہ بھی لکھا ہے۔ دیواروں پر تقریباً پانچ  چھ فٹ کی بلندی تک مختلف رنگوں میں جیومیٹریکل ڈیزائن بنے ہیں۔
 
کمرے کی چھت کا ڈیزائن


عدالت کمرے کے ستون

کمرے میں ولا غالب اللہ چھت پر مختلف طرز اور رنگ میں

کمرہ عدالت کی دیوار پر ڈیزائن


ستون پر مختلف رنگ و نصری نعرہ

 کمرے کی دیوار کی نقش نگاری و جیومیٹریکل ڈیزائن والعزت اللہ الملک اللہ 

 اس کمرہ عدالت کے ایک طرف باغ ہے جس کے وسط میں ایک حوض ہے۔


کمرہ عدالت کے ساتھ کا باغ

 بڑے کمرے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی مسجد بھی تھی۔ اس مسجد سے غرناطہ کی آبادی خصوصاً البسین کا نظارہ ہوتا ہے۔ یہ عام مساجد سے اس لحاظ سے فرق ہے کہ عموماً مساجد سے باہر کا نظارہ نہیں کیا جاتا۔ اس مسجد کی دیواروں پر مختلف عبارات و آیات خوبصورت خطِ  کوفی اور دوسرے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے الحمد اللہ علی نعمتہ الاسلام، اسلام کی نعمت دینے کا اللہ کا شکر، ولا غالب الا اللہ، اللہ کے سوا کوئی حاوی / غالب/ فاتح نہیں، عز لمولانا السطان، ہمارے سلطان کی عزت ہو ۔ مسجد کی محراب پر لکھا ہے اقبل علی صلاتک، اپنی نمازوں کی فکر کرو، ولا تکن من الغافلین، اور غافلوں میں مت شامل ہو جاو۔  بڑے ہال کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ ہے جسے موجودہ دور میں گولڈن چیمبر کہا جاتا ہے۔ گمان ہے کہ یہ کمرہ سلطان سے ملنے آنے والوں کی انتظارگاہ تھی۔ اس کمرے میں مسلمانوں کے دور کے بعد کئی تبدیلیاں کی گئیں جن میں اس کی شہر پر نظر کرتی تین کھڑکیوں کو ہٹا کر ایک بنا دیا گیا۔ اس کے دوسرے کمروں کی جانب جاتے دروازے بند کر دیے گئے اور اس کے علاوہ بھی کئی تبدیلیاں ہیں مگر اس کے باوجود یہاں دیواروں پر لکھی گئی کچھ تحریریں باقی ہیں، جن میں سب سے نمایاں قرآن کی آیت ہے،  وما النصر الا من عند اللہ العزیز الحکیم کہ فتح صرف اللہ حکمت والے و طاقتور کی جانب سے آتی ہے۔

قرآن کی آیت، وما بکم من نعمت فمن اللہ چھت کی ساتھ لکھی نظر آتی ہے

اندلس میں مسلمانوں کی شکست کے بعد کے اداور میں قلعتہ المشور میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ چرچ بنا دیا گیا، بادشاہ کے تخت کو ختم کر کے وہاں پادریوں کے لیے جگہ بنادی گئی۔ بعض جگہ پر عیسائی حکمرانوں نے اپنے تاج کا پیوند لگادیا جو کہ عمارت کے اپنے حسن میں بہت بھدا نظر آتا ہے۔  پندرہ سو نوے عیسوی میں اسلحہ خانے میں دھماکے نے محل کو بہت نقصان پہنچایا۔ 
 
عیسائی حکمرانوں کے تاج کا پیوند

الحمرا میں نصری محل کی مسجد اور شہر

مسجد میں نقش نگاری

دائیں جانب مسجد کی محراب 

بڑے کمرے کا ایک دروازہ ایک چھوٹے کمرے میں جاتا ہے جسے سنہرا کمرا کہتے ہیں۔ اس  کمرے کی چھت پر بنو نصر کے دور میں کشیدہ کاری کی گئی  تھی جو بعد میں سونے کے پتوں سے مزین کی گئی۔ اس وجہ سے آج اس کمرے کو سنہرے کمرے یا گولڈن کمرے کے نام  سے جانا جاتا ہے۔ اس کمرے سے غرناطہ شہر کا منظر بھی نظر آتا ہے۔ سنہرے کمرے کے آگے ایک برآمدہ ہے جس میں تین خوبصورت قواسین بنی ہیں،جن کے اوپر ایک جھروکہ نما کھڑکی ہے۔ برآمدے کے آگے ایک صحن ہے۔ صحن کے وسط  میں ایک سنگِ  مرمر کا فوارہ ہے۔  صحن کے دوسری جانب دیوان خاص ہے۔ دیوان خاص سلطان یوسف اول نے تیرہ سو تیتیس عیسوی کے لگ بھگ بنوانا شروع کیا تھا۔ 

سنہرے کمرے کی چھت، تصویر بشکریہ انٹرنیٹ

سنہرے کمرے کی چھت 

 سنہرے کمرے کی چھت کی قریبی تصویر، بشکریہ انٹرنیٹ

سنہرے کمرے کی کھڑکی جہاں سے غرناطہ شہرنظر آتا ہے

 صحن سے سنہرے کمرے کی قواسین کا منظر

سنہرے کمرے کے برآمدے کے اوپر کی کھڑکی


 صحن سے  دیوان  میں جانے کے دو دروازے

صحن سے دیوان میں جانے کے دروازوں کا بالائی حصہ

صحن سے دیوان میں جانے کے دروازوں کا بالائی حصہ

سنہرا کمرہ عدالتی کمرے سے دیوان خاص کو جوڑتا ہے۔ دیوان خاص  سرکاری کاموں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلے کا نام حنائی صحن ہے۔ اس نام کی وجہ صحن کے درمیانی حوض کے ساتھ لگی ہوئی خوبصورت مہندی کی جھاڑیوں کی رو ہے۔ یہ سینتیس میٹر اور چوبیس میٹر کاچوکور صحن محل کا  وسط ہے۔ دیوان خاص کے عقب میں واقع مینار بھی یہاں سے نظر آتا ہے۔ یہ صحن صنائی کی ایک خوبصورت مثال ہے کہ اس کے درمیان پانی کے حوض میں ساتھ  کی خوبصورت دیواروں اور عمارت کا عکس ہر چیز کو دوگنا کر  دیتا ہے۔

 یہاں ایک تصویر کھینچی کہ جس میں عمارت کا عکس پانی  میں وہ منظر پیش کررہا تھا کہ منیر نیازی کا شعر یاد آگیا۔

اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا 
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا 

مجھے یقین ہے کہ چاند جب بھی پاگل پن پر اترتا ہوگا تو الحمرا کے اس حوض میں ضرور اترتا ہوگا کہ اُس کے پاگل پن میں اتنی فرزانگی  ضرور ہوگی کہ یہ حوض اسے دنیا بھر میں سرمستی و بیخودی کا نشان بن کر نظر آتا ہوگا۔

حنائی صحن کے حوض کے پانی میں عکس

 یہ حوض پانی اور زندگی کے تعلق کو علامتی طور پر ظاہر کرتا ہے۔ اس حوض کے دونوں چھوٹے کناروں پر واقع دو فوارے زندگی کے سفر کو پیش کرتے ہیں۔ ایک  فوارے کی پھوار پانی پر گرتی ہے، یہ پیدائش ہے۔ یہ پھوار پھر فوارے کی گول تھالی میں گول دائروں کی شکل میں بڑھتی  ہے، یہ زندگی کی سفر ہے۔ پھر یہ پانی فوارے کی تھالی سے ایک تنگ راہ میں جاتا ہے، یہ ادھیڑ عمری ہے۔ اس کے بعد یہ پانی بڑے حوض میں اتر کر ہمیشگی اور ابدیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ 


حنائی صحن، حوض کے ساتھ مہندی کی باڑیں
  
 حنائی صحن اور اس کے عقب میں مینار

حنائی صحن کی دوسری جانب سے تصویر

قواسین کا قریب سے منظر

 زندگی کے سفر کو پیش کرتا فوارہ، تصویر بشکریہ انٹرنیٹ

صحن کے دونوں جانب طاقچے ہیں اور قوسین بنی ہیں۔ ان قوسین اور ان کے اوپر اُس زمانے کے ہنر مندوں کی صناعی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک جگہ خطِ کوفی میں یمن، عنایت کے معنی میں لکھا ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حوض پرعکس کا خیال کرتے دیوار پر اس عکس الٹ لحاظ سے ساتھ ہی لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ولا غالب اللہ ، العزت للہ، البقاء اللہ، البرکہ، لا قوت الا باللہ ، الشکر اللہ، الحمد اللہ ، العافیہ، الملک للہ وحدہ بھی لکھے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سلطان کی مدح میں عز لمولانا ابی عبداللہ یعنی ہمارے سلطان عبداللہ کی عزت بڑھے بھی لکھا ہے۔  صحن کے شمالی اور جنوبی جانب بڑے برآمدے ہیں جن میں سات قواسین بنی ہیں۔ برآمدے کے دونوں جانب طاقچے تھے جہاں  وزرا ، سفارت کار اور دوسرے عمائدین بادشاہ سے ملاقات سے قبل انتظار و مشاورت کرتے تھے۔ تمام دیواریں اور قوسین عربی میں دعاوں، شاعری اور نصری نعرہ سے مزین ہیں۔


قوس کی تصویر

برآمدے کی ایک جانب کا طاقچہ

طاقچے کے اندر کے نقش و تحریر

طاقچے کے اندر تحریر و ڈیزائن

شمالی برآمدے میں واقع دروازہ

شمالی  برآمدے سے جس کمرے میں داخل ہوا جاتا ہے اُسے آج بوٹ روم یعنی کشتی والا کمرہ کہا جاتا ہے۔ اس کمرے سے ہو کر شاہی تخت کے کمرے میں جایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کمرے کی چھت ایک کشتی کی مشابہت رکھتی ہے سو اسے اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ کچھ کے نزدیک اس نام کی وجہ اس کمرے کی دیواروں پر لکھا البرکہ ہے جو ہسپانوی زبان میں بگڑ کو بوٹ روم بن گیا۔  گمان ہے کہ یہ عمارت سلطان محمد پنجم نے تیرا سو چھیاسٹھ عیسوی میں تعمیر کروائی تھی۔ اٹھارہ سو نوے عیسوی میں یہ کمرہ آگ میں تباہ ہوگیا تھا تو یہ چھت دوبارہ بنائی گئی تھی۔ اس کمرے کے دروازے کو باب البیت کہا جاتا تھا، اس پر ایک زبردست قوس ہے جس پر اندلسی شاعر و امیر ابن زمرق کی شاعری لکھی ہے۔ اس کے علاوہ دیواروں پر بھی نصری نعرہ ولا غالب الا اللہ اور دوسری عبارات و آیات ہیں۔ 

بوٹ روم کی چھت

بوٹ روم کے داخلے پر قوس
 

بوٹ روم سے باہر کا منظر

بوٹ روم سے تخت گاہ میں داخل ہوا جاتا ہے جہاں بادشاہ کا تخت ہوتا تھا۔ بعض کتابوں میں اس کمرے کو سفیروں کے  کمرے کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ پورے محل کا سب سے بڑا کمرہ ہے۔ یہ کمرہ ایک مکعب، انگریزی میں کیوب کی شکل  میں بنایا گیا ہے اور قلعتہ المشور کے مینار کے اندر واقع ہے۔ اس کمرے کے ساتھ نو عدد طاقچے اور کھڑکیاں ہیں جن رنگین شیشے کے ڈیزائن ہیں۔ یہ ڈیزائن عربی میں کومارین کہلاتا ہے، اسی وجہ سے اس مینار کو کومارین کا مینار، ہسپانوی میں مینارِ کومارش کہا جاتا ہے۔

اس کمرے کی دیواروں پر مختلف قدرتی ڈیزائن ہیں؛ سیپ، پھول، ستارے ۔۔۔۔۔ یہ کمرہ اسلامی آرٹ کا نمونہ ہے، آرٹ جس میں قدرت کو خوبصورت طریقے سے گھر میں لایا جاتا ہے۔ بڑی بڑی کھڑکیاں جو باغ، صحن اور حوض پر نظر ڈالتی ہیں،  علامتی انداز میں چھت پر ستارے جو دائروں کی شکل میں بنائے گئے ہیں، کھڑکیوں سے آتی دھوپ اور چھاوں کا تناسب،  یہ سب کچھ ایسا کہ مخلوق سے خالق کے جانب کا سفر ہے، مخلوق  خالق کی صنائی کا رنگ نظر آتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی مستند  حدیث، إن الله جميل يحب الجمال، یہاں پر عملی طور پر  تعمیر کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کمرے کی چھت  کے نیچے لکڑی پر پوری سورت المک کی  تیس آیتیں کنداں ہیں۔ سورت المک جو اللہ کی بڑائی بیان کرتی ہے، اُس کا اس کمرے میں چناو سلطان کو اپنی عارضی بڑائی کا احساس دلانا   ہوگا۔ دیواروں پر دو انداز میں خطاطی ہے، ایک مستعمل لکھائی، حروف متصلہ کے انداز میں جبکہ دوسری تحریریں خطِ کوفی میں ہیں۔ خط کوفی سیدھی لکیروں کو خط ہے جو کہ بہت کم لوگ جانتے تھے۔ الحمرا میں دوسرا خط زیادہ استعمال ہوا ہے۔ دیواروں کے نچلے حصے پر مختلف رنگوں کی پچی کاری سےڈیزائن تیار کیا گیا ہے۔ درمیان میں ایک آٹھ کونے کا ستارہ ہے اور اس کے  گرد مزید ستارے  دائروں کی شکل میں پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ رنگوں کے انتخاب سے یہ ایک بہتا پھیلاو لگتا ہے۔ یہ حلقہِ درویشاں ہے جو کسی سے فیض یاب ہورہا ہے۔  یہ ریاضی اور روحانیت کا ایسا جوڑ ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، صرف اہل نظر اسے محسوس کرسکتے ہیں۔ 

الحمرا کی تعمیر میں کھڑکیوں اور روشنی کا رشتہ جاننا ضروری ہے۔ چھت کے قریب کی کھڑکیاں چھوٹی و علامتی ہیں جہاں سے کچھ ہوا کا داخلہ مقصود ہوگا۔ جبکہ دوسری بڑی کھڑکیاں فرش تک یا بہت نیچے تک آتی ہیں۔ اس کی وجہ عربوں میں مستعمل زمینی نشست ہے سو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورے الحمرا کو زمین کی سطح پر آکر ہی مکمل طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ 

کمرہِ تخت گاہ کی چھت بھی اسلامی آرٹ و صناعی کی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اٹھارہ میٹر بلند  چھت دیودار کی لکڑی کی بنی ہے۔ اس چھت میں آٹھ ہزار لکڑی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر نظام فلک اور مذہبی علامتی پیغام دیا گیا ہے۔ چھت کے درمیان میں  ایک مقرنس جو کہ جنت عدن کی علامت ہے۔ اس  کے گرد سات دائرے بنے ہیں جو مختلف ستاروں پر مشتمل ہیں جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
 
کمرہ تخت گاہ، تصویر بشکریہ انٹرنیٹ

تخت گاہ کے وسط میں فرش کا اصل  ٹکڑا


تخت گاہ کی دیوار 

تخت گاہ کی دیوار کے نقش و خطاطی

تخت گاہ کی چھت کے قریب کی تصویر

تخت گاہ کی چھت و دیوار، بشکریہ انٹرنیٹ

تخت گاہ کا ایک منظر، بشکریہ انٹرنیٹ

 دیوار کے نقش و نگار، بشکریہ انٹرنیٹ

تخت گاہ سے ایک طاقچے کی راہ

یہی وہ کمرہ ہے کہ جہاں آخری بنو نصر کے بادشاہ ابو عبداللہ محمدالثانی عشر نے دو جنوری چودہ سو بانوے عیسوی کو ہتھیار ڈالنے کے کاغز پر دستخط کیے۔ فاتح چارلس ہفتم نے اس محل کی خوبصورتی دیکھ کر اُس وقت کہا تھا، " اتنی خوبصورتی کو چھوڑنے والا افسردہ ہی رہے گا"۔

قلعتہ المشور-------------Mexuar
Comares Palace -------دیوان خاص 
الریاض السعید  ------------Palace of the lions 

الحمرا اور مسافر، قسط چہارم  درجِ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔

 جب کہ الحمرا اور مسافر، قسط دوم درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ 


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
 
#AatifMalik, #Alhamra, #Alhambra, #UrduAdab, #Urdu, #Andalusia
#عاطف ملک ،
#اردو
#الحمرا
#اندلس
#سفرنامہ







Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ