وارنٹ آفیسر مسکین اور گندے انڈے

تحریر : عاطف ملک

اگر آپ بیوروکریٹ یا ریٹائڑد فوجی کے پاس بیٹھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ تو ماضی میں جی رہا ہے۔ 

اس کے پاس آپ کو سنانے کے لیے اپنی نوکری کی کہانیاں ہوتی ہیں؛ وہ کہانیاں سناتا ہے، بے دریغ، بے بریک، بے حساب، بے جواب، بے خواب۔ آپ کا سننا ضروری نہیں، ہوں ہاں کرنا بھی ضروری نہیں، آنکھ ملانے کی ضرورت بھی نہیں، کان کھجائیے، بے زاری کا اظہار کریں، ماتھے کو رگڑیے، کچھ کرلیں ماضی میں سانس لیتا حال سے بے خبر ہی رہتا ہے۔ 

کہانیاں دواقسام کی ہوتی ہیں۔ اگر کہانی سنانے والے کاعہدہ چھوٹا رہا ہو تو وہ بڑے عہدیداروں سے کہانی شروع کر کےاپنے تک لائے گا۔ جیسے جیسے کہانی سنانے والے کا عہدہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے، اس کی کہانیاں تیزی سے اپنے جانب آتی ہیں، اور پھر وہ مقام آتا ہے کہ کہانی سنانے والا اپنے ہی گرد والہانہ رقص کر رہا ہوتا ہے، دیوانہ وار ناچتا ہے۔ یہ چھب دکھاتی طوائف نہیں ہوتی بلکہ وقت کا مارا، حقیقت سے فرار مانگتا ناچار نچیا ہوتا ہے۔ ایسا ناچنے والا جو اپنا تماشبین بھی خود ہی ہے۔ یہ زندگی کا رقص نہیں بلکہ حسرتوں کا ناچ  ہے۔ مور کا سنا ہے کہ پنکھ پھیلائے ناچتے اپنے پیروں کو دیکھ کر روتا ہے، یہ نچیا اپنے ماضی کو یاد کر کر کے روتا ہے، ہائے گئے وقت نچایا کرکے تھیا تھیا۔ 

 وہ جو جی سر، جی سر کی مداح کا خوگر رہا ہوتا ہے، وہ ریٹائر ہونے کے بعد وقت کی تبدیلی دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے مگر مانتا نہیں۔ اس انکار سے وہ اپنا سراب خود تراشتا ہے اور اس کی پیاس اسے ناچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اپنا خدا خود ہوتا ہے، خود کو سجدہ کرتا ہے، وقت اور مقام سے قطعِ نظر اپنے خود تراشیدہ بت کے سامنے حالتِ سجدہ میں پڑا رہتا ہے۔ 

میں سینئر ٹیکنیشن شاہد، ریڈار فٹر فضائیہ میں ایک چھوٹا عہدیدار رہا ہوں۔ شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ ریڈار فٹر کیا ہوتا ہے، یہ ریڈاروں کے مکینک ہوتے ہیں۔ جب ریڈاروں کے اینٹینا گھومنا بند ہوجاتے ہیں تو ہم ہی انہیں دوبارہ گھومنے پر لے کر آتے ہیں۔ جب ریڈاروں کے ٹرانسمیٹر یا ریسیورکام کرنا چھوڑ جائیں کہ فضا کی ہوائی تصویر گم ہوجائے تو ہم ہی وہ لوگ ہیں جو معاملہ درست کرتے ہیں۔ یہ درستگی کا معاملہ گھنٹوں سے لے کر کئی راتوں اور دنوں کی قربانی لے سکتا ہے۔ جان لیجیئے کہ  دشمن کے جہاز تک کی رہنمائی میں ہم ایک کردار ہیں، کئی اور کرداروں کی طرح چپ چاپ اپنا کام انجام دیتے۔ 

میرے کام کو چھوڑیے، آپ ایک کہانی سنیں۔ میری کہانی کسی بڑے افسر کی نہیں بلکہ اپنے ایک انچارج وارنٹ آفیسر کی ہے۔ اگر آپ فوج کی عہدوں سے واقف ہوں تو جانیے کہ سینئر ٹیکنیشن حوالدار ہوتا ہے، جی وہی حوالدار جو بازو پر تین فیتیاں لگاتا ہے جبکہ وارنٹ آفیسر صوبیدار ہوتا ہے۔ صوبیدار جس کا نام سن  کر اٹھی مونچھوں والا، یونیفارم کے کاندھے پر لکیر کے ساتھ ایک ستارہ لگائے کرخت، چست، لمبا، چوڑا، حکم دیتے فوجی اہلکار کا خیال آتا ہے۔ مگر آپ کو مایوسی ہوگی میری کہانی کا وارنٹ آفیسر ایسا نہیں ہے۔ وارنٹ آفیسر سرفراز کو اگر آپ کہیں مل لیتے تو آپ کو یقین نہ آتا کہ وہ کاندھوں پر ستارہ لگاتا ہے۔ وہ درمیانہ قد تھا، بات کرتا تو لگتا کہ منت کر رہا ہے۔ بڑوں کے سامنے جی جی کی گردان لگاتا، چھوٹوں کو حکم دیتا تو لگتا کہ درخواست گذار ہے۔ یونٹ میں کسی نے اُس کا نام مسکین رکھ دیا، اب وہ وارنٹ آفیسر مسکین کے نام سے جانا جانے لگا۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے وہ مسکین نہیں لگتا تھا، مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جب وہ جی جی کررہا ہوتا ہے، جب وہ درخواست گذار ہوتا ہے تو اس کے لبوں پر دور ایک ان دیکھی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ وہ مسکراہٹ جو کسی اور کو نظر نہیں آتی، وہ مسکراہٹ صرف اس کے اپنے لیے ہوتی ہے۔ 

یونٹوں میں سپاہیوں سے لے کر افسروں تک کے نام رکھے جاتے ہیں۔ یہ نام شناختی کارڈ پر لکھے ماں باپ کے دیے گئے ناموں سے الگ ہوتے ہیں کہ یہ نام عمل اور وقت عطا کرتا ہے۔ وقت اور عمل کے دیے گئے نام انمٹ سیاہی سے لکھے جاتے ہیں۔ یہ نام فوجی گھوڑے کی پشت پر گرم سلاخ سے داغے گئے شناختی نمبر کی مانند ہوتے ہیں، ایک دفعہ شخصیت پر لگ گئے تو پھر کھرچے نہیں جاسکتے، چاہے حاملِ نام جتنی مرضی کوشش کرلے یہ نام شناختی علامت رہتے ہیں۔ 

فوج میں لوگ ملتے ہیں اور پھر بکھر جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے کسی گاوں میں بینائی کی گم ہوتی شمع  رکھتا بوڑھا حوالدار، پنجاب کے کسی بڑے شہر کے بنک کے دروازے پر اڑی رنگت کی سلوٹوں بھری پتلون پہنے خصاب سے کالی کردہ مونچھوں والا ریٹائرڈ لانس نائیک، سندھ  کے کسی قصبے میں کریانے کی دکان چلاتا ریٹائرڈ فوجی حوالدار، پشاور میں ویگن اڈے کا منتظم نیوی کا ریٹائرڈ پیٹی افسر، لاہور میں مشہور بیکری کی چین کی دکان کے کاونٹر پر کھڑا ریٹائرڈ وارنٹ آفیسر، قلات میں پرائیوٹ سکول میں ناکافی تنخواہ پر کلرک ریٹائرڈ چیف ٹیک، سیکورٹی ایجنسی چلاتا ریٹائرڈ کرنل، پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا ریٹائرڈ میجر، کسی ٹائیکون کا ملازم ریٹائرڈ جنرل، ٹی وی ٹاک شو پر ایکسپرٹ کہلاتا ریٹائرڈ ایر مارشل،ان سب کے اصل نام لوگ بھول جاتے ہیں، عمل اور وقت کے عطا کردہ نام زندہ رہتے ہیں۔ ایک دفعہ رکھے نام پھر نہیں بدلتے۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ نام بدل جاتے ہوں۔ 

مگر کبھی کبھی یہ عطا کردہ نام بدلتے ہیں۔ یہ کہانی بھی ایسے ہی ایک استثنا کی ہے، سرفراز سے مسکین کا عُرف عام پانا اور پھر سے سرفراز ہونا، یہ کہانی روایتی کہانی نہیں ہے۔ 

یہ نام کیسے آتے ہیں؟  سب سے پہلے جانیے کہ عموماً یہ نام دو طریقوں سے آتے ہیں۔ فوجی بیرک میں جائیں تو لائن میں بستر لگے ہوتے ہیں۔ لوہے کے فریم کی چارپائیاں جو فولڈ ہوجاتی ہیں، ان پر بچھی چادریں، ایک طرف سرہانہ اور  پائنتی پر موسم کے لحاظ سے چادر، کھیس یا رضائی طے کرکے پڑی ہوتی ہے۔ سرہانے کے غلاف پر کی گئی کڑھائی کسی رشتے یا بنتے رشتے کا واسطہ لیے پردیس میں شب کو ساتھ ہوتی ہے۔ چارپائی کے پیروں کے نیچے ایک لوہے کا ٹرنک پڑا ہوتا ہے۔ یہ ٹرنک فوجی کے ساتھ اس کے نصیب کی مانند ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس ٹرنک کے اوپر فوجی کا نام موٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے۔ نام کے ساتھ کبھی یونٹ کا نام اور کبھی آبائی علاقے کا نام خوشخط لکھا ہوتا ہے کہ بیرک میں کوئی نہ کوئی بچپن میں سرکنڈے کی قلموں اور تختیوں کی مشق سے گذرا ہوتا ہے۔ سرکنڈے کی قلم، لکڑی کی تختی اور گاچنی کی ڈلی،عامیوں سے دل لگائیں تو خصوصیت عطا ہوتی ہے۔ 

 ان ناموں کے آخر میں خود چُنے اضافی نام بھی درج ہوتے ہیں؛ پردیسی، پنچھی، زخمی وغیرہ۔ عموماً یہ نام ایک اداسی کی فضا اوڑھے ہوتے ہیں۔ ہجرت چاہے رزق کے لیے ہو، چاہے عارضی ہو، چاہے بے نام سے گاوں سے رونق بھرے شہر کی جانب ہو، ایک بے کلی کی چادر اوڑھے ہوتی ہے۔

 یہ اضافی نام حاصل کرنے کا پہلا طریقہ ہے، عموماً یہ میرے جیسے نچلے عہدے کے ملازمین میں زیادہ مروج ہے۔ دوسرا نام حاصل کرنے کا طریقہ جو افسران میں زیادہ اور نچلے عہدیدران میں کم مستعمل ہے، اسے سمجھنے کے لیے کہانی کو مزید پڑھنا ہوگا۔ ان ناموں میں اچھے برے تمام رنگ ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان ناموں کو سُن لیں تو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ نام کیسے آئے ہونگے مثلاً شبیراینجل، اسلم ٹوکہ، فلاں ڈوگی وغیرہ۔ یہ نام عمل اور وقت عطا کرتا ہے۔ بخدا نام ہی کافی ہوتا ہے، نام سننے کے بعد ان نامیوں کی خصوصیات کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔

میں اور وارنٹ آفیسر سرفراز عرف مسکین ایک موبائل ریڈار یونٹ میں تعینات تھے۔ یہ یونٹ سال کے کچھ ماہ چھاونی میں رہتی اورباقی عرصہ باہر مختلف مقامات میں رہتی تھی۔ جب میں تبادلے کے بعد اس یونٹ گیا تو یونٹ کا آفیسر کمانڈنگ، جسے مختصراً او-سی بھی کہا جاتا ہے، نرم گفتار اور ماتحتوں کا خیال رکھنے والا تھا۔ ایک دن صبح یونٹ میں خبر پھیلی کہ او-سی کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ ماتحت اُس کے جانے کی خبر سن کر افسردہ ہوگئے مگر فوج میں تبادلے ایک معمول کے بات ہیں، ایک گیا اور اگلا آیا۔ سو لوگ اگلے کی بابت پتہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ جس سے اب واسطہ پڑے گا وہ کس قماش کا ہے۔ 

 عملے نے اگلے صاحب کی موجودہ پوسٹنگ کی جگہ سے اُن کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اطلاعات کچھ اچھی نہ تھیں۔ پرانا او-سی گیا اور نیا آیا، بلکہ اُس کے آنے سے پہلے اُس کا سامان آیا۔ ٹرک پر جو سامان آیا  تھا اس کے ساتھ پچھلی یونٹ کے دو ملازم ایک کتا بھی لائے تھے۔ یونٹ میں ایک تیز طرار ریڈیو آپریٹر تھا جو کہ ٹیلیفون ایکسچینچ میں کام کرتا تھا اور مختلف افراد کی کھوج لگا لاتا تھا۔ کسی نے اس سے نئے او-سی کی بابت پوچھا تو ستم ظریف بجائے ان کے بارے میں بتاتا، کہنے لگا کہ ان کا کتا اچھی نسل کا ہے۔

نئے او- سی صاحب پہلے دن یونٹ کے معائنے پر نکلے۔ یونٹ خوب تیار کی گئی تھی، لوگ رات گئے تک یونٹ کی صفائی ستھرائی میں مصروف رہے تھے۔ یونٹ میں لگے درختوں کے تنے تین فٹ تک چونے سے سفید کیے گئے اور ان  درختوں کے گرد زمین دائرے کی شکل میں گیرو سے لال کی گئی۔ یونٹ کی تمام گاڑیاں دھو کر ان پر ہلکا آئل لگایا گیا تھا کہ سطح چمک جائے۔ دفتروں میں رجسٹر خاکی کاغذ چڑھا کر ترتیب سے الماریوں میں رکھے گئے تھے۔ تمام لوگوں نے ایک دن قبل تازہ بال کٹوائے اور صاف ستھرا استری شدہ یونیفارم پہنا۔

او-سی صاحب دفاتر سے ہوتے ہوئے ریڈار فٹروں کے دفتر میں آئے۔ وارنٹ آفیسر سرفراز المعروف مسکین نے دفتر کے دروازے پر زوردار سلیوٹ مار کر انہیں خوش آمدید کہا۔ او-سی صاحب نے کمرے میں رکھی الماری کو کھولا اور رجسٹروں پر نظر ڈالی۔ ایک رجسٹر کا کور کونے سے اکھڑا تھا، اُسے اٹھایا اور سامنے پڑے میز پر پٹخ مارا اور ساتھ ہی انچارج کی کم بختی آگئی۔ 

" یہ تمہاری میری انسپکشن کی تیاری ہے؟ تمہیں میرا علم نہیں، میں نے بہت حرام خور سیدھے کیے ہیں۔ جلد ہی تمہیں میرے کام کرنے کا پتہ لگ جائے گا، میرا سٹینڈرڈ سب سے الگ ہے"۔ 

او-سی صاحب کی آواز میں غصہ تھا اور چہرہ آگ بگولا ہورہا تھا۔ دوسری جانب وارنٹ آفیسر کی مسکینی میں اضافہ ہی اضافہ تھا۔ کمرے سے جاتے جاتے او-سی نے وارنٹ آفیسر کی کرسی کو ٹھڈا مار کر کہا، " میں یہاں تم سب کو سیدھا کرنے آیا ہوں"۔ جواب میں صرف سر، جی سر، بالکل سر کی ہی آواز سننے کو مل رہی تھی۔ یونٹ کے مختلف دفاتر میں ماتحتوں کو اس سے ملتی جلتی صورتحال کا سامنا رہا۔ انسپکشن مکمل ہوئی تو پوری یونٹ او-سی کے خطاب کے لیے اکٹھی ہوگئی۔ خطاب میں صلواتیں ہی تھیں، " میں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ یونٹ گندے انڈوں سے بھری ہے، میں تم سب کو ٹھیک کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں"۔ صاحبِ علم پہلے سے جانتے تھے کہ کیا دن آںے والے ہیں، باقیوں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ مشکل دن آگے ہیں۔ 

اگلا دور تلخیِ ایام لیے آیا۔ بات بے بات بے عزتی کا دور تھا، مگر نوکری اور خصوصاً فوج کی نوکری میں آپ کیا کر سکتے ہیں، قسمت کا لکھا جان کر برداشت کریں۔ کوئی او-سی صاحب کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ اُسے چمڑ ہی جاتے، بدلحاظ اور بے مروت تھے۔ او-سی صاحب کو ایک عجب سی عادت تھی، بات کرتے کرتے گردن کو ایک جانب کو جھٹکا دیتے اور پھر سر کو اچکاتے۔ کچھ ہی دنوں میں وہ یونٹ میں کتا مکھی کے عرف عام سے جانا جانے لگے، وہ مکھی جو آپ کو چپکے تو آپ کا ساتھ نہ چھوڑے، جتنا مرضی آپ سر کو جھٹک کر اس سے جان چھڑانے کی کوشش کریں وہ تنگ کرتی رہتی ہے، ایک سردردی اور ایذا مستقل ساتھ لگی رہتی ہے۔

کچھ عرصے بعد گرمیوں کے موسم میں یونٹ کی فیلڈ میں ڈیپلوئمنٹ آگئی۔ اب اس ریڈار یونٹ کا اپنا ایک مخصوص آپریشنل طریقہ تھا۔ ایک ہیڈ کوارٹر درمیان کے جگہ پر بنایا جاتا اور اس کے اردگرد تقریباً دو سو کلومیٹر کے  دائرے کے محیط پر مختلف جگہوں پر آٹھ سے دس ریڈار لگائے جاتے جو اپنے اپنے علاقے کی فضائی تصاویر لمحہ بہ لمحہ ہیڈکوارٹر بھیجتے۔ اس طرح ہیڈ کوارٹر کے پاس پورے علاقے کی مجموعی فضائی صورتحال اُسی دم تیار ہوتی جو وہ اپنے سے اگے سینڑ کو فوری بھیج دیتا۔

یہ فیلڈ ڈیپلوئمنٹ آسان کام نہیں ہے۔ ہیڈ کوارٹر شہر سے دور ہوتا، عموماً کوئی محکمہ انہار کا پرانا بنگلہ، ریسٹ ہاوس یا کوئی اور پرانی عمارت کسی ویرانے کے آس پاس  ہمارے کام آتی۔ اس کےاردگرد ٹینٹ لگا کر ایک عارضی بستی بسا لی جاتی۔ افسران کا میس وہ بنگلہ ہو جاتا جبکہ ایرمین اور سویلین ملازمین کے لیے بھی ایک دو کمرے میس کا کردار کرتے جہاں وہ کھانا کھاتے۔ ساری یونٹ بشمول افسران عموماً ٹینٹوں میں رہائش رکھتی۔ 

مختلف جگہوں پر ریڈاروں کو لگانا بھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ ریڈار بڑے بڑے ٹرکوں پر لگے تھے۔ ٹرک پرانے اور مسلسل دیکھ بھال مانگتے تھے۔ جن جگہوں پر ان ریڈاروں نے لگنا ہوتا تھا وہ اونچائی پر ہوتیں۔  وہاں تک کچا راستہ ہی جارہا ہوتا تھا جس پر ٹرک چڑھانا آسان نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ چھوٹے قصبوں اور دور دراز سرحدی علاقوں تک جاتی سڑکیں بھی ٹوٹی پھوٹی اور برے حال ہوتیں سو اکثر ٹرک منزل پر پہنچنے سے قبل راستے میں خراب ہوجاتے تھے۔ اسی وجہ سے ان ٹرکوں کے ہمراہ مکینک اور الیکٹریشن ساتھ جاتے تھے کہ بیمار کی راہ میں ہی تیمارداری کر پائیں۔ جب یہ ٹرک آخرکار منزل پر پہنچ جاتے اور ریڈار لگائے جاتے تو قافلے کے دوسرے افراد کے طرح ان کی ہڈیاں اور پنجر بھی اپنی جگہ سے ہل چکے ہوتے تھے۔ اب جب ریڈار کو چلایا جاتا تھا تو اکثر کسی نہ کسی مسلے کا شکار ہوتا؛ کبھی اینٹینا نہ گھومتا، کبھی  فضا کی تصویر سکرین پر نہ آرہی ہوتی، کبھی تصویر کی کوالٹی بہت خراب ہوتی غرض جب آپ تھکے ہارے منزل پر پہنچ کر ریڈار کو لگاتے تو منیر نیازی کے شعر کی سمجھ آجاتی، "ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا"۔ اب اس موقع پر ہم ریڈار فٹر میدان میں اترتے۔ ٹیکنالوجی پرانی، جانچ اور پرکھ کا بنیادی سامان تھوڑا، ریڈار کا متعلقہ اضافی الکیٹرانکس سامان کم اور کسی ویرانے میں ریڈار کے ساتھ ہم دو عدد ریڈار فٹر اس اڑے ریڈار کو منانے میں مصروف ہوتے۔ اس منانے کی کوشش میں بعض اوقات دن اور راتیں لگ جاتیں۔ بعض اوقات اس پر بھی ریڈار مان کر نہ دیتا، تب ہیڈ کوارٹر سے سپیشلسٹ پارٹی کو آنا پڑتا۔ یہ یونٹ کے سب سے بہتر ریڈار ٹیکنیشن ہوتے جن کے پاس ٹیسٹنگ کا سب سے بہتر سامان، سپیئرز یعنی اضافی سامان ہوتا۔ جب ڈیپلوئمنٹ کا آغاز ہوتا تو یہ سپیشلسٹ پارٹی اپنا بوریا بستر لادے سڑک پر ہی ہوتی؛ ایک ریڈار کو منایا اور اگلے کی جانب کئی سو کلومیٹر کے سفر پر چل نکلے۔ سب ریڈاروں کو راہ راست پر لانے کے بعد یہ پارٹی ہیڈ کوارٹر میں  کچھ سکون پاتی۔

عموماً ریڈار پر پندرہ بیس لوگ ہوتے ہیں جن کا انچارج ایک وارنٹ آفیسر ہوتا ہے۔ کھانے کے سلسلے میں ایک ایرمین میس ممبر مقرر ہوتا جو باقی لوگوں کے مشورہ سے ہفتہ وار مینو بناتا اور ساتھ آئے باورچی کی مدد سے ناشتہ، چائے اور متعلقہ امور کو دیکھتا۔ اب آپ کو میں ایک راز کی بات بتادوں، یہ مینو بڑا سادہ ہوتا ہے۔ ہم لوگ معاشرے کی جس سطح سے آتے ہیں، وہاں کئی ذمہ داریاں ساتھ جڑی ہیں؛ ماں باپ کو گاوں پیسے بھجوانے ہوتے ہیں، کیمپ میں رہتے بیوی بچوں کے خرچے اٹھانے ہوتے ہیں، غمی وخوشی کے لیے بچانا ہوتا ہے، رشتہ داروں میں فوجی عہدیدار کی حیثیت کا خیال کرنا ہوتا ہے۔  سو اسی بنا پر مینو سادہ ہوتا ہے کہ فیلڈ الاونس کی بچت ہوجائے۔ مگر ہماری ریڈار فٹروں کی ایک روایت ہے کہ جب بھی سپیشلسٹ پارٹی ہمارے ریڈار پر آتی ہے تو ہم ریڈار فٹر اپنے خرچے پر اُن کے لیے خصوصی کھانا تیار کرواتے ہیں؛ مرغ کڑاہی، گرم تندوری روٹیاں، قہوہ اور میٹھا سپیشل تیار ہوتا ہے۔ ہم ان کے ساتھ مل کر دن رات ریڈار کو ٹھیک کرنے کے لیے کام  بھی کرتے ہیں، اور ان کی مہمان نوازی ہماری اقدار میں شامل ہے۔

اس فیلڈ ڈیپلوئمنٹ میں جس ریڈار پر میں تعینات تھا وہ ایک صحرائی علاقے میں تھا۔ دور دور تک ریت کے ٹیلے تھے، گرمی شدید پڑ رہی تھی۔ ایسی آندھی چلتی تھی کہ آدمی، کپڑے، برتن سب ریت سے بھر جائیں۔ 

 ریڈار کو لگائے ایک ہفتہ ہوا تھا کہ ہیڈ کوارٹر سے پیغام موصول ہوا کہ او-سی صاحب ریڈار کی انسپکشن کے لیے دو دن بعد آرہے ہیں۔ وارنٹ آفیسر مسکین ریڈار پر انچارج تھے۔ انہوں نے فوراً تیاری شروع کروا دی۔ انسپکشن والے دن ریڈار تک جاتے راستے پر چونے کی لکیریں لگائی گئیں۔ ریڈار پر ریت سے ملتے جلتے رنگ کی چھولداریاں ڈال کر کیموفلاج کر دیا گیا۔ باورچی خانے کی جگہ کی خوب صفائی کی گئی۔ لوگوں نے قریبی قصبے جاکر بال کٹوائے۔ 

انسپکشن کے دن گیارہ بجے کی قریب او-سی صاحب کی جیپ ریڈار کی جانب آتی نظر آئی۔ جیپ رکی اور وارنٹ آفیسر مسکین نے فوراً آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور اپنی بساط سے کہیں بڑھ کر کڑاکے دار سلیوٹ کیا۔ انسپکیشن میں او-سی صاحب کے اطوار وہی پرانے تھے۔ تیز ہوا میں چونے کی لکیریں ریت پر کہاں ٹھہرسکتی ہیں، اوسی صاحب کو چونے میں کمی دکھ رہی تھی۔ "میں دیکھ رہا ہوں کہ اس ریڈار پر سب گندے انڈے اکٹھے ہوگئے ہیں، میں تم لوگوں کا کچھ بندوبست کرتا ہوں"۔ گردن کو اچکاتے اُن کے فرمودات بکواسیات سے مزین تھے۔ ان کے موڈ خراب ہونے میں شاید گرمی اور ٹوٹی سڑک پر تین گھنٹے کے سفر کا بھی اثر ہوگا مگر دوسری جانب مسکین صاحب کی حالت خراب تھی، جی جی کہتے جاتے اور عاجزی وخاکساری بڑھتی جاتی تھی۔ 

دوپہر کے کھانے کا وقت تھا، سو او-سی صاحب کو فیلڈ میس لایا گیا۔ چاچا بشیر کک نے او-سی صاحب کو سلام کیا اور ابلے شلجم اور چنوں کی دال کی دو پلیٹیں ان کے سامنے رکھ دیں۔ او-سی کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا۔ اُسی وقت وارنٹ آفیسر مسکین نے بڑی لجاجت سے کہا،" سر، آپ کے لیے دو انڈے منگائے تھے مگر دونوں ہی گندے نکلے"۔ 

اس لمحے نہ جانے کیوں مجھے وہ مسکین نہیں لگ رہا تھا، مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اس کے لبوں پر دور ایک ان دیکھی مسکراہٹ ہے۔ وہ مسکراہٹ جو کسی اورکے لیے نہیں، صرف اس کے اپنے لیے تھی۔

او-سی صاحب ریڈار سے ابھی واپسی کے سفر پر نکلے نہ ہونگے کہ کمیونیکشن لنک پر یہ واقعہ ہیڈ کوارٹر اور تمام ریڈاروں پر پہنچ چکا تھا۔ اُس شام  یونٹ کے تمام بکھرے میسوں میں اسی قصے پر بات ہورہی تھی۔ 

وارنٹ آفیسر کی بات کرنے کا طریقہ آج بھی درخواست گذاری کا ہے، مگر ایک عجب بات ہوئی، ایسی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی نہ سنی تھی۔ اُس دن کے بعد سے لوگ اُسے وارنٹ آفیسر سرفراز کے نام سے ہی پکارتے تھے۔ 


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com 




 

 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ